پاکستان AJK کو علیحدہ کر دے اگر ۔۔۔۔۔

ہر روز میرٹ کی پامالی کی ایسی ایسی خبریں آ رہی ہیں ، لگتا ہے غریبوں کا یا بغیر سفارشیوں کا جینے کا بھی حق نہیں اور کہیں بھی ان نا انصافیوں کے خلاف ایکشن لینے والا کوئی بھی موجود نہیں ہے۔
ایک خبر آجکل بہت گرم ہے کہ آئمہ کرام کی اسامیوں پہ بغیر میرٹ کے تعیناتیاں کی جا رہی ہیں ۔ لگتا ہے کشمیری قوم کے دل سے خدا کا خوف اٹھ گیا ہے۔ لوگ مسجد کے اماموں کے پاس کبھی استخارے کرانے جاتے ہیں، کبھی بچوں کے ناموں کا مطلب پوچھنے جاتے ہیں، کبھی خوابوں کے مطلب کے لئے جاتے ہیں اور کبھی ان کے پاس اپنے بچوں کو سپارے پڑھنے بھیجتے ہیں۔ آج اگر تعیناتیوں میں کرپشن کے خلاف نوٹس نہ لیا گیا تو بعد یہ خبریں آئیں گی کہ مولوی نے ہمارے بچے کے ساتھ یہ کر دیا یا غلط نمازیں پڑھانے پہ فساد ہونگے، یا غلط استخاروں کے مطالب سے لوگوں کی زندگیاں برباد ہو سکتی ہیں۔ فرقہ ورانہ تقسیم بھی جعلی مولویوں کی وجہ سے ہی ہوتی ہے۔ مگر لوگ ۲،۳ ہزار کی نوکری کے لئے پاگل ہو گئے ہیں۔ اگر پاکستانی گورنمنٹ ان کرپشنز کے خلاف ایکشن نہیں لے سکتی تو آزاد کشمیر کو الگ کر دے تا کہ یہاں کے لوگ اپنی غلطیوں کے خود ذمہ دار ہو ں اور پاکستان سے نفرت کرنا ختم کریں۔

ایک تصویر چند دن پہلے اخباروں کی زینت بنی کہ ہزاروں لوگ پرائمری سکول جاب انٹرویو کے لئے پہنچے اور سیاسی جماعتوں کی مداخلت کی وجہ سے خالی ہاتھ لوٹ گئے ۔ تصویر میں ہزاروں صحتمند نوجوان ۲۰، ۲۵ ہزار ماہانہ کی نوکری کے خواہشمند تھے مگر بیچاروں کا انٹرویو دینے کا خواب بھی پورا نہ ہو سکا۔ دنیا میں آزاد کشمیر ایک بیس کیمپ کے طور پہ مشہور ہے، مگر ایم ۔ فل پاس نوجوان بیچارے چپڑاسی اور کلرک کی ملازمتوں کے انٹرویومیں بھی شامل نہیں ہو سکتے۔ ان پڑھے لکھے نوجوانوں کا کون والی وارث ہے، جو کم از کم ان بیچاروں کے تعلیمی اخراجات کو واپس دلانے والی ملازمت دلوا سکے؟؟ اگر پاکستان کو ان پڑھے لکھے نوجوانوں کی بے بسی پہ ترس نہیں آتا اور یہاں کے حکمرانوں کو اسلام آباد کے محل عیاشیوں کے لئے عطا کئے ہوئے ہیں تو آزاد کشمیر کو الگ کر دیں، ان کو اپنے حال پہ چھوڑ دیں تا کہ ان کو دوست دشمن کی پہچان ہو سکے۔

لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے یہاں رنگ برنگی باتیں ہوتی ہیں مگر پاکستان گورنمنٹ کو شاید نہیں معلوم۔ یہاں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے لئے ایک سکیم یہ ہے کہ منگلا سے سوئچ آف کر کے پاکستان کو اندھیروں میں دھکیلا جا سکتا ہے۔ یہاں کے معصوم کشمیریوں کو شاید یہ نہیں معلوم کہ جو سوئچ لگا نا جانتے ہیں وہ حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں۔ان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ منگلا ڈیم بجلی کا شیئر پاکستان کی مکمل بجلی کی پیداوار میں کافی تھوڑا ہے۔ کیونکہ زیادہ بجلی پیٹرول سے پیدا ہوتی ہے۔ اصل بات یہاں کے حکمران عوام کو بتاتے نہیں ، عوام سمجھتی ہے جیسے پاکستان کا سارا نظام منگلا ڈیم ہی چلا رہا ہے اور جواب میں ویسے فائدے حاصل نہیں ہوتے جیسے یہاں کے لوگ خواب دیکھتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان آزاد کشمیر کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لے۔ تاکہ کشمیری یہ ڈیم خرید کے اپنے لوگوں کو دن رات بجلی فراہم کر سکیں یا اپنی انجینئرز کی بیروزگار فوجوں کو کام پہ لگا کے نئے ڈیم بنا سکے۔ نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے کہ یہاں کی عوام کے مسائل پہ کان دھر سکے جو کہ گمراہی کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

موجودہ خبروں کو دیکھ کے ایسا لگتا ہے کے آزاد کشمیر میں ہر جگہ بندر کے تماشے ہو رہے ہیں۔ عوام بندر بنی ہوئی ہے، حکمران میرٹ کی پامالیاں کر کے اپنے رشتے داروں کو ہنسا ہنسا کے اور نواز نواز کے لوٹ پوٹ کر رہے ہیں۔ استعمال یہاں پاکستان کا شناختی کارڈ ہوتا ہے مگر کوئی پاکستانی ایک انچ بھی زمین کا مالک نہیں بن سکتا۔ چپڑاسی سے لے پی۔ایچ ۔ ڈیز تک، اصول و ضوابط کو ، ـہماری جوتی کہہ کے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں ۔ اگر پاکستان کی سرپرستی میں بنے قوائد و ضوابط کی یہاں کوئی اہمیت نہیں، تو پاکستان کشمیریوں کا ساتھ چھوڑ دے۔ کیونکہ یہاں صرف جنگل کے قوانین ہی قانونی حیثئت رکھتے ہیں انسانی حقوق نہیں۔

اساتذہ کے تعیناتیوں میں کرپشن کی خبروں سے متعلق ایک دلچسپ واقع زندگی کا حصہ بنا، جسکی حقیقت آج سمجھ آ رہی ہے۔ یونیورسٹی کے ایک استاد صاحب کلاس میں ہر روز نت نئے طریقوں سے لیکچر دیتے۔ کبھی ان کا موڈ سلطان راہی جیسا ظالم ہو جاتا اور کبھی ان کے منہ سے عمر شریف جیسی آوازیں نکلتیں۔ کبھی اﷲ توبہ کر کے دوسرے اساتذہ کی برائیاں گنواتے اور کبھی ان ہی اساتذہ سے مل کر دفتر میں خوش گپیاں لگاتے۔ کچھ طالبعلم تو ان استاد صاحب کو گندی گالیاں دیتے اور کچھ بہت احترام کرتے۔ ان کی ایک عادت تھی کہ اپنی ناک کو بار بار ہاتھ لگاتے جس کا مطلب ایک جھوٹا انسان ہے، اسی وجہ سے سب طالبعلموں میں بہت اتفاق تھا اور ان استاد صاحب کو بس اﷲ کی دین سمجھ کے برداشت کرتے رہے۔ لیکن فائنل رزلٹ کے لئے ان کے بھی استا د صاحب نے ان کے لیکچرز سے ایسی ایسی غلطیاں نکالیں کہ طالب علم حیران رہ گئے کہ تعلیم کے نام پہ ان کے ساتھ کیا کیا دھوکے ہو گئے۔ مگر ڈھیٹ پن کی انتہا کہ اپنے استاد کو کہا کہ یہ مجھ سے حسد کرتے ہیں۔ لیکن کمال کی انتہا تو یہ کہ یہی استاد صاحب دوسروں کو اپنا ٹائم ٹیبل دے کے کام کراتے ، کاغذی کاروائی کے لیٹ ہو جانے کا جھوٹ بولتے اور حرام کی آمدنی اپنے خاندان والوں کو کھلاتے۔ جب ان کا پول کھلتا تو معلوم ہوتا کہ سارا محکمہ ہی ان جیسی کاروائیوں میں اجتمائی طور پہ ملوث ہے۔ اگر پاکستان کا کام صرف ان جیسے دھوکہ بازوں کو کروڑوں روپے فنڈز دینا اور غریبوں سے ٹیکسوں کے نام پہ خون چوسنا ہے تو برائے مہربانی آزاد کشمیر کو آزاد کر دیں۔

یہاں کے لوگوں کو پاکستان کی ایسی محبت نہیں چاہیے جو چند خاندانوں کو کروڑوں اربوں پتی بنا دے اور حقدار یا تو دھکے کھاتے پھریں یا صرف دھوکے۔
Asma
About the Author: Asma Read More Articles by Asma: 26 Articles with 28131 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.