وی وی آئی پی موومنٹ٬ زچہ بچہ
اور رکشہ
صدرکی معذرت نے اِنہیں عظیم کردیا ہے
وزیراعظم کی بے حسی و ڈھٹائی نے اِن کا وقار گرا دیا ہے
یہ ٹھیک ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے مگر جب کسی غلطی کا احساس خود سے
ہوجائے یا کوئی اور خالصتاً نیک نیتی کی بنیاد پر اگر آپ کی اِس غلطی کی
نشاندہی کردے تو اِس کا بُرا نہیں ماننا چاہئے بلکہ اُس کا شکر گزار ہونا
چاہئے کہ جس نے آپ کو یہ غلطی بتائی ہے اور آئندہ ایسی غلطی سے اجتناب
برتنے کی کوشش کرنے کا عزم کرنا چاہئے اور فوراََ اپنی غلطی پر معافی اور
معذرت طلب کرنا بھی ایک اچھا اور بہترین عمل ہے جو کسی بھی خطا کار کو اعلیٰ
انسانیت کے درجات پر فائز کردیتا ہے۔
جس طرح گزشتہ دنوں صدر مملکت آصف علی زرداری کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر وہاں
کی انتظامیہ کی جانب سے پروٹوکول اور سیکورٹی کے خصوصی انتظامات کے باعث
اِس شہر کی شاہراہیں بند کر دیں گئیں تھیں جس کی وجہ سے شہر بھر میں بدترین
ٹریفک جام رہا اور اِس دوران کوئٹہ کے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا
پڑا جبکہ اِسی روز ایئر پورٹ روڈ پر رکشے میں سوار ایک مقامی شہری مومن خان
کی اہلیہ جو حاملہ خاتون تھی اِسے بھی ساڑھے تین گھنٹے تک اسپتال جانے کی
اجازت نہیں دی گئی جس کے سبب بچے کی رکشے میں ہی ولادت ہوگئی جو پاکستان کی
تاریخ میں ایک ایسا انوکھا واقعہ قرار دیا جا رہا ہے جو حکمرانوں کی بے حسی
کی وجہ سے رونما ہوا اور جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ عوامی تکالیف کا احساس
کا دم بھرتے نہ تھکنے والے ہمارے حکمرانوں کو عوام کی تکالیف کا کوئی احساس
نہیں کہ عوام اِن کی آمدورفت کے دوران انتظامیہ کی وی وی آئی پیز موومنٹ کے
انتظامات کے باعث کس اذیت شکار ہوتے ہیں اور شاہراہوں پر گھنٹوں ٹریفک جام
رہنے کی وجہ سے اِسے واقعات پیش آتے ہیں کہ بیمار افراد اسپتال تک پہنچنے
سے قبل ہی ایمبولینسوں میں موت کے ہاتھ اپنی زندگیوں کی بازی ہار جاتے ہیں
اور آئے روز ملک کے طول ُ ارض میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں کہ صدر
اور وزیراعظم سمیت حکومتی اراکین کی آمدورفت کے دوران گھنٹوں ٹریفک جام
رہنے کی وجہ سے عوام کو شدید ذہنی اور جسمانی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کوئٹہ میں رکشے میں بچے کی ولادت کا ہونے والا یہ واقعہ اِس کا مین ثبوت ہے
جس پر اِس زچہ کے شوہر اور وہاں موجود لوگوں نے کوئٹہ کی انتظامیہ اور
حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا۔
اگرچہ یہ ایک اچھی خبر ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے اپنے دورہ کوئٹہ
کے دوران رکشے میں پیدا ہونے والے بچے کے اہلِ خانہ کو 5 لاکھ روپے دینے کا
اعلان کیا ہے اور اِس کے ساتھ ہی صدر مملکت آصف علی زرداری کی ِ یہ بات
زیادہ اہم اور بڑھ کر ہے کہ اُنہوں نے انتہائی ندامت سے کہا کہ گزشتہ دنوں
میری کوئٹہ آمد کے سبب پروٹول کی وجہ سے رکشے میں بچے کی ولادت پر مجھے
افسوس ہوا اگر میری وجہ سے کوئٹہ کی عوام کو تکلیف پہنچی ہے تو میں اِن سے
معافی چاہتا ہوں۔
اِس کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں کہ صدر مملکت آصف علی زرداری اپنے اتنے سے
عمل سے انسانیت کے اُن اعلیٰ درجات پر فائز ہوگئے ہیں کہ جہاں انسانیت کو
بھی خود پر ناز ہوتا ہے کہ اِنسان غلطی کر کے اِس پر ندامت محسوس کرے اور
اپنی خطا کی معافی چاہئے تو یہی وہ انسانیت ہے جس کا ثبوت صدر آصف علی
زرداری نے دے دیا ہے۔
تاہم یہ افسوس ناک ہے کہ اِس حوالے سے ہمارے وہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی
جو ہر بار صدر مملکت کی جانب سے ہونے والی سیاسی غلطی پر سیاستدانوں اور
عوام سے اپنے ہاتھ جوڑے معافی تلافی کرتے نظر آتے تھے مگر اِس مرتبہ کوئٹہ
میں رکشے میں بچے کی ولادت کے واقعہ پر مذاق سے ہی صحیح وزیر اعظم اپنے ایک
ایسے بیان سے جو اُنہوں نے کورنگی میں 220میگاواٹ کمبائنڈ سائیکل پاور
پلانٹ کے افتتاح کے موقع پر ایک صحافی کے جواب میں دیا تھا کہ ”بچہ نے اگر
پیدا ہونا ہوتا ہے تو وہ کہیں بھی ہوسکتا ہے، وہ جہاز میں بھی ہوسکتا ہے
اور رکشہ میں بھی لہٰذا یہ کہنا صحیح نہیں کہ ایسا وی آئی پی موومنٹ کی وجہ
سے ہوا ہے اِس سے میں اتفاق نہیں کرتا....“اِن کے اِس بے تکے اور بے مقصد
جواب میں حاضرین نے تالیاں بجا کر اِن کو خوشنودی تو حاصل کرلی مگر شائد
اِن اَپر کلاس حاضرین کو یہ پتہ نہ ہو کہ وزیر اعظم کے اِس غیر سنجیدہ بیان
کی وجہ سے ملک کی ساڑھے سولہ کروڑ غریب عوام کے کلیجوں پر کیسی چھری چل گئی
کہ وزیراعظم اپنا وی وی آئی پی کلچر کو ختم کرنے کے بجائے الٹا یہ کہہ رہے
ہیں کہ دنیا کے سارے کام ہوتے رہتے ہیں جن میں رکشے میں بچہ کی پیدائش سے
لے کر ٹریفک جام میں پھسنیںبہت سے ایمبولینسوں میں موجود مریضوں کی اموات
تک.... ہماری وی وی آئی پی موومنٹ پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور ہم محض اِس کو
جواز بنا کر اپنی وی وی آئی پی موومنٹ نہیں کرسکتے۔
وزیزاعظم یوسف رضا گیلانی اپنا یہ بیان دے کر خود ایک ایسی غلطی کر بیٹھے
ہیں کہ اِن کے اِس غیرذمہ درانہ بیان کے سبب عوام میں اِن کا بنا بنایا
وقار بُری طرح سے مجروح اور ٹوٹ پھوٹ کر رہ گیا ہے اِس حوالے سے وزیر اعظم
اور وزیراعلیٰ بلوچستان نے غیرسنجیدگی کا جو مظاہر کیا ہے جس پر پوری
پاکستانی قوم شدید غصے میں مبتلا ہے اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے یہ
کہتی ہے کہ بقول آپ کے” جب بچہ کو کہیں بھی پیدا ہونا ہے تو وہ ہو جاتا ہے“
تو پھر وزیراعظم صاحب ! آپ نے کیوں ملک بھر کے بڑے چھوٹے اسپتالوں میں زچہ
خانہ (گائنی وارڈ) بنا رکھے ہیں اور اِن پر حکومت سالانہ لاکھوں اور اربوں
روپے خرچ بھی کر رہی ہے۔
یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کیوں کہ آپ نے جیسا کہا ہے کہ بچہ کہیں بھی پیدا
ہوسکتا ہے تو پھر اسپتالوں میں گائنی وارڈ کی کیا ضرورت ہے اِس بنا پر ملک
بھر کے تمام اسپتالوں سے گائنی وارڈ ختم کردیئے جائیں اور اِس جگہہ پر
حکومتی سطح پر کوئی جنرل اسٹور یا کوئی چھوٹا موٹا چائے کا ہوٹل کھول دیا
جائے تاکہ یہاں سے عوام کو سہولیات مہیا کی جاسکیں۔ اور ملک بھر کے تمام
گائینالوجسٹ کی ڈگریاں منسوخ کردی جائیں کیوں کہ جب کسی بھی حاملہ خاتون کو
رکشے، جہاز اور سڑکوں پر ہی بچہ کی ولادت کرنی ہے تو پھر نہ تو ہمارے ملک
میں کسی حاملہ خاتون کو اپنے بچے کی پیدائش کے لئے اسپتال جانے کی ضرورت
ہوگی اور نہ ہی کسی گائینالوجسٹ سے رابطہ کرنے کی کیوں ........آپ پہلے ہی
فرماچکے ہیں کہ بچہ کہیں بھی پیداہوسکتا ہے۔
اِس موقع پر مجھے حضرت شیخ سعدی رحمتہ اﷲ علیہ کا ایک قول یاد آرہا ہے وہ
کہتے ہیں کہ”اگر تجھے دوسروں کی تکلیف کا احساس نہیں ہے تو تُو اِس قابل
نہیں کہ تُجھے انسان کہا جائے اور اِس کے ساتھ ہی اِس حقیقت کو بھی کوئی
جھٹلا نہیں سکتا کہ انسان تمام جانوروں میں واحد جانور(جاندار) ہے جو کیا
ہو رہا ہے؟ اور کیا ہوناچاہئے کے فرق کو واضح طور پر سمجھنے اور محسوس کرنے
کی پوری صلاحیت رکھتا ہے اور جو اِس میں فرق محسوس نہ کرسکے تو پھر اِس پر
یہ شک غالب رہتا ہے کہ اِس کی اِس صلاحیت کو استعمال کرنے والے دماغی خانے
کا کوئی اسکرو ڈھیلا ہے اور پھر ایسے انسان کو دنیا کا کوئی بھی معاشرہ کس
کھاتے میں رکھتا ہے اِس کو بیان کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں بس ایسے انسان
کے لئے یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ایسا انسان معاشرے میں خصوصی توجہ کہ
مستحق ہوتا ہے جو بسا اوقات ایسی ویسی حرکات اور سکنات سے خودہی یہ بتا
دیتا ہے کہ وہ کیا ہے۔ پھر معاشرے پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اِسے انسان کی
کسی بھی بات کو بُرا نہ مانے بلکہ اِس کی اصلاح کرتے رہے کہ شائد وہ اِس
طرح سے ہونے والی اپنی اصلاح سے راہِ راست پر آجائے اور وہ بھی اوروں کی
طرح معاشرے کا کارآمد فرد بن جائے۔ ویسے بھی یہ خیال ہے کہ اِس زمین پر بہت
زیادہ لوگ اور بہت کم انسان بستے ہیں اور جتنے بھی انسان بستے ہیں اِن پر
یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ انسانیت کی بہتری کے لئے اپنا
ضروری اور مناسب کردار ادا کرتے رہیں۔
بہر کیف! کہا جاتا ہے کہ دنیا کے ہر معاشرے میں بیشتر لوگ اور دنیا کے اکثر
ممالک کے حکمرانوں اور سیاستدانوں جن میں بالخصوص پاکستان کے حکمران اور
سیاستدان سرِفہرست ہیں وہ اچھا بننے کی اتنی کوشش نہیں کرتے جتنی کوشش اچھا
نظر آنے کی کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اِن کی ظاہری اچھائی اِن کی باطنی
فطرت پر غالب رہتی ہے جو اِسے اِن کے اندر سے کھل کر باہر آنے بھی نہیں
دیتی اور یہ اِس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ یہ اپنے اِس عمل سے عوام
کو بے وقوف بنانے اور اِسے بِھلا پُھسلا کر اپنا گرویدہ بنانے میں کامیاب
ہوگئے ہیں۔
مگر اَب میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج کے اِس جدید اور میڈیائی دور میں عوام بھی
اَب اتنے پاگل اور بدعقل نہیں رہے کہ وہ اِن شاطر اور عیار حکمرانوں کی
چکنی چپڑی باتوں میں آسانی سے آجائیں اَب عوام بھی وہ سب کچھ سمجھنے لگے
ہیں کہ جو شائد ہمارے حکمران اور سیاستدان بھی نہیں سمجھ سکتے۔
کیوں کہ آج کے اِس دور میں عوام یہ خُوب جانتے ہیں کہ ہمارے حکمران اور
سیاستدان عوام کو کس طرح بے وقوف بناتے اور یہ اِسے کیسے اپنے سیاسی مقاصد
کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اِس کے بعد یہی حکمران اور سیاستدان عوام کو
ٹِشو پیپر سمجھ کر یوں پھینک دیتے ہیں کہ جیسے اَب اِن کا عوام سے کوئی کام
اور واسطہ ہی نہیں پڑے گا اور یہی وجہ ہے کہ اَب عوام حکمرانوں اور
سیاستدانوں کے قول و فعل پر اعتبار نہیں کرتے اور حکمرانوں اور سیاستدانوں
سے یہ التجا کرتے ہیں کہ اگر وہ عوام کو اپنا گرویدہ بنانا ہی چاہتے ہیں تو
وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو خُوب صورت بنانے کے ساتھ خُوب سیرت بھی بنائیں
تاکہ وہ اپنی ظاہری اچھائیوں کے ساتھ ساتھ اپنی باطنی خوبصورتی سے بھی عوام
کے دل جیت سکیں۔(ختم شد) |