خیبرپختون خواہ میں جوں جوں
بلدیاتی الیکشن قریب آرہا ہے ، بلدیاتی الیکشن لڑنے والے امیدواروں کی
مصروفیات بھی ویسے ویسے بڑھ رہی ہیں۔آئے روز صوبے کے مختلف علاقوں میں
مختلف سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواران کی جانب سے کارنر میٹینگز، ریلیوں
اور ڈور ٹو ڈور رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ چند دن پہلے ضلع سوات کے یونین
کونسل ملوک آباد سے الیکشن لڑنے والی ایک سیاسی پارٹی کے مقامی امید وار نے
اپنے سپورٹرز کے ہمراہ علاقے کے ایک معزز شخصیت کے گھر کا دورہ کیا۔ چونکہ
مہان اپنی آمد اور آمد کامقصد پہلے سے بتا چکا تھا۔ اس لیے حاجی صاحب نے
بھی موقع کی مناسبت کو مدنظر رکھتے ہوئے آڑوس پڑوس سے چیدہ چیدہ لوگوں کو
اپنے مہمان خانے پر مذکورہ بالا سیاسی شخصیت کے آنے سے پہلے مدعو کیا۔ یہاں
اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس سیاسی شخصیت کے حاجی صاحب سے تعلقات بس
علیک سلیک کی حد تک تھے۔ اور اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ اس
پروگرام میں مہمانوں کے لیے جس ظہرانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ پختون روایات
کے برعکس اس کا انتظام مہمان یعنی اس سیاسی شخصیت نے خود کیا تھا۔ اگرچہ
حسب توقع حاجی صاحب نے اس پر کافی برا منایا تھا۔ بہر حال مہمان حضرات
تشریف لے آئے اور حاجی صاحب کی جانب سے ان کا پر تپاک استقبال کیا گیا۔ اس
کے کچھ دیر بعد بلدیاتی الیکشن لڑنے والے امیدوار نے علاقے اور اہل علاقہ
سے اپنی وفاداری کا اظہار کیا اورحسب ’’سیاسی روایات‘‘ حاضرین سے کچھ وعدے
کیے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ 30مئی کو اگر آپ نے مجھ پر اعتماد کیا اور
مجھے ووٹ دیا ۔تو میں آپ لوگوں کو مایوس نہیں کروں گا۔ امید وار نے جب اپنی
بات مکمل کی تو حاجی صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کر نا شروع کیا۔ حاجی
صاحب نے ویسے باتیں تو اور بھی کہیں لیکن جو بات خصوصی طورپر قابل ذکر ہے
اور جس بات نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا وہ یہ کہ موصوف نے اپنی
گفتگو کا اختتام کچھ یوں کیا۔ ووٹ خوبہ اسی بل یو خنزیر لہ ورکوؤنوتالہ بئی
راکو۔ جس کا مطلب ہے ’’ ووٹ تو ویسے بھی کسی خنزیر کو دینا ہے، تو آپ ہی
کودے دیں گے‘‘ حاجی صاحب کے اس انداز گفتگو کا ممکن ہے حاضرین میں سے کسی
نے برا منایا ہو، یا کسی نے مذاق سمجھ کر زیر لب مسکرانے پر ہی اکتفا کیا
ہو، لیکن جب مجھے حاجی صاحب کے اس جملے کا ایک نہایت ہی بااعتماد ذرائع نے
بتایا۔ تو مجھے الیکشن 2013 یاد آیا۔ 2013 کے الیکشن سے پہلے عالم اسلام کے
ایک نامور دینی ادارے ’’ جامعہ دارالعلوم کراچی‘‘ کے صدر نہایت ہی قابل
احترام جناب مفتی رفیع عثمانی یا غالباً ان کے چھوٹے بھائی عالم اسلام کے
نامور شخصیت محترم جناب مفتی تقی عثمانی کی جانب سے تحریر کردہ وہ کتابچہ
یاد آیا ۔ جس میں ووٹ کو ایک امانت قرار دے کر اسے اہل اور مستحق فرد کو
دینے اور اہل فرد ہونے کے باوجود ووٹ کسی نااہل شخص کو دینے اورپھر اس کے
نتائج کے بارے میں کھل کر ہدایات بیان کی گئی تھی۔ میں نے جب اس کتاب کے
بارے میں غور کیا اورپھر حاجی صاحب کے روئیے کے بارے میں سوچا تو میں سوچوں
میں گم ہوتا چلا گیا۔ میں سوچ ہی سوچ میں اس مقام تک پہنچا کہ جہاں کچھ
عرصہ پہلے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے ہی ووٹوں سے منتخب کردہ ایم پی اے
کے خلاف بڑے سخت الفاظ میں صرف اس لیے بول رہے تھے ۔ کہ ایم پی اے صاحب نے
منتخب ہونے کے بعد علاقے میں ترقیاتی کام کرنا تو کجا اہل علاقے کو اپنا
دیدار کرانے کا بھی قابل نہ سمجھا ۔ میں نے اس موقع پر ایک صاحب سے پوچھ
لیا کہ بھیا !آج دل جلانے سے بہتر نہ تھا کہ کل انتخاب کے وقت آپ سوچ سمجھ
کر کسی موزوں شخص کو ووٹ دیتے؟ تو وہ صاحب یوں گویا ہوئے: یہی تو سب سے
زیادہ موزوں تھا۔ میں نے پھر سوال کیا وہ کیسے؟ تو اس نے کہا کہ یار اس کا
جو بڑا سیاسی حریف ہے اس سے تو ہماری برادری والوں کی بنتی ہی نہیں ۔ وہ
کتنی بار ووٹ مانگنے آچکے ہیں ۔لیکن ہم سب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اسے ووٹ
بالکل بھی نہیں دیں گے۔ دوسرے ایک مولانا کھڑے تھے، تو ابھی آپ خود سوچیں
کہ ایک مولانا بے چارہ ہمارے لیے کر بھی کیا سکتا ہے۔ جبکہ آپ کو معلوم ہے
کہ ہم لوگوں کے کئی معاملات ایسے ہوتے ہیں جن میں کسی با اثر شخص کا ہونا
لازمی ہوتا ہے۔ مثلاً: تھانہ، تحصیل سے لے کر کورٹ کچہری تک کے معاملات۔ وہ
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ملا کی دوڑ مسجد تک اب اگر ایک ملا کہ جس کی
رہائش بھی مسجد کے گھر میں ہو۔ اسے بھلا کوئی کیوں ووٹ دے۔ میں نے ان سے
آخری سوال یہ پوچھا کہ آپ کی برادری کا ووٹ بنک کتنا ہوگا اور ان میں سے
کتنے لوگ ایسے ہوں گے جن کو کورٹ کچہری جیسے مسائل کا سامنا ہے؟تو اس نے
کہا کہ ووٹ تو ہمارا ہزاروں میں ہے جبکہ دو چار لوگوں کو کورٹ کچہری جیسے
مسائل کا سامنا ہے۔
قارئین کرام! مذکورہ بالا دونوں باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ذرا سوچیں تو آ
پ کو اندازہ ہوجائے گا کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر ایسا ہوتا کہ ہم بات
تو نظریے اور اصول کی کرتے ہیں ۔ لیکن جب اس پر عمل کرنے کا موقع آتا ہے تو
ہمارا عمل اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ اگر ہم صرف الیکشن ہی کی بات کریں
تواس میں بھی یہی ہوتا ہے۔ کہ ایک باکردار ، شریف النفس اور خدمت خلق کا
جذبہ رکھنے والا شخص صرف اس لیے ہمارے ووٹ سے محروم رہ جاتا ہے کہ اس سے
ہمارا ذاتی تعلق، برادرانہ مراسم بہت زیادہ گہرے نہیں ہوتے یا پھر ان کے
ہاتھ اتنے’’ لمبے‘‘ نہیں ہوتے۔ ہم اس وقت تو ذاتی تعلق، برادرانہ مراسم اور
جس کو ہم ووٹ دیتے ہیں ان کے اثر و رسوخ کو سامنے رکھتے ہوئے منتخب کرلیتے
ہیں۔ لیکن بعد میں ہمارے پاس سوائے پچھتانے کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اس
لیے کل کے پچھتاوے اور پیشمانی سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ ہم ضمیر کی آواز
پر لبیک کہتے ہوئے اہل اور ایماندار افراد کو منتخب کریں ۔ چاہے وہ قومی و
صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں یا پھر بلدیاتی انتخابات۔ اگرہم نے اہل
لوگوں کو منتخب کرلیا توپھر ان شاء اﷲ ہم انہیں اپنے درمیان موجود بھی
پائیں گے اور جب وہ موجود نہیں ہوں گے تب ان کی تعریف بھی کریں گے۔ ناکہ ان
پر غصہ نکالیں گے ۔ لیکن ’’حاجی صاحب سے معذرت کے ساتھ‘‘ اگر ہم ووٹ
’’خنزیروں‘‘ میں بانٹنے کے باوجود بھی بھلائی کی امید رکھیں تو پھر ممکن ہے
کہ لوگ ہمیں نارمل انسان تصور کرنا چھوڑ دیں۔ تب اس صورت میں قصور ہمارا ہی
ہوگا ناکہ لوگوں کا۔
|