بول کی بولتی بند کرنے کی کوشش

وزیر داخلہ چودہری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ ’’ ا یگزیکٹ ‘‘ کے خلاف کارروائی غیر ملکی اخبار میں رپورٹ شائع ہونے پر کی گئی، ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل ٹیم کا’’ایگزیکٹ‘‘ کے خلاف کریک ڈاؤن کے بارے میں موقف ہے کہ ’’بہت کچھ غیر قانونی کام کا ریکارڈ ہاتھ لگا ہے، تحقیقات کے مکمل ہونے پر مذید انکشافات کی توقع ہے، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سابق سربراہ جناب عطا الررحمان کا کہنا ہے کہ یقین ہے ایگزیکٹ‘‘ ’’جعلی ڈگریوں کے کاروبار میں ملوث ہے اور س یہ لوگ مجرم ہیں ،امریکی اخبار کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے جعلی ڈگری جاری کرنے والے لاکھوں جانوں سے کھیل رہے ہیں ،عالمی سطح پر بڑا فراڈ ہو رہا ہے،ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے‘‘ امریکی اخبار میں ایگزیکٹ کے خلاف رپورٹ کی اشاعت سے قبل عام پاکستانیوں کی اکثریت اس کے نام اور کام سے اتنے ہی لاعلم تھے جس قدر وہ ملک میں یوگنڈا کے سفیر کے نام سے واقف میں نہیں کہتا کہ ’’ ایگزیکٹ ‘‘ کی انتظامیہ دودھوں نہائے ہوئے ہیں، اور وہ جعلی ڈگریوں ،ٹیکس چوری سمیت دیگر غیر قانونی دھندوں میں ملوث نہیں ہیں…… لیکن سوال یہ ہے کہ کہ اگر اس کے متعلق رپورٹ امریکی اخبار میں شائع نہ ہوتی تو حکومت اور اسکے ادارے یونہی آنکھیں بند رکھے اس کے غیر قانونی کاروبار سے چشم پوشی اختیار کیے رہتے؟ جناب عطا الررحمان جو 2002-2008 تک ہا ئر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ رہے ہیں ، اور ایسے اداروں پر نگاہ رکھنا ان کے فرائض منصبی میں شامل تھا تو پھر انہوں نے اس سے کیوں صرف نظر کیا؟ وہ بھی ایسی صورتحال میں جب وہ ایڈوائزر ٹو پرائم منسٹر بھی رہے ہوں…… بیس سال بعد جعلی ڈگریوں کے بزنس میں عالمی سطح پر فراڈ کرنے والے ادارے کے خلاف کارروائی امریکی اخبار میں رپورٹ کی اشاعت پر کیا جانا بھی تعجب خیز ہے…… ان بیس سالوں مین کتنے ایسے افراد نے ملازمتیں حاصل کیں اور ان کی ڈگریاں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے تصدیق کیں تھیں۔سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے وزیر داخلہ رحمان ملک یہ کہہ کر کہ ’’ ایگزیکت کے معاملات کبھی ان کے سامنے نہیں آئے اور ’’بول‘‘ کی اجازت ان کے بعد آنے والی نگران حکومت نے دی تھی‘‘ خود کو برالزمہ قرار دے چکے ہیں باقی سارا ملبہ موجودہ حکومت کے ’’ مضبوط و توانا ‘‘ کندھوں پر ڈالدیا گیا ہے-

ایف آئی اے سمیت دیگر ملکی اداروں کا جعل سازی میں ملوث اداروں سے چشم پوشی کرنا یا اس سے بے خبر رہنا ان اداروں کی کارکردگی پر بہت سے سوالیہ نشانات لگاتے ہیں،حکومتوں اور اس کے اداروں کی کارکردگی سے متعلق رپورٹس ملکی و غیر ملکی میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں لیکن جس تیزی سے ’’ ادارے ایگزیکٹ کے خلاف حرکت میں آئے ہیں ’’ وہ پھرتی‘‘ بھی کئی سوالات پیدا کرتی ہے، کیونکہ ٹیکس تو اور بھی بڑے بڑے ملکی ادارے چوری کر رہے ہیں اور ان کے خلاف میڈیا میں چیخ و پکار اور دہائی بھی دی جا رہی ہے لیکن ……؟

ایگزیکٹ کے حوالے سے کئی اداروں کا ’’ایکا‘‘ کرکے اس کے خلاف خبروں ،خصوصی رپورٹس اور اسکے ملازمین کے بیانات پر مبنی مرچ مصالحے کے ساتھ خبروں کی اشاعت سے عیاں ہوتا ہے کہ ’’ دال میں کچھ کالا‘‘ ضرور ہے،معاملات زیر تفتیش ہیں بقول وزیر داخلہ ایگزیکٹ کا معاملہ بہت حساس نوعیت کا ہے اس لیے اس پر محتاط رہا جائے…… وزیر داخلہ صاحب ہم نے آپ کی ہدایت ہر عمل کیا ہے ، مگر بہت سے دوسرے صحافتی ادارے آزادی کے ساتھ ’’ایگزیکٹ ‘‘ کے ساتھ زیادتی کے مرتکب ہو رہے ہیں،انہیں بھی دائرے میں رہنے کا پابند کیا جائے……بعض میڈیا اطلاعات کے مطابق بعض میڈیا ہاؤسز ایگزیکٹ کے ذیلی ادارے ’’بول‘] ٹی وی کے متاثرین میں شامل ہیں-

ہماری حکومت خصوصا وزیر داخلہ سے عرض ہے کہ وہ اس بات کا اہتمام کریں کہ ایگزیکٹ انتطامیہ کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہ ہونے پائے اور اسے اپنا مقدمہ پیش کرنے کی ہر طرح کی آزادی حاصل ہو ،اس کے راستے میں رکاوٹیں حائل نہیں ہونی چاہئیں شعیب احمد شیخ کو اپنی صفائی کا پورا موقعہ ملنا چاہئیے اور اس کے حریف میڈیا ہاؤسز کو اسکے میڈیا ٹرائل سے باز رکھنے کے انتظامات کیے جائیں، اور اس کے علاوہ ایف آئی اے کو یہ بھی ٹاسک دینا چاہیے کہ وہ ایسے میڈیا ہاؤسز اور ان کے ذیلی اداروں کا کھوج لگائے جو ٹیکس چوری اور دیگر غیر قانونی کاموں میں مصروف کار ہیں۔ وزیر داخلہ کو ایف آئی اے کے حکام کی بھی سرزش کرنی چاہیے کہ کیسے ممکن ہوا کہ ایگزیکٹ ان کی موجودگی میں اتنے وسیع پیمانے پر غیر قانونی دھندے کو کامیابی سے چلاتا رہا اور قانون سمیت اسے کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں بازی لے جاتا رہا؟

حکومت کو امر کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ کہیں ’’بول‘‘ کے متاثرین کی ملی بھگت اور سازش کے تحت امریکی اخبار نے ایگزیکٹ کے خلاف ’’ کام ‘‘ نہ دکھایا ہو؟ احتیاط برتنے کا اس لیے کہا ہے کہ کہیں عدالت میں ایف آئی اے اپنا مقدمہ ہی ثابت نہ کر پائے اور ایگزیکٹ عدالت کے کٹہرے سے باعزت بری ہوجائے…… لیکن میڈیا ٹرائل سے جو کچھ نقسان ہو چکا ہوگا وہ کسی طور واپس نہ اسے ملے گا۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144462 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.