وزیراعظم یوسف رضا گیلانی صاحب
نے محروم بلوچستان کے درالخلافہ کوئٹہ میں صدر مملکت جناب آصف علی زرداری
صاحب کی گزرگاہ کے راستے میں پروٹوکول کے نتیجے میں رکشے میں ہونے والے ایک
بچے کی پیدائش پر تبصرہ کرتے ہوئے بڑے ہلکے پھلکے اور پرمزاح انداز سے
فرمایا کہ
بچہ تو جہاز میں بھی پیدا ہوجاتا ہے۔
ٹی وی اینکر کے ایک پروگرام کے مطابق جناب محترم وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ
پاکستان جناب سید یوسف رضا گیلانی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ بچہ نے تو جہاں
پیدا ہونا ہوتا ہے وہاں ہو ہی جاتا ہے۔
ایسے شرمناک واقعات پر بھی اپنی حس مزاح کو پیش خدمت کرتے ہو ایک ایسی قوم
کے سامنے جو شائد ایک قوم ہے ہی نہیں وگرنہ کوئی یہ تو بتائے کہ اس قوم کی
قومی زبان کیا ہے؟ مگر قربان جائیے وزیراعظم موصوف کے کہ فرماتے ہیں کہ بچے
تو جہاں پیدا ہونے ہوں ہوجاتے ہیں اور موت سے بچنے والے اور بھاگنے والے
حکمران اور وی وی وی آئی پی حضرات اپنی موت کی جگہ اور وقت کو ٹالنے کے چکر
میں لگے رہتے ہیں وگرنہ ایمان کی مضبوطی تو ایسی ہونی چاہیے کہ وہ اعلان
کردیں کہ جس کی جہاں موت لکھی ہے اور جیسے لکھی ہے ہم نہیں ڈرتے اور کوئی
پروٹوکول اور ہٹو بچو جیسے لشکر نہیں چاہیے ہمیں اپنی حفاظت کے لیے۔
کاش سید یوسف رضا گیلانی صاحب اس بے بس اور لاچار اور مظلوم عورت کی جگہ
اپنی کسی عزیزہ کو رکھ کر سوچیں اور اندازہ لگائیں اور غیرت ایمانی سے فکر
کریں کہ ان کی اپنی کوئی عزیزہ گر اس وقت رکشے میں اس کرب اور اس لاچارگی
اور اس بے بسی کی حالت میں ہوتی تو کیا پھر بھی گیلانی صاحب یہی ارشاد
فرماتے کہ بچے تو جہاں ہونے ہوں ہو ہی جاتے ہیں۔
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ اس واقعہ کی سنگینی کا
اندازہ لگاتے ہوئے میرے رگ و پے میں بے چینی کا جو عالم ہے اور بحیثیت ایک
بے بس پاکستانی انتہائی غم و غصے کا شکار رہا ہوں۔
کاش پیر زادے اور وزیراعظم پاکستان اسلامی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایمان
کی اس بات کو خود بھی سوچ لیتے اور اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھی یقین دلوا
دیتے کہ موت کا بھی ایک وقت مقرر ہے اور جہاں اور جس طرح موت لکھی ہوگی وہ
وہاں اور ویسے ہی آئے گی اسلیے کسی پروٹوکول اور حفاظتی دستوں کی ضرورت
نہیں ہے۔
مگر کیا کیجیے جناب اس غریب اور فقیر ملک کے حکمران طبقے کو غیرت نہیں آتی
جب غیروں سے بھیک میں مانگی گئی دولت اور اپنے عوام کا خون چوسنے کے بعد
بھی ہمارے غیرت مند حکمران اور ان کے چمچے کانٹے ستر ستر اسی اسی انتہائی
جدید اور بڑی گاڑیوں کے قافلے کی صورت میں ایک علاقے سے دوسرے علاقوں میں
دورے کرتے ہیں اور جب پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کی بات آتی ہے تو زرا نہیں
چوکتے۔
ان کو اور ان کی ستر ستر اور اسی اسی گاڑیوں کے قافلوں میں بیٹھے لاٹ صاحب
کے بچوں میں سے کسی ایک نے بھی بخدا کسی ایک نے بھی اپنی کمائی سے ان
گاڑیوں کے اخراجات اور فیول چارجز ادا نہیں کرنے ہوتے ہیں اور عوام کو
گھنٹوں جانوروں کی طرح لائن میں کھڑا رکھا جاتا ہے اور شان بے نیازی سے گزر
کر یہ لٹیرے ووٹ دینے والی مشینوں یعنی عوام کو ان کے ووٹ دینے کے جرم کا
اچھا خاصا انعام دیتے ہیں۔
اس موقع پر سنا ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری صاحب نے نا صرف افسوس کا
اظہار کیا ہے بلکہ معافی بھی مانگی ہے کہ اس واقعے پر ان کو انتہائی
شرمندگی اور افسوس ہے۔ اور اس معصوم بچے کے لیے پانچ لاکھ کی امداد بھی اس
کے گھر والوں کو بھجوائی ہے۔
حالانکہ صدر مملکت کا یہ حکم تو نہیں ہوتا کہ میں جہاں سے گزروں وہاں
جانوروں کی طرح عوام الناس کو کھڑا کیا جائے مگر کیا کیجیے ہمارے سسٹم کو
بدبو دیتے سسٹم کو کہ اس سسٹم کے کرتا دھرتا ان واقعات کے ذمہ دار ہوتے ہیں
اور جب کوئی خطرناک واقعہ ہونا ہوتا ہے وہ ہو ہی جاتا ہے اور ایسے حفاظتی
اقدامات کچھ ایسے واقعات کو روک نہیں سکتے۔ کاش آمریت کو لعن و طعن کرنے
والے جمہوری ادوار میں ان غلط روایات کو ختم کرنے کے لیے کوئی اقدام کریں۔
حالانکہ صدر مملکت براہ راست عوام کے منتخب کردہ نہیں ہیں بلکہ بل واسطہ
منتخب ہیں مگر ان کی طرف سے تو اظہار افسوس اور شرمندگی اور عوام کے ووٹ لے
کر براہ راست منتخب ہونے والے وزیراعظم جو اپنے جیسے طاقتور افراد یعنی
میاں صاحبان اور چیف جسٹس صاحب کے پاس تو چل کر جاتے اور ان کے لیے اپنی حس
مزاح کو استعمال کرتے ہوئے کوئی ایک لفظ بھی نہیں کہتے اور جب عوام کی بات
آتی ہے تو اپنے الفاظ اور اپنے خیالات سے عوام الناس (جسے آپ قوم بھی کہ
لیں کیا حرج ہے) کو بخوبی آگاہ کرتے ہیں۔
کاش ہم کسی طرح صحیح ہوجائیں تو اللہ ہمارے حکمران بھی صحیح کردتے گا اللہ
ہم کوشش کرتے ہیں ہماری مدد کر کہ تیری مدد کے بغیر تو کچھ بھی ممکن نہیں
|