پر د یس کے دکھ

اس دنیا ئے فا نی میں ہر چیز وقت کے سا تھ ساتھ ختم ہو جا تی ہے مگر انسان لا لچ سے تب ہی نجات حا صل کر تا ہے جب اسکی آ نکھیں بند ہو جا تی ہیں بعض اوقا ت یہ لا لچ ہما رے اعصا ب پر اتنی حاوی ہو جا تی ہے کہ ہم بلکل گھو نگھے ،بہر ے اور اند ھے ہو جا تے ہیں اور کسی بھی مفا د کے حصو ل کے لیے ہم کسی بھی حد کو پھلا نگنے کو تیا ر نظر آ تے ہیں تب انسان کے اندر کا انسان تقریبا مر دہ حا لت میں ہو تا ہے کب کو ئی انسان جو آ پ کے جتنا قر یب ہی کیوں نہ ہو ا پنے اوپر لپٹا ہوا لبا دہ اتار کر اپنی اصل حیوا نی شکل میں آ پکے سا منے نمو دار ہو جا ئے ہم نہیں جا نتے ۔کہتے ہیں محبت و خلو ص اﷲ کے عطا کر دہ وہ ہتھیا ر ہیں جو انسان کے اندر چھپے حیوان کو ظا ہر نہیں ہو نے دیتے مگر جب لا لچ ان پر بھا ری آ جاے تو کسی بھی شر منا ک حا د ثے کی و جہ بن سکتی ہے اگر ہما را یقین کا مل یہ ہو جا ئے کہ اﷲ نے ہمیں پیدا کیا ہے اور وہ ہمیں ہمارے حصے کی رزق عطا کر ے گا تو دنیا سے اس طرح کی غلا ظت ختم ہو جا ئے گی میں آج اپنے سینئر انجینئر جو میرے لیے استا د کی حیثیت ر کھتے ہیں ان کا تعلق دہلی انڈ یا سے ہے ان کی درد بھری دا ستان آ پ سے شئر کر نا چاہتا ہوں۔کچھ دن قبل ہما ری ملا قات ہو ئی جو اک عر صہ دراز گزرنے کے بعد ہو ئی تھی آ غا ز تو بڑا خو ش گوار تھا مو جودہ سیا سی صو رتحال اور پاک بھا رت تعلقا ت کی بحث نے ما حو ل کو گر ما ئے رکھا اسی دورا ن خا ندانی نظام پر با ت ہو ئی تو ان کے چہرے پر ایک عجیب سی افسر دگی چھا گئی ز با ن تو رک گئی مگر چہرے کے آ ثا ر نے سب وا ضح کر دیا میں اٹھ کر ان کے پا س چلا گیا اور عر ض کیا جنا ب آ پ کو کیا پریشا نی لا حق ہے ہو سکتا ہے میں آ پ کے کسی کا م آ سکو ں بس وہ پھٹ پڑے جیسے ان کے دل میں غم کا ایسا بو جھ تھا کے اگر چپ سا دھ لیتے تو شا ید سینہ چا ک ہو جا تا ان کی کہا نی ان کی زبا نی کچھ اسطرح ہے

میں ایک غریب فیملی سے تعلق رکھتا تھا ایک ز ہین طا لب علم تھا اس لیے پڑ ھا ئی کے تما م ادوار اچھے نمبروں سے عبور کر تا رہا اسی طرح انجنیئرنگ مکمل ہو گئی میرے وا لدین نے دوران تعلیم بہت سی تکا لیف برداشت کی کیو نکہ انہیں مجھ سے بہت سی امیدیں وا بستہ تھیں پہلے تو دہلی کی ایک نجی کمپنی میں ملا زمت اختیا ر کی تو گھر کے حا لا ت میں قدر بہتری آ ئی میرا ایک بھا ئی اور دو بہنیں ہیں جو کہ مجھ سے چھو ٹے ہیں جب سعو دی عر ب سے ملا زمت کی آ فر آ ئی تو تما م گھر وا لے بمعہ میرے خو شی سے پھو لے نہ سما ئے کیو نکہ تنخواہ وہا ں کی نسبت کا فی ز یا دہ تھی یوں میں نے اپنی پر دیسی ز ند گی کا آ غا ز سعو دی عرب میں شرو ع کیا وقت ہو ا کے گھو ڑے کی ما نند اڑتاچلا گیا جب سعو دی عر ب آ یا تھا تو سو چا تھا کہ چند سا ل ملا زمت کر وں گا اور وا پس ا پنے وطن لوٹ جا ؤ ں گا گھر کے حا لا ت درست کر تے کرتے میری شا دی کا وقت آن پہنچا گھر وا لے بھی بضد تھے کہ میں بڑا ہو ں اس لیے پہلے میری شا دی ہو نی چا ہیے ان کی خو شی کی خا طر شا دی کر لی مگر اپنی شر یک حیا ت کو سعو دی عر ب نہ لا سکا کیو نکہ مجھ پر کا فی ذمہ داریا ں تھیں چھو ٹے بہن بھا ئی ابھی کنوارے تھے انکی شا دیو ں کے لیے اچھی خا صی رقم در کا ر تھی اﷲ اﷲ کر کے اگلے پا نچ سا لوں میں اس فر یضے سے سبکدوش ہو ا اور اپنی فیملی کو یہا ں لے آ یا آ ج سے تین سا ل پہلے بچوں سمیت انڈیاچھٹیاں گزارنے گیا تو ہمارے علا قے میں ایک بڑی پرا نی حو یلی ہے جس کے با ہر برا ئے فر وخت کی تختی لگی ہو ئی تھی اسے دیکھا تو بچپن یا د آ گیا ابا جب کبھی ہمارے ہمراہ وہا ں سے گزرتے تھے تو ہم سے کہتے کہ ہم یہ حو یلی خرید یں گے اور تم سب خو ب مزے سے اس میں کھیلو گے ابا کی یہ بات میرے زہن میں آ ئی تو دل للچا نے لگا کے ابا کی یہ درینہ خوا ہش کی تکمیل کی جا ئے میں نے اپنی پچھلے دس با رہ سا ل کی تما م جمع پو نجی اور مو جودہ تمام اثاثے بیچ کر وہ عا لی شا ن اور قیمتی حو یلی خر ید لی اپنے تما م گھر والوں کو وہا ں شفٹ کیا امی ،ابا ،بھا ئی اور بھتیجے سب بہت خو ش تھے میں لو ٹ کر واپس اپنی نگری آ گیا اور اس مصرو ف ز ند گی میں مگن ہو گیا ایک سال بعد ابا کا انتقا ل ہو گیااور ابا کے جانے کے چند ما ہ بعدامی بھی اس دنیا ئے فا نی سے ر خصت ہو گئیں کچھ ما ہ پہلے میں نے اپنے بیٹے کو ہا ئر اسٹڈی کے لیے امریکہ بھیجنے کی ٹھا ن لی مگر جیب اجا زت نہیں دے رہا تھا سوچا کیو ں نہ حو یلی کا کچھ حصہ بیچ کر اس خو اہش کی تکمیل کر لوں اس غر ض سے بھا ئی کو فون کر کے اعتما د میں لینا چا ہا کیو نکہ حویلی ابا کے نا م تھی مگر بھا ئی کے بدلے ہو ئے لہجے نے تو جیسے مجھ پر پہا ڑ آ ن گرایا تلخی بڑھتی گئی تو میں نے یہ کہہ کر کا ل منقطع کر دی کہ میں خو د آ رہا ہوں اور اپنا حصہ بیچ رہا ہوں یہی سو چ کر انڈیا گیا کہ حو یلی کو بیچ کر جو ر قم ملے گی تو کچھ بچے کی تعلیم پر خر چ کروں گا اور کچھ رقم سے کو ئی کا روبار شرو ع کروں گا کیو نکہ اب عمر کے اس حصے میں پہنچ چکا ہوں کہ اتنی محنت نہیں کر سکتامگر وہاں جب وہا ں پہنچاتو ما حول بیگا نہ تھا میرے بھا ئی نے وہ حو یلی اپنے نام کر وا لی تھی اور مجھے فقط دو لفظ کہہ کر رخصت کر دیا پھر تو نہ اس سے لڑنے کی سکت تھی اور نہ ہی گلہ شکو ہ کر نے کا من تھااس لیے یہ بو جھ لے کر وا پس لو ٹ آ یا اب تو ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے پھر سے نئے سرے سے سب شروع کر نا ہو گا زند گی کے پچاس سے زائد سا ل بیت چکے ہیں مگر میرے پا س آ ج اپنے بچوں کے لیے چھت بھی نہیں جن کے لیے سا ری عمر محنت کی انہوں نے ہی پیٹھ میں چھرا گھو نپ دیا انکی یہ دا ستان سن کر میرے پا س سوا ئے ان کو حو صلہ دینے کے کچھ نہ تھا ہاں اتنا ضرور تھا کے دل سے اس بد بخت کے بد دعا خو د بخود نکلتی ہی جا رہی تھی ۔

یہ حقیقت ہے کے یہ کہا نی صرف اس ایک شخص کی نہیں بلکہ ایسے کئی لو گ ہیں جو ایسے ایسے صحراؤں میں گم ہیں جن کا کو ئی ٹھکا نہ نہیں نہ جا نے کیسے دولت کے سا منے یہ رشتے نا طے سب بے معنی ہو جا تے ہیں کہتے ہیں پیسہ ہا تھ کی میل ہو تا ہے اور کیسے خو نی رشتے ہا تھوں کی اسمیل کو اپنے قر یبی رشتوں پر فو قیت دیتے ہیں ۔اپنے ملک میں بسنے والے لو گوں کو پر دیس کی ز ند گی نہ جا نے کیوں اتنی سہا نی معلو م ہو تی ہے جبکہ پر دیس ایک ایسی میٹھی قید کا نا م ہے جس میں زند گی کی تما م سہو لتیں میسر ہو نے کے با و جود پر دیسی خو شیوں سے محروم رہتا ہے اپنے عزیزوں اور اپنی مٹی سے دوری کے دکھ سے شا یدہی بڑا کو ئی دکھ ہو لیکن یہ صرف وہ ہی سمجھ سکتا ہے جس نے یہ میٹھی قید اپنا ئی ہو۔
Sajid Hussain Shah
About the Author: Sajid Hussain Shah Read More Articles by Sajid Hussain Shah: 60 Articles with 48935 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.