گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آف
پاکستان نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ نہ دینے پر دائر درخواستوں کی
سماعت کے دوران وفاقی حکومت کو کیس میں جواب جمع نہ کروانے پر جرمانہ عائد
کرتے ہوئے تین دن کے اندر جواب جمع کرانے کا حکم دیا ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ
اور جسٹس عظمت سعید پر مشتمل دورکنی بنچ نے کیس کی سماعت کے دوران وفاقی
حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پانچویں سماعت ہے اور وفاقی
حکومت نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا
کہ 1973ء کاآئین نظریاتی لوگوں نے بنایا تھا، اس میں طاقت کا سرچشمہ عوام
کو قرار دیا گیا تھا، لیکن حکومت نے عوام کی زبان بندی کروادی ہے ۔ فاضل جج
نے کہاکہ جہاں وفاقی حکومت آئین بننے کے 15سال کے اندر اندر ملک بھر میں
اردو زبان کی ترویج کی زمہ دار تھی وہیں صوبائی حکومتیں بھی صوبائی اور
علاقائی زبانوں کی ترویج کی زمہ دار تھیں، لیکن آئین کے اس آٹیکل پر کسی نے
بھی عمل نہیں کیا۔‘‘
بلاشبہ قوموں کی ترقی میں مادری اور قومی زبان نہایت ہی اہمیت کی حامل ہوتی
ہے کیونکہ زبان سے ہی اشخاص اور معاشرے کا تہذیب و تمدن منسلک ہوتا ہے۔
پاکستان کی ترقی میں اردو زبان کا نفاذ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، اگرچہ
ریاست پاکستان کی اس بنیاد سے اختلاف کرنے اور اس بنیاد کو کھوکھلا کرنے
والوں کی بھی کمی نہیں، لیکن انھیں تحریک پاکستان سے کوئی ایسا حوالہ نہیں
ملتا، جس سے وہ اردو کے سوا کسی دوسری زبان کو پاکستان کی قومی زبان کے طور
پر ثابت کر سکیں۔ قائداعظم نے 1948ء میں ڈھاکا میں اردو کو قومی زبان قرار
دیا۔ قیام پاکستان سے پہلے سب ہی متفق تھے کہ اس مملکت کی زبان اردو ہوگی۔
مملکت خداداد پاکستان کا شمار باقاعدہ رائے شماری کے ذریعے وجود میں آنے
والی ریاستوں میں ہوتا ہے۔ جب ریاست ایک ضابطے کے تحت وجود میں آئی، تو پھر
اس کی بنیاد سے انحراف مناسب نہیں۔بنیادی طور اس کے قیام میں مذہب کو بھی
دخل تھا۔ مذہب کے بعد دوسری اہم چیز زبان تھی۔ برصغیر میں مسلمانوں کی
علیحدہ ریاست کی تحریک کے دوران ہمیشہ دو ٹوک انداز میں اردو کو نئی ریاست
کی زبان قرار دیا گیا۔ گویا زبان، مذہب کے ساتھ ریاستی نظریے کی دوسری بڑی
بنیاد ہے۔ریاستوں کے امور آئین کے تابع ہوتے ہیں اور آئین ریاستوں کے مقاصد
پر استوار ہوتا ہے۔ آئین میں ریاست کی بنیاد کو چھیڑنے کی اجازت نہیں ہوتی،
کیوں کہ آئین سے پہلے ریاست وجود میں آتی ہے، جس کا کچھ پس منظر ہوتا ہے۔
اردو اور ہندی کے تنازع نے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں میں شدید تشویش کی
لہر پیدا کی۔ یہی وجہ ہے کہ 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کے وقت سے
ہی اردو کو مسلمانوں کے ثقافتی ورثے کی حیثیت سے اپنے منشور میں شامل کیے
رکھا۔ 1946 میں پاک و ہند کی پہلی عبوری حکومت میں سردار عبدالرب نشتر وزیر
ڈاک وتار بنائے گئے تو پہلی بار ریلوے کے نظام الاوقات، ٹکٹوں اور فارم پر
اردوکو اختیار کیا گیا۔ 1946 میں مسلم لیگ کے اجلاس میں فیروز خان نون نے
انگریزی میں تقریر شروع کی تو ہر طرف سے ’’اردو۔اردو‘‘ کی آوازیں آئیں۔ جس
پر انھوں نے چند جملے اردو میں کہے اور پھر انگریزی میں شروع ہو گئے، مجمع
سے پھر اردو اردو کا مطالبہ ہوا، تو انھوں نے کہا کہ ’’مسٹر جناح بھی تو
انگریزی میں تقریر کرتے ہیں۔‘‘ یہ سننا تھا کہ قائداعظم کھڑے ہوئے اور
فرمایا ’’فیروز خان نے میرے پیچھے پناہ لی ہے، لہٰذا میں اعلان کرتا ہوں کہ
پاکستان کی زبان اردو ہو گی۔ ‘‘
پاکستان کے قیام کے ذریعے مسلمانان برصغیر نے ایک ایسی ریاست کی جدوجہد کی،
جس کی زبان اردو تھی۔ آئین کی دفعہ 251 کے تحت اردو کو پاکستان کی واحد
قومی زبان کا درجہ تو حاصل ہے، لیکن اسے آئین میں دی گئی مقررہ مدت (1988ء
تک )میں نافذ نہیں کیا جا سکا، الٹا کچھ ناعاقبت اندیش اسے قومی زبان کے
رتبے سے پیچھے دھکیلنے کے درپے رہے ہیں۔ لوگوں کو جوڑنے والی شیریں زبان ’’
اردو‘‘ کو لوگوں میں دوریاں پیدا کرنے کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔
آج کل کچھ قوتیں اردو کو قومی زبان کا درجہ نہ دینے کے لیے سر جوڑے بیٹھی
ہیں۔ اور انتہائی غیر مناسب طور پر اردو کو بھی دیگر زبانوں کی طرح لوگوں
کی ایک مادری زبان قرار دیاجا رہا ہے۔ ماہرین لسانیات کا ماننا ہے کہ آج
گھر وں میں اردو بولنے والوں میں بہت کم لوگوں کا پس منظر اردو کا ہے۔ اردو
کے ساتھ ان کا ناتا فقط چند نسلوں پرانا ہے۔ اس کے علاوہ اردو ہی وہ زبان
ہے جسے تقریباً ہر فرد ہی اپنی مادری زبان کے بعد سب سے زیادہ بہتر طریقے
سے بول، سمجھ اور لکھ سکتا ہے، لہٰذا اردو کو محض مادری زبان قرار دے کر
محدود کرنا نرم سے نرم الفاظ میں نا عاقبت اندیشی کے سوا کچھ نہیں۔
قائداعظم نے 24مارچ 1948ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب میں فرمایا
کہ اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی راہ پر گامزن
کرنا ہے تو اس کی سرکاری زبان اردو ہی ہو سکتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں قومی زبان اردو کو اس کے تاریخی اور آئینی مقام سے بے
دخل کرنے کی باتیں کی جا تی رہی ہیں، جو نہایت تشویش ناک امر ہے۔ جبکہ
پاکستانی عوام ایک عرصے سے زور دے رہے ہیں کہ قومی زبان اردو کو تمام تر
سرکاری اداروں اور عدلیہ میں نافذ العمل کیا جائے۔ نفاذ اردو کے لیے ہمارے
دوست ادیبوں اور صحافیوں کی خدمات بھی لائق تحسین ہیں ۔ اوراب ہماری عدالت
عظمیٰ کے تیور بتا رہے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 251اور بانی پاکستان کے حکم
پر عمل ہو کر رہے گا، روشنی کی کرن پھوٹی ہے کہ جلد اردو ہماری قومی زبان
ہوگی۔معزز جج صاحبان نے تو اس میں رکاوٹ کے مجرمان کی فہرست طلب کرتے ہوئے
وزیر اعظم کو بھی طلب کرنے کا عندیہ دیا ہے۔عدالت نے مزید مہلت نہ دیتے
ہوئے کہا کہ ملک میں دس فیصد انگلش بولنے والے غالب اور نوے فیصد مغلوب ہیں۔
‘‘
حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی قومی زبان ’’اردو‘‘ کو پورے ملک میں مکمل
طور پر نا فذ العمل کرنے کا اعلان کرے ،اور ملکی تعلیمی و سرکاری اداروں
اور عدالتوں میں لکھنے اور بولنے میں اردو کو عام زبان کے طور پر استعمال
کیا جائے ۔ اردو دنیا کی دوسری بڑی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ اہل پاکستان کے
لیے لکھنے اور بولنے میں سہل ترین ہے، سرکاری اور غیر سرکاری طور پر اردو
زبان کے نفاذ اور استعمال سے ملک اور اس میں بسنے والے عوام تیزی سے ترقی
کی راہ پر گامزن ہوسکیں گے۔ |