طوطا مینا کی کہانی

طوطا مینا شادی کرکے جنگل کے ایک کونے میں ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے کہ ایک دن اچانک اُلو نے مینا کو زبردستی اغواء کر لیا اور اسے اپنے گھر میں قید کر دیا ۔ طوطے نے لاکھ دھائی دی مگر اُلو نے اس کی ایک نہ سنی ۔ طوطے نے جنگل کی عدالت میں اپنی بیوی کی رہائی کے لئے مقدہ دائر کر دیا لیکن اُلو چونکہ زور ٓاور تھا لہذا عدالت نے اس کے حق میں فیصلہ دے دیا ۔ طوطا بہت مایوس اور غمگین ہوا ،یہاں تک کہ اس زیادتی سے دلبرداشتہ ہو کر اس نے جنگل چھوڑ دیا ۔ اسی طرح جنگل کے طاقتور باسی کمزوروں کے ساتھ ظلم کرتے رہے اور عدالتیں طاقتوروں سے مرعوب ہو کر ان کے حق میں فیصلے دیتی رہیں ، ناانصافی کا یہ سلسلہ چلتا رہا اورجنگل کے مظلوم باسی طوطے کی طرح جنگل چھوڑ کر جاتے رہے اور پھر ایک دن جنگل خالی ہو گیا۔ Moral: جب انصاف اٹھ جاتا ہے تو بستیاں ویران ہو جاتی ہیں۔
انصاف بنیادی طور پر دو طرح کا ہوتا ہے ؛ Remedial Justiceاور Distributive Justice۔
کسی فرد کے ساتھ ہونے والی زیادتی یا اس کو پہنچنے والے جانی یا مالی نقصان کی صورت میں اس کی دادرسی کرناRemedial Justiceکہلاتا ہے جبکہ ملکی وسائل کی ٓابادی کے تناسب سے تقسیم Distributive Justiceکہلاتی ہے ۔ہر دو طرح کا انصاف ریاست کے باسیوں کا بنیادی حق اور اس کی فراہمی حکومت وقت کا بنیادی فرض ہوتی ہے لہذاریاست دادرسی کے لئے نظام عدل قائم کرتی ہے جبکہ وسائل کی تقسیم دیگرحکومتی مشینری کے ذریعہ عمل میں لاتی ہے ۔وسائل ایک وسیع اصطلاح ہے جو ریاست کے اندر پائی جانے والی ہر مادی یا غیر مادی شے کا احاطہ کر تی ہے مثال کے طور پرسینٹ کی سیٹیں اور وفاقی ملازمتیں بھی وسائل ہی تصور ہوتے ہیں اور ان کی تقسیم بھی صوبوں کی ٓابادی کے تناسب سے عمل میں ٓاتی ہے ۔

دادرسی میں خلل ، وسائل کی تقسیم اور فراہمی میں گڑبڑ ، ناانصافی کہلاتی ہے۔ ناانصافی ، حالات میں خرابی اور معاشرے میں بگاڑ پیداکرتی ہے۔جب حالات خراب اور معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے تو پھر طاقتور کمزور پر حاوی ہوجاتے ہیں ایسی ْصورت میں کمزورلوگ تین قسم کے رد عمل اختیار کرتے ہیں؛ پہلا ؛ وہ اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر چپ چاپ ظلم سہتے رہتے ہیں اور جب ان کی برداشت ختم ہو جاتی ہے تو پھر وہ اپنے ٓاپ کو ختم کر لیتے ہیں ، دوسرا؛ وہ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا بدلہ خودلینے کے راستے پر چل نکلتے ہیں،تیسرا؛ وہ طوطے کی طرح جنگل چھوڑ دیتے ہیں ۔

پہلے رد عمل کا ثبوت پاکستان میں بسنے والے مزارے جو سالوں سے چپ چاب جاگیر داروں اور وڈیروں کا ظلم سہہ رہے ہیں ۔ یہ جاگیر دار اور وڈیرے ہی ان کے حاکم ہیں وہ ان کے ساتھ جو چاہے کریں انہیں نہ کوئی روکنے والا ہے نہ پوچھنے والا۔ جب کوئی مزارع یا مزدور ظلم سے تنگ ٓاجاتا ہے تو پھر وہ خود کو ختم کر لیتا ہے دوسری طرف شہروں میں بھی ٓائے دن خود کشی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں ۔ ساری دنیا میں خود کشی کرنے والوں کی تعداد کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے مگر پاکستان میں دلچسپ بات یہ ہے کہ خودکشی کرکے مرنے والوں کی تعداد کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا ۔اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان میں ہر سال خود کشی سے کتنی اموات واقع ہو تی ہیں تاہم کوئی دن ایسا نہیں جاتا جس دن اخبار میں کسی خود کشی کی خبر نہ چھپی ہو۔ خود کشی سے ہونے والی ہر موت کے پیچھے کوئی نہ کوئی ناانصافی کار فرما ہوتی ہے ۔

دوسرے رد عمل کا ثبوت پاکستان میں بڑھتے ہوئے کرائم ریٹ سے لگایا جا سکتا ہے ۔ صرف کراچی شہر میں روزانہ کی بنیادوں پر ہونے والے جرائم کا ہی حساب لگانا مشکل ہے ۔ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی جرم کی تعداد کچھ کم نہیں ۔ ان جرائم میں دو طرح کے افراد ملوث ہیں ایک تو وہ جن کا ذریعہ معاش ہی جرم ہے دوسرے وہ جو کسی نا انصافی کا شکار ہو کر بدلے کی ٓاگ میں اس راستے پر نکلے اور پھر اتنی ٓاگے نکل گئے کہ و ٓاپسی کا راستہ ہی بھول گئے ۔

تیسرے رد عمل کے طور پر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کاسی این این کو دیاایک انٹرویو یاد ٓاتا ہے جس میں انٹر ویو کرنے والی خاتون نے ایک گیلپ سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ٓاپ کے ملک کے حالات اتنے خراب ہیں کہ ایک تہائی پاکستانی ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں ۔یہ ایک تہائی وہ ہیں جو طوطے کی طرح ناانصافی سے دلبرداشتہ ہو کر جنگل چھوڑ ناچاہتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا "پھر وہ چھوڑ کیوں نہیں دیتے انہیں کون روک رہا ہے "۔

تارکین وطن کو دیکھ کر میرے ذہن میں اکثر سوال اُٹھتا ہے کہ جتنی محنت یہ لوگ دیار غیر میں کرتے ہیں اس سے ٓادھی بھی اپنے ملک میں کریں تو اتنے ہی پیسے کماسکتے ہیں جتنے دیار غیر میں کما رہے ہیں تو پھر کیوں اپنا گھر بار، ماں با پ ، بہن بھائی، بیوی بچوں ، دوستوں عزیز رشتہ داروں سے اتنی دور بنواس کاٹنے چلے جاتے ہیں ؟ کوئی شک نہیں کہ اس میں انسانی خواہشات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے ۔ اپنی اور اپنے ساتھ جڑئے ہوئے لوگوں کی زندگی کو سنوارنا اور خوب سے خوب تر کی تلاش ہر انسان کا خواب اور حق ہے لیکن کیا سارے اسی خواب کی تلاش میں دیار غیر کی خاک چھانتے ہیں جہاں سے بعض اوقات انہیں زندہ لوٹنا اور اس خواب کی تعبیر دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوتا؟ گیلانی صاحب کے کہنے کا مطلب تھا کہ ایسا نہیں ہے لیکن درحقیقت ایسا ہی ہے ۔لوگ چھوڑ نا چاہتے ہیں ۔روزانہ کی بنیادوں پر ہزاروں پاکستانی بیرون ملک جانے کیلئے درخواستیں دیتے ہیں اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پاکستان کا اثاثہ ہیں ۔ ایسا نہیں کہ لوگوں کو پاکستان سے محبت نہیں بلکہ ان کی ملک چھوڑنے کی خواہش کا سبب کوئی نہ کوئی نا انصافی ہے ۔

جب تک ناانصافی کا سلسلہ چلتا رہے گا لوگ خود کشی کرتے رہیں گے، جرم بڑھتا رہے گااور ہجرت ہوتی رہے گی ۔ خدا کرئے ہماری بستی ویران نہ ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ جب انصاف اٹھ جاتا ہے تو بستیاں ویران ہو جاتی ہیں۔
Zahid M. Abbasi
About the Author: Zahid M. Abbasi Read More Articles by Zahid M. Abbasi: 14 Articles with 15340 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.