میں قلم ہوں،مجھے ہرانسان
اپنی بولی اور زبان میں جدا جدا الفاظ سے یاد کرتا ہے۔میرے خالق نے مجھے
اپنی آخری کتاب میں لفظِ ’’قلم ‘‘ سے یاد فرمایا ہے(القلم:1۔العلق:4)۔میری
پیدائش ارشاد ِرسول کے مطابق اُس وقت ہوئی ہے،جبکہ ابھی میرے رب نے کائنات
کی کسی شئی کو وجود نہیں بخشا تھا،وجودو ظہورمیں سب سے پہلے ’’میں‘‘ہوں،پھر
مجھے حکم ِربانی ہوا،کہ’’لکھ‘‘تو میں نے منشأ الہی کے مطابق ہر وہ چیز لکھ
دی،جو ازل سے ابد تک ہونے والی ہے(ترمذی 3319)میرا کام لکھنا ہے،آواز کی
صورت گری کرناہے،فکر وخیال کی مجسمہ سازی ہے،الفاظ کو لباس کا جامہ پہنانا
ہے۔ میرا وجود بے جان ہے،میں سماعت وبصارت سے خالی ہوں،نطق وبیان میری
تحریر ہے۔میں اپنی ذاتی فکر وخیال اور ارادہ سے عاری وخالی ہوں۔میں خود
نہیں چلتا ہوں، حرکت دینے والا مجھے اپنے ارادہ کے مطابق حرکت دیتا ہے،میں
اِس بات سے بے خبر ہوں کہ یہ میری کمزوری ہے یا خوبی ،کہ جو جس طرح اورجس
نیت سے چلاتا ہے ،میں چل پڑتا ہوں۔نیک لوگ مجھے بھلے اور اچھے کام کیلئے
اور برے لوگ اپنی برائی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔کبھی میں ایمان کی باتیں
لکھتا ہوں،تو کبھی کفر کی باتیں۔مجھ سے کوئی محبت ومودت کی تحریریں لکھتا
ہے،تو کوئی نفرت وعداوت کی لکیریں کھینچتاہے۔کوئی نوکِ قلم سے دو جدا دلوں
کو محبت کے ٹانکوں سے جوڑتا ہے،توکوئی نوکِ قلم سے زہریلے سانپ کی طرح ڈس
کر دو دلوں کو مسموم کرتا ہے۔کبھی میں متقی وخدا ترس کے ہاتھ میں ہوتا
ہوں،تو کبھی فاسق وفاجرکے ہاتھ میں ۔ متقی وخدا ترس لکھنے سے قبل سوچتا
ہے۔لکھتے ہوئے خدائی استحضار رکھتا ہے۔لکھ کر لکھی ہوئی عبارت کا بے لاگ
جائزہ اور محاسبہ کرتا ہے۔وہ اپنی تحریر سے رب کی رضا کا طلب گار رہتا
ہے۔وہ قلم کوحرکت دیتا ہے،تاکہ پیغامِ ربانی کی اشاعت ہو،رسولِ اکرم کے دُرِّ
آبدار کو بکھیریں،دین وشریعت کے اوامرات ومنہیات کی خبر دیں،انسانوں کو خدا
کا پسندیدہ راستہ دکھائیں،نفس و شیطان کے مکر وکید سے انسانوں کو با خبر
کریں۔اس کے برعکس فاسق وفاجرمجھ سے نفس چاہی باتیں لکھتا ہے،برے جذبات کو
بَرانگیختہ کرتا ہے،چمنِ محبت میں نفرت ودشمنی کی آبیاری کرتا ہے،نہ خدا سے
ڈرتا ہے،نہ اُس کا ضمیر اُس کوجھنجوڑتا ہے،مطلب پرست لوگ اپنے مطلب براری
کیلئے اُس کو اور اُس کے قلم کو چند معمولی سکوں میں خرید لیتے ہیں۔اُس کا
ایمان مادہ پرستی اور مال پروری ہوتا ہے ،اوروہ خود کم ظرف اور اُس کا ضمیر،
ضمیر فروش ہوتا ہے۔تاریخ ِانسانی کے کتنے اوراق اِس رُو سیاہی سے پُر
ہیں۔میرا یہ حال خود صدا گو ہے کہ میں لوگوں کے ہاتھوں میں بازیچۂ اطفال
ہوں۔
میرا کام زبان کے مانند ہے۔فرق یہ ہے کہ زبان کے الفاظ سنے جاتے ہیں،جب کہ
میرے الفاظ دیکھے بھی جاتے ہیں۔زبان سے نکلے الفاظ فضاؤں میں تحلیل ہو جاتے
ہیں،جب کہ میرے الفاظ منقش پتھر کی طرح محفوظ ہو جاتے ہیں۔بول کا زمانہ
مختصر اور میرا زمانہ تا دیر۔بولی کو وہ مقام حاصل نہیں ،جو لکھائی کو حاصل
ہے۔جو اُصول وآداب زبان کی بولی کے ہیں ،وہی احکام ،قلم کی لکھائی کے
ہیں۔جس طرح زبان سے بولنا اور پڑھنا رب کے نام سے ہو،(علق:1)اِسی طرح قلم
سے لکھنا بھی رب کے نام سے ہو۔زبان کے بول میں خیر ضروری ہے ،ورنہ خامو شی
بہتر (بخاری،6476)یہی اُصول حرکتِ قلم کے وقت ہے۔جس طرح زبان سے کہی بات کی
تحقیق ضروری ہے (حجرات:6)اِسی طرح تحریرِ قلم کی تحقیق ضروری ہے۔زبان کا
ایک بول رضاءِ خداوندی کا سبب ہو سکتا ہے(بخاری:6113)قلم کا ایک جملہ بھی
یہی شان رکھتا ہے۔جس طرح زبان کا ہر بول کاتبانِ اعمال فرشتوں کی گرفت میں
ہے(ق:18)یہی نگرانی کا نظام ،تحریرِ کلام پر بھی قائم ہے۔زبان کی نرمی،
کلام میں خوبصورتی اور اُس کی سختی بدصورتی کو جنم دیتی ہے(کنز العمال
:37776)یہی کیفیت بیانِ تحریر کی ہے۔زبان کیلئے یادِ الہی کا حکم ہے(
جمعہ:10)قلم بھی اِسی حکم سے مر بوط ہے۔جس طرح زبان سے غیبت حرام ہے
(حجرات:12)اِسی طرح غیبتِ قلم باعثِ لعنت ہے ۔زبان کا جھوٹ منافق کی علامت
ہے (بخاری:2536)قلمی جھوٹ بھی اُسی صفت کا مظہر ہے۔کسی کے جھوٹے ہو نے
کیلئے یہ بات کافی ہے کہ جو سُنے، دوسرے سے بیان کرے (کنز العمال :8988)یہی
حال بے تحقیق قلم کار کا ہے۔کسی کو زبان سے تہمت لگانا قابلِ ہلاکت گناہ
ہے(بخاری :2615)نگارشِ قلم سے کسی کو تہمت زدہ کرنا اِسی حکم میں ہے۔
میرے رب سبحانہ وتعالیٰ نے اُسی وقت میری اہمیت و ضرورت اور مقام کا راز
افشا کر دیا تھا ،جب کہ اُس نے اپنی آخری کتاب کا آغاز ،’’سورہ ٔ اقرأ کی
پانچ آیات‘‘ سے فرمایا تھا۔جس نے اِقْرَأْ بِاسْمِِ رَبِّکَ․․․․․․اور․․․․․․عَلَّمَ
بِالْقَلَم کہہ کربتا دیا کہ آخری دور قلم کا ،علم ونظریا ت کا ا ورفکر
وفلسفہ کا ہوگا۔یہی وجہ تھی کہ اس امت نے تھوڑی سے مدت میں کتنے بڑے بڑے
کتب خانے تیار کر دئے،ان گنت نئے فنون میں ہزاروں کتابوں کا زخیرہ تیار کر
دیا،او رانسانی دنیاکومادی وروحانی،معالجاتی و ترقیاتی ،اوراپنے فکر وقلم
سے ہزاروں انقلابات کی بنیاد ڈالی۔
صالح مفکرین نے مجھ سے صلاح و خیرکا کام لیا ہے۔اور فاسد علمبرداروں نے
سماج میں ترویجِ فتنہ و فساد کا کام کیا ہے۔دین ودنیا ،اچھا وبرا،خیر وشر ،صلاح
وفساد،وصل وفصل اورمحبت وعداوت ہر تحریر،میں نے نقش کر دی ہے۔مگر ناز ہے
مجھے !اُن کاتبوں اور قلم کاروں پر ،جنہوں نے مجھ سے دین وایمان کے حقائق
لکھے،قرآن وسنت کی تشریحات رقم کی،سیرت وسوانح کے انمٹ نقوش درج کئے۔امام
ابن جریر طبری( متوفی ۳۱۰ھ)جو مفسرین ومحدثین کے مقتدیٰ اور مورخین کے گروہ
کے سرخیل ،اپنے وقت کے امام اور زبردست مجتہدہیں،جن کی کثرتِ تالیف اور حسنِ
تصنیف نے اُنہیں اسلامی تاریخ کاسب سے عظیم محقق بنا دیا،آپ ؒ نے اپنی
زندگی کے چالیس سال ایسے گذارے ہیں ،جن میں چالیس اوراق یومیہ تصنیف کرنا ،اُن
کے معمولات میں شامل تھا۔انہوں نے اپنی تصانیف کی شکل میں’’ تین لاکھ پچاس
ہزار سے زائد‘‘ اوراق بطور ِ یادگار چھوڑے ہیں(قیمۃ الزمن عند العلماء)۔ابن
شاھین جن کے بارے میں امام ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں لکھا ہے ،کہ آپؒ نے
تین سو تیس کتابیں لکھی،جن میں سے ’’التفسیر الکبیر ‘‘ایک ہزار اجزاء پر
،’’المسند‘‘تیرا سو اجزاء پر،’’التاریخ‘‘ایک سو پچاس اجزاء پر،اور ’’الزھد‘‘ایک
سو اجزاء پر مشتمل کتابیں ہیں۔انہوں نے تصنیفِ کتب کیلئے ۷۰۰ دراہم کی
روشنائی خریدی ،جو قدیم دور میں ایک بڑی رقم شمار ہوتی تھی۔ابن عقیل ؒ (متوفی
۵۱۳ھ)مختلف علوم وفنون میں تقریبا بیس کتابیں لکھی،جن میں دنیا کی سب سے
بڑی تصنیف ’’الفنون ‘‘ لکھی ۔ابن رجب ؒ کا بیان ہے کہ یہ کتاب آٹھ سو جلدوں
میں تھی۔علامہ ابن جوزیؒ (متوفی۵۹۷ھ)نے پانچ سو سے زائد کتب تصانیف کئے۔آپؒ
کے نواسے ابو المظفر کا بیان ہے کہ میں نے اپنے نانا کو آخری عمر میں یہ
کہتے ہوئے سنا ہے ،کہ میں نے اپنے ہاتھ سے دو ہزار جلدیں تصنیف کی
ہیں۔(تذکرۃ الحفاظ۴:۱۳۴۴)ابن جوزیؒ نے اپنے قلم سے جو احادیث قلم بندکئے
تھے،اُن کے تراشے اور ٹکڑے جمع کئے گئے،تو وہ اِتنے زیادہ ہوئے کہ آپؒ نے
وصیت کی ،کہ میرے مرنے کے بعد میرے غسل کا پانی اُن ٹکڑوں سے گرم کیا
جائے،چنانچہ ایسا ہی کیا گیا،پانی گرم ہونے کے بعد بھی وہ تراشے بچ
گئے(الکنی والالقاب ج۱ص۲۴۲)امام فخرالدین رازیؒ (متوفی ۶۰۶ھ)نے دو سو
تصانیف لکھی ،جن میں بعض تصانیف ایک سو تیس اجزاء پر مشتمل ہیں۔شیخ الاسلام
ابن تیمیہؒ (متوفی ۷۲۸ھ)۵۷ سال کی عمر پائی،۵۰۰کتابیں بطورِ یادگار
چھوڑی(قیمۃ الزمن عند العلماء)۔ماضی قریب میں ہندوستان کے ایک عظیم محقق و
مدقق امام عبد الحی لکھنوی (متوفی ۱۳۰۴ھ)جنہوں نے صرف ۳۹ سال عمر پائی،اُن
کی تصانیف ۱۱۰ سے متجاوز ہیں،جن میں بعض ضخیم اور کئی جلدوں میں ہیں،پھر
مزید کمال یہ ہے ،کہ ان کی تمام کتابیں مشکل مباحث پر مشتمل ہیں۔ایک اور
بلند پایہ شخصیت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ(متوفی ۱۳۶۲ھ)جنہوں نے
۸۲ سالہ عمر میں ایک ہزار سے زائد کتابیں لکھی۔علامہ زاہد الکوثری ؒ نے
اپنے مقالات میں قرآن کریم کی خدمت کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا
ہے کہ امام ابو الحسن اشعری کی تفسیر ’’المختزن‘‘۷۰ جلدوں میں ،قاضی عبد
الجبار ہمدانی ؒکی تفسیر ’’المحیط‘‘۱۰۰ جلدوں میں،ابویوسف عبد اسلام قزوینی
کی تفسیر’’حدائق ذات بھجۃ‘‘۳۰۰ جلدوں میں،ابن شاھینؒ نے ایک ہزار اجزاء
پرمشتمل تفسیر’’التفسیر الکبیر‘‘ لکھی،قاضی ابوبکر ابن العربیؒ نے ’’انوار
الفجر‘‘کے نام سے تقریبا ۸۰ ہزار اوراق میں تفسیر رقم کی،علامہ قطب الدین
شیرازی ؒکی تفسیر ’’ فتح المنان‘‘جس کو تفسیر علامی کہا جاتا ہے،۴۰ جلدوں
میں لکھی گئی ہے۔یہ اُن لوگوں کا ایک طائرانہ جائزہ ہے،جنہوں نے مجھ سے خیر
وصلاح کا کام لیا ،اور بھلائیوں کو عام کیا ہے۔
آج میں پوری امتِ مسلمہ سے گویا ہوں،کہ تم ہی وہ قوم ہو!جن میں نعمانؒ بن
ثابت جیسا صاحبِ فہم ونظر تھا، غزالیؒ جیسا صاحبِ علم تھا، رازیؒ جیسا نقطہ
داں تھا ، ابن قیمؒ جیسا صاحبِ قلم تھا،جابر بن
حیان(المتوفی۱۹۸ھ۸۱۳ء)اورعطار بن محمد الکاتب(المتوفی ۲۱۴ھ ۸۳۲ء)جیسا
کیمیاء داں (MINERALOGY)تھا،ابوحنیفہ الدینوری (المتوفی ۲۸۵ھ ۸۹۵ء)جیسا
ماہرِ نباتیات (BOTANY)تھا،ابومعمر بن مثنیٰ (المتوفی ۹۰۲ھ۷۲۸ء)جیسا ماہرِ
حیوانیات (ZODOGY)تھا،جابر بن حیان جیسا ’’علم الکیمیا (CHEMISTRY) کا باوا
آدام‘‘ تھا،ابویوسف یعقوب کندی(۲۵۸ھ۸۷۳ء) جیسا علم الطبیعات (PHYSICS)اور
فلسفہ (PHILOSOPHY)کا امام تھا،محمد بن موسیٰ خوارزمی(متوفی ۲۳۲ھ۸۴۶ء)جیسا
حساب(MATHEMATICS)الجبراء(ALGEBRA)اور جیومیٹری(GEOMETRY) کا بانی
تھا،ابوبکر بن زکریا الرازی جیسا علم الطب(MEDICINE) میں ماہر تھا ۔ جنہوں
نے اِس راز کو پہچان لیا تھا،کہ آخری زمانہ، قلم کا زمانہ ہے۔جس سے قومیں
عروج اور زوال پذیر ہوں گی۔ تھے تو آباء وہ تمہارے مگر تم کیا ہو!!
آج کتنے بڑے بڑے اور قسم قسم کے فتنے ابھر رہے ہیں،جو اسلام او ر مسلمانوں
کو جلا کر خاکستر کردینا چاہتے ہیں،اسلامی تاریخ کو مسخ کرکے اُس کو فرسودہ
و بوسیدہ کر دینے پر تُلے ہیں،جو اسلا م سوز ،دین سوز،ایمان سوز،اخلاق سوز
،بلکہ انسانیت سوز فتنے ابھر رہے ہیں۔بقول مولانا علی میاں ؒ کہ ’’مادیت
،الحاد،قوم پرستی ،نبوتِ محمدی ؐسے آنکھیں ملانے کیلئے تیار ہے،آج مسیلمہ
کذاب نئے نئے روپ میں آرہا ہے اور نبوتِ محمدی کو چیلنج کر رہا ہے۔آج
سرکٹانے اور کاٹنے کی ضرورت نہیں،آج باطل سے آنکھیں ملانے کی ضرورت ہے،آج
نبوتِ محمدیؐپر تلواروں کا حملہ نہیں،دلیلوں کا حملہ ہے،مادیت کا حملہ
ہے،قوم پرستی کا حملہ ہے‘‘۔قلم اور تلوار ،ان دونوں کی ضرورت ہر دور میں
رہی ہے،فرق یہ ہے کہ تلوار کی ضرورت وقتی وعارضی ،اور قلم کی ضرورت دائمی
ہے،اور یہ بات بھی مسلّمہ ہے کہ قلم کی طاقت، تلوار سے زیادہ ہے۔تلوار کا
خیر وشر وقتی ،اور قلم کا تادیرہے۔تلوار کا زخم خود بخودمٹ جاتا ہے ،قلم کا
زخم مٹائے نہیں مِٹتاہے۔آج اسلام پر اُٹھنے والے باطل اشکالات ،اور قانونِ
الہی پر لگائے گئے ظالمانہ اعتراضات کا مثبت،مدلل،ٹھوس اور حکیمانہ جواب کی
ضرورت ہے۔ہر دور اور زمانہ کیلئے تعلیماتِ اسلامی کا قابلِ عمل ہونا اور
ساری مخلوق کیلئے اُس کا باعثِ راحت وخیر ہونے کی مدبرانہ و فقیہانہ
استدلال و تشریح کی ضرورت ہے۔آج باطل کی تحریف کردہ اسلامی حقائق کوصداقت
وعدالت کے معیاری ترازوسے تول کرحقیقت کو واشگاف اور واضح کرنے کا وقت
ہے۔جس کیلئے شستہ و شگفتہ قلم، دلکش پیرایہ اوربہتر اسلوب کی ضرورت ہے،جس
آواز کو نہ صرف زمانہ سُنے بلکہ قبول کرے،اور اُس صدا کو لبیک کہہ کر سینہ
سے لگائے۔ دورِ حاضرعدالت وصداقت ،حیا وپاکدامنی،اور خیر خواہی
ودردِانسانیت میں مثالی انقلاب کا منتظر ہے ۔اور یہ انقلاب قلم سے لایا جا
سکتا ہے،فرق صرف استعمال کا ہے ،بعض قلم انقلاب لے آتے ہیں،اور بعض صرف
شلوار میں ناڑا ڈالنے کے کام آتے ہیں۔
وصل کے اسباب پیدا ہوں تیری تحریر سے
دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تیری تقریر سے |