ہم کہ ٹھہرے اجنبی
(Malik Abdul Rehman Jami , Abbotabad)
پاکستان اور بھارت پڑوسی ملک
ہیں۔دونوں نے ایک ہی وقت میں انگریز راج سے آزادی حاصل کی۔فرق صرف اتنا ہے
کہ ہندو اکثریت کے بل بوتے پہ مسلمانوں پہ حکومت کا حق چاہتے تھے لیکن قائد
اعظم علیہ الرحمۃ نے بر وقت اس خطرے کو بھانپتے ہوئے مسلمانوں کے لئے
علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا اور پھر سر توڑ کوشش کے بعداس کے حصول میں کامیاب
رہے۔دنیا کے نقشے پہ اس وقت کی سب سے بڑی اسلامی مملکت ظہور پذیر ہوئی۔یہ
وہ پھانس ہے جو ابھی تک بھارت کے گلے سے نیچے نہیں اتری۔کانگریس ہو یا جنتا
پارٹی جو بھی بھارت میں بر سر اقتدار آتا ہے اس کی توپوں کا رخ ہمیشہ
پاکستان کی جانب ہی رہتا ہے۔بھارت توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والا ملک ہے
جس کی نظریں ہر وقت اپنی سرحدوں کی توسیع پہ جمی رہتی ہیں۔ علاقے کے دوسرے
ممالک ہمیشہ ہی سے اس کی کارستانیوں کا شکار رہے ہیں۔سری لنکا سے لے کے
نیپال تک ایک لمبی فہرست ہے۔یہ کہانی پھر سہی۔
خطے میں پاکستان واحد ملک ہے جو بھارت کی دھونس میں نہیں آتا۔بھارتی حکمران
ہر مسئلے اور ہر فورم پہ پاکستان کو نیچا دکھانے کی سعی کرتے نظر آتے ہیں۔
پاک بھارت جنگیں ،بنگلہ دیش کا قیام اور حالیہ دہشت گردی اس کی بہترین
مثالیں ہیں۔جنگی جنون کے علاوہ بھارت پاکستان کو معاشی طور پہ بھی تباہ
کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا۔کالا باغ ڈیم اور اب معاشی راہداری کی
مخالفت بھارت کے مذموم ارادوں کا پردہ چاک کرنے کو کافی ہیں۔روزِ اول ہی سے
بھارت کی خواہش ہے کہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی طور پہ اتنا کمزور کر
دیا جائے کہ یہ خود اپنے ہی قدموں پہ گر پڑے لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ
تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ
انسان سوچتا کچھ ہے لیکن کائنات کا مالک انسان کے ارادے اسی کے اوپر پلٹ
دیتا ہے۔پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے لئے عطیہ ِ خداوندی ہے۔یہ انشاء اﷲ
صبحِ قیامت تک قائم و دائم رہے گا۔
ہمارے ہر حکمران نے خواہ وہ سیاسی تھے یا فوجی ،بھارت کے ساتھ ہمیشہ تعلقات
بہتر کرنے کی کوشش کی۔موجودہ حکومت نے تو اﷲ اور بھگوان کا فرق بھی مٹا دیا
لیکن اسے کبھی پرامن بقائے باہمی کے طور پہ نہیں ہمیشہ کمزوری پہ محمول کر
کے بنیا اور پھیلتا گیا۔مجھے یاد ہے جب ہندوستان نے دوسری بار ایٹمی دھماکے
کئے تو بھارت کے لال کرشن ایڈوانی کی گیدڑ بھبھکیاں کان پھاڑے دیتی
تھیں۔موصوف پاکستان کو سبق سکھانے کی باتیں کرنے لگے تھے لیکن جب بھارتی
پٹاخوں کے جواب میں پاکستان نے سات ایٹمی دھماکے کئے تو ان کی بولتی بند ہو
گئی تھی۔ آج ایک بار پھر بھارتی کابینہ کے وزراء وہی زبان بولنے لگے ہیں۔وہ
پاکستان میں دہشت گرد داخل کرنے کی بات یوں ببانگ دھل کرتے ہیں جیسے انہیں
اس کا حق حاصل ہے۔بلوچستان کے بعد اب کراچی ان کا ہدف ہے۔پاکستانی میڈیا کے
وہ عناصر جنہیں ابھی تک بھارتی راتب کی لت نہیں لگی،چیخ چیخ کر بھارتی
مداخلت کا اعلان کر رہے ہیں۔وزیر دفاع اور وزیر داخلہ بھی اب کھل کر را کا
نام لینے لگے ہیں۔ایسا نہیں کہ پاکستان میں را کی مداخلت کے ثبوت پہلے دفعہ
ہمارے ہاتھ لگے ہیں۔وہ تو کئی بار بین الاقوامی برادری کے سامنے پیش کئے جا
چکے لیکن لگتا ہے اب پانی سر سے گذر رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آرمی چیف جنرل
راحیل شریف نے بھی ملک دشمنوں کو کھلے عام اس کام سے باز رہنے کی تنبیہ کی
ہے اور کور کمانڈر کانفرنس میں بھی اس مسئلے پر غوروفکر کیا گیا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستانی وزراء کے بیانات اور کور کمانڈر
کانفرنس میں اس پہ غور خوص بھارتی حکمرانوں کو ان کے ان اوچھے ہتھکنڈوں سے
باز رکھ سکے گا یا اس کے لئے ہمیں ان کی آنکھوں میں ا ٓنکھیں ڈال کے وہی
کچھ کرنا پڑے گا جو وہ ہمارے ساتھ کر رہے ہیں۔وقت آ گیا ہے کہ ہم بیانات سے
تھوڑا آگے بڑھ کے کچھ عملی نمونے پیش کریں جیسے ہم نے بھارتی دھماکوں کے
وقت پیش کئے تھے۔بنیالاتوں کا بھوت ہے باتوں سے کبھی نہیں مانے گا۔ہمیں
اپنی پالیسی بدلنا ہو گی۔ہمیں وہی کچھ کرنا ہوگا جو بھارت کررہا ہے۔بھارت
کی مسلط کردہ جنگ کو جنگی بنیادوں پہ ہی لڑنا ہوگا۔ کون نہیں جانتا کہ
طالبان بھارت کا ہتھیار ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کی سیاسی قوتیں بھی
را اور بھارت کے دست شفقت کی طلبگار ہیں۔ضربِ عضب کے ساتھ ساتھ اب ہمیں
ضربِ غضب بھی شروع کرنا ہو گا ۔ہمیں اب دشمن کو اس کے گھر میں جا کے جواب
دینا ہوگا۔
بھارت میں اس وقت آزادی کی بے شمار تحریکیں موجود ہیں ۔کیا وقت نہیں آیا کہ
ہم ان کے سر پہ ہاتھ رکھیں۔جنگ میں کون جیتا ہے اور کون مرتا ہے اس سے کسی
کو غرض نہیں ہوتی۔دشمن کسی لحاظ کا مستحق نہیں ہوتا۔ وہ ہماری
مسجدوں،مزاروں گھروں بازاروں میں ہمیں مار رہا ہے اور ہمارے کچھ لوگ امن کی
فاختائیں اڑا رہے ہیں۔ ہمیں کچھ عرصہ ان فاختاؤں کو پنجرے میں بند کر کے
ممولوں کو آزاد کرنا ہوگا جو باز کے پنجے توڑنے کی ہمت رکھتے ہوں۔بھارت یہی
زبان سمجھتا ہے اس کو اسی کی زبان میں جواب دینا اب ضروری ہو گیا ہے۔یہی
وقت ہے جب اس کو دندان شکن جواب دیا جا سکتا ہے۔یہ موقع ضائع ہو گیا تو
کالا باغ ڈیم کی طرح آپ کو معاشی راہداری کے منصوبے کو بھی بھولنا
ہوگا۔کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں تو صرف بھارت ہی تھا،راہداری کی مخالفت تو
انکل سام اور اس کے حواری بھی کر رہے ہیں۔ہم بھارت کی مخالفت کی وجہ سے
کالا باغ ڈیم نہیں بنا سکے اگر ہم نے بروقت تدارک نہ کیا تو راہداری بھی
ایک خواب بن کے رہ جائے گی۔
یہ متحد ہو کے سروں پہ کفن باندھنے کا وقت ہے اور میدان جنگ میں کودنے کا
۔صرف غور وخوض اور بیان دینے سے کام نہیں چلے گا۔بھارت کے ساتھ امن ایک
خواب ہے اور اس کی تعبیر اس کے ساتھ جنگ ہی میں مضمر ہے۔وہ جنگ چاہے کھلی
ہو یا خفیہ۔اس کے بغیر امن اس خطے کے لئے خواب ہی رہے گا۔ |
|