توہین
(Prof Niamat Ali Murtazai, Kasoor)
توہین کسی کی بھی نہیں
ہونی چاہیئے۔حتیٰ کہ جانور بھی عزتِ نفس رکھتے ہیں جو کہ ان کے چہروں اور
خاص طور پر آنکھوں سے ظاہر ہوتی ہے۔اس کی بہت واضح مثال بلی اورکتے کے
رویئے سے لی جا سکتی ہے۔جب ان جانوروں سے کوئی پیار کرتا ہے تو وہ کتنے پر
سکون انداز میں اس کے ساتھ، ساتھ رہتے ہیں، عزت محسوس کرتے ہیں، دم فضا میں
بلند کرتے ہیں جیسے انسان اپنی فتح کا جھنڈا ہواؤں میں لہراتا ہے۔ اور جب
ان کو کوئی تھپڑ مارے، کنکر، سوٹی مارے، یا صرف ڈرا ہی دے تو وہ بچارے کیسے
بھاگنے کی کرتے ہیں۔ ان کے فیس ایکسپر یشن فوراً بدل جاتے ہیں۔ بعض اوقات
وہ ’’چوں، چوں‘‘ بھی کرتے ہیں۔دم دبا لیتے ہیں جیسے شکست خوردہ فوج اپنا
جھنڈا چھپا لیتی ہے۔
ہم نظریہ رکھتے ہیں کہ توہین کسی کی بھی نہیں ہونی چاہیئے، لیکن عدالت کی
تو بالکل نہیں ہونی چاہیئے کیوں کہ اس توہیں پر عدالت کو کو غیرت آتی ہے وہ
کسی اور توہین پر نہیں آتی، اس لئے اس جرمِ کبیرہ سے پناہ ہی مانگنی
چاہیئے۔اور اس کا ارتکاب کسی کے بھی کہنے پر نہیں کرنا چاہیئے۔باقی کوئی
بھی توہین اتنی مہنگی نہیں پڑتی۔ انسان کی توہین تو کوئی توہین ہے ہی نہیں
کیوں کہ یہ تو آئے روز بلکہ ہر روز، بلکہ ہر وقت ہوتی رہتی ہے۔ اس لئے اس
کا اتنا واویلا کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
جو جانور کسی مالک کا ہو ،اس کی توہین کرنے پر اسے تو غصہ آتا ہی ہے، اس کے
مالک تو اس سے بھی زیادہ غصہ آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عدالت کی توہیں پر عدالت
کے مالکوں کو زیادہ غصہ آتا ہے اور آنا بھی چاہیئے۔اسی طرح سے جب انسان کی
توہین ہوتی ہے تو انسان کے مالک کو بھی غصہ آتا ہے۔ انسان کا مالک انسان کی
اس توہین کو برداشت نہیں کرتا ، اور کسی طرح سے اس جرم کے کرنے والے سے اس
کا انتقام لیتا ہے۔انسان کی توہین جس جس نے بھی کی، وہ خود بھی ذلیل و خوار
ہوا اور انسان کی عزت جس جس نے کی وہ خود بھی عزت دار بنا۔انسان کو خود اس
کے مالک نے عزت دار فرمایا ہے۔اور ہم نے بنی آدم کو اکرم بنایا۔ وہ مالک
انسان کو مخاطب بھی اے میرے بندوں، اے انسانو، وغیرہ کے معزز الفاظ کے ساتھ
کرتا ہے۔ وہ انسان کو عزت دار ہی دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ بات اور کہ انسان ،
انسان کی عزت نہ کرے، یا انسان اپنی عزت کو خود ہی برباد کر بیٹھے۔
توہین کب ہوتی ہے ، یہ بات ہم توہین ہی سے پوچھتے ہیں۔ ’توہین‘ کو اگر اس
کے اجزا میں منقسم کیا جائے تو: تو ہے نہیں ، کی سنس بنتی ہے۔ یعنی جب ہم
اپنے آپ کو بہت زیادہ اہمیت دیں کہ دوسروں کے وجود کا انکار کر دیں، کہ اس
کی کوئی اہمیت نہیں ، یا وہ کسی کام کا نہیں تو توہین کا عمل شروع ہو جاتا
ہے۔توہین کے عمل کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ دوسرے کا وجود ختم ہی کر
دیا جائے۔ یعنی اسے زندہ رہنے کا حق ہی نہ دیا جائے۔
دنیا میں انسان کی ہمیشہ ہی توہین ہوئی۔ انسان کی تو زمین پر آمد بھی توہین
کے مراحل میں سے ایک مرحلہ تھی۔ اور پھر یہاں آ کر بھی یہ سلسلہ جاری رہا:
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں مگر
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
کبھی ایک برِ اعظم نے دوسرے برِ اعظم کی توہین کی، کبھی ایک ملک نے دوسرے
ملک کی، کبھی ایک مذہب نے دوسرے مذہب کی۔ اور بس یہ سلسہء توہین گری ابھی
نا تمام ہی ہے۔ اس کا اختتام بھی نظر نہیں آتا۔اور ہو گا بھی کیوں کر کہ
جہاں انسان کی کوئی اور توہین نہیں کرتا وہاں انسان خود ہی خود کی توہین
کرنے کا بیڑا اٹھا لیتا ہے۔اور اپنے رویے، اطوار، عقائد، رسومات،
قوانین،نصاب وغیرہ ایسے بنا لیتا ہے کہ کسی اور کو اس کی توہین کرنے کی
ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔جنگ انسان کی توہین کی سب سے بڑی مثال ہے۔
ہزاروں، لاکھوں انسانوں کی عزت و آبرو خاک میں ملا دی جاتی ہے۔تمام آدابو
اخلاق کے تقاضے چکناچور کر دیئے جاتے ہیں۔بم دھماکے انسانی توہین کا ایک
اور شاخسانہ ہے۔ اور اس پر ظلم کہ انسان کے ہاتھوں انسان کی عبادت گاہوں کی
توہین کی جاتی ہے۔ اصل میں جب انسان کی عزت نہیں رہتی تو پھر کسی چیز کی
بھی عزت نہیں رہتی کیوں کہ سب چیزوں کی قدر اس سے متعلقہ انسانوں کی وجہ سے
ہے۔
اگر توہین کی عینک لگا کر اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو ہر طرف انسان کی
توہین نظر آئے گی۔ گاڑیوں اور سڑکوں پر بھی تو انسان ہی کی توہین کے مناظر
بکھرے پڑے ہیں۔ تمام جرائم اور تمام مجبوریاں انسانی توہین کی گوہی دیتی
ہیں ۔ بھری ہوئی عدالتیں انسانی توہین کے بڑے مناظر میں سے ہیں۔ بھرے ہوئے
ہسپتال انسانی توہین کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ بھکاریوں کی فوج مہذب انسانیت
کے منہ کا غازہ اتار دیتی ہے۔سیلابوں میں بہتے انسان ، انسان کی توہیں کا
منظر پیش کرتے ہیں۔ قحبہ خانے انسانی توہین کے مکروہ مناظر میں سے
ہیں۔جیلوں سے بڑی انسانی توہیں کی پریکٹس کہاں ہوتی ہو گی۔ انسان کا قتل ،
انسان کی بہت بڑی توہین ہے۔
ہر برائی انسان کی توہین کا ایک پہلو ہے۔جو بھی انسان جو بھی برائی کرتا
ہے، وہ انسان کی اس پہلو سے توہین کرتا ہے۔ اسی لئے تو مسلمان تو غیبت کرنے
سے سختی سے روک دیا گیا ، تا کہ انسان برا تو ہے ہے لیکن اس کی اور زیادہ
توہین نہ ہونے پائے۔ اور انسان کو برائی کرنے سے اس سے بھی زیادہ سختی سے
روکا گیا ۔انسان کو نظریہ ارتقاع کی پیداوار قرار دینے والوں نے بھی انسان
کی توہین کی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ لیکن مذہب سے انسان کو آدم و حوا کی
اولاد قرار دے کر اس توہین کا قلع قمع کیا ہے۔
امتحان میں فیل ہونا بھی ایک توہین ہے لیکن آخرت کے امتحان میں فیل ہونا
اور بڑی توہین ہے کہ تمام انسانیت کے سامنے انسان مورودِ سزا ٹھہرا ہو اور
پھر خدا نخواستہ جہنم کا مہمان بھی بننے جا رہا ہو۔
دنیا کی ناکامی جہاں ایک توہین ہے وہاں آخرت کی ناکامی بہت بڑی توہین ہے۔
اس توہین سے بچنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
جہاں تک گھریلو توہین کا مسئلہ ہے، وہ کوئی مسئلہ نہیں۔جو بات ہر روز، آئے
روز ہوتی رہتی ہو اس کا عادی ہو جانا ہی حکمت ہے۔ سقراط کی یا د اس سلسلے
میں مورال بلند رکھنے کے لئے بہت مفید ہے۔کتنا بڑا انسان کتنا زیادہ خوار
ہوتا رہا لیکن باہر آکر وہ فلسفی اور دانشور ہی بنا رہتا۔ گھر کی بات باہر
آکر کرنا دانائی نہیں۔ اور گھریلو توہین پر سر پٹا اٹھنا کوئی کردانگی
نہیں۔ یہ توہین یا منفی عزت افزائی کس کی نہیں ہوتی۔ بس اسی کی نہیں ہوتی
جو بتاتا نہیں۔جو سچ بولے اس کے سر پر گھریلو تاجوری کہاں ٹھہرتی ہے۔میرؔ
صاحب نہ یہی بات انداز بدل کر فرمائی ہے:
میر ؔ صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیئے دستار
گھر میں دستار کی ضرورت بھی نہیں ہوتی اور گھر میں دستار سر پر رہتی بھی
نہیں۔فوج کا ہماری عوام پر اتنا رعب ہے کہ ہم ڈر کے مارے اس کے متعلق بات
بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن کیا فوجی افسرگھر میں بھی افسر ہی رہتے ہیں ، ہرگز
نہیں۔ گھر کی افسری بابا آدم ؑ سے لے کر آج تک ہمیشہ کسی اور طاقت کے پاس
رہی ہے، اور اسی کے پاس رہے گی۔لہٰذا گھر کی توہین کو ویسے توہین نہیں بلکہ
اس طرح حصوں میں سمجھنا چاہیئے:
تو ،ہے، نا ۔ توہین کے لفظ کی یہ تعبیر گھریلو فیکٹری یا ریاست چلانے کے
لئے ضروری ہی نہیں لازمی بھی ہے۔گھر مفاہمت کا دوسرا نام ہے، ورنہ گھرکی
’گ‘ ’ک‘ میں بدل جاتی ہے اور یہ ’ کھر‘
میں بدل جاتا ہے۔ ’گ‘ کی دو متوازی لائنیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کا خیال
رکھا جانا چاہیئے۔اگر کسی نے کچھ کہہ لیا تو کیا بات ہے ہم بھی تو بہت کچھ
کر لیتے ہیں۔ عدالت کی توہین آج کل کے سنگین جرائم میں سے ایک ہے جس پر
عدالت فوراً مشتعل ہو جاتی ہے۔ ہم بھی اسی حق میں ہیں کہ عدالت کی توہین
بالکل نہیں ہونی چاہیئے۔ جج صاحب کی گھریلو زندگی میں کسی کو دخل اندازی کا
قطعاً کوئی حق نہیں۔ لیکن بہت سی باتیں ازخو ہی قابلِ فہم ہوتی ہیں کہ ان
پر استفسار کی ضرورت ہی نہیں ہوتی:
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
سامان لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
بچوں کی توہین ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ ہماری معاشرت میں اس سلسلے میں کوئی
خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ ہم بچوں کو بچے ہی سمجھتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ
یہ کل کے مکمل انسان ہیں۔ ان کی عزتِ نفس مجروح نہیں ہونی چاہیئے۔ ہمارے
ادارے بچوں کو سزائیں دینے میں نے مثال ہیں۔ بچے تعلیمی ماحول کو اذیت کا
ماحول سمجھتے ہیں اور اس سے دور رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔بچوں کو
عزت کی بڑوں سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ وہ بڑوں سے زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ وہ
تو پھول ہیں جنہیں دھوپ سے بچانا بہت ضروری ہے۔ بچوں میں عزتِ نفس پیدا کر
دینا ان کو کئی ایک کلاسیں پڑھا دینے کے مترادف ہے۔ بچوں کی توہیں بالکل
نہیں ہونی چاہیئے۔ بہت سے استاد ، اپنے استادوں کو غصہ اپنے شاگردوں پر
نکالتے ہیں جو کہ کھلی زیادتی ہے۔اگر ان کی توہین ہوتی رہی ہے تو یہ ضروری
نہیں اگلی نسل کی بھی توہین ہی کی جائے۔ شعور بالیدگی حاصل کر چکا ہے اور
اس دور کے شعور کو اپنانا اس زمانے کے ساتھ چلنے کے لئے ضروری ہے۔بچوں کو
کم سے کم ڈانٹنا چاہئے۔ سزا سے اجتناب ہی برتنا چاہئے۔ دیکھنے میں بار ہا
آیا ہے کہ جو بچے سزا یافتہ ہو جاتے ہیں، وہ تعلیم سے باغی ہو جاتے ہیں۔یہ
ایسے ہی ہے جیسے ہائی پوٹنسی کی میڈیسن کے بعد کم پوٹینسی کی میڈیسن اثر
نہیں دکھاتی۔ بچوں کے لئے توہین آمیز الفاظ یا جملے استعمال نہیں کرنے
چاہیئیں۔لیکن بچے کو گائیڈ کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کو بری بات سے روکنا ایسے
ہی ضروری ہے جیسے کسی نابینا کو کسی حادثے سے بچا لینا۔
گالی توہین کی انتہائی شکل ہے۔ جب انسان بہت گھٹیا سطح پر اتر آتا ہے تو اس
کے منہ سے گالی سرزد ہوتی ہے۔تاریخ اس سلسلے میں خاموش ہے کہ پہلی گالی کس
نے کس کو دی یا نکالی تھی۔ اور یہ بات بھی ابھی نفسیاتی تحقیق کی حقدار ہے
کہ انسان گالی میں جنس یعنی سیکس کے غلط استعمال کو ہی بنیاد کیوں بناتا
ہے۔ شاید گالی دیتے وقت انسان انسانی سطح سے حیوانی سطح پر اتر آتا ہے،
اگرچہ گالی حیوانوں سے منسلک کرنا حیوانوں کی بلا وجہ تذلیل کرنے والی بات
ہے،اس لئے وہ اس میں جنس کے غیر مہذب استعمال کو بنیاد بناتا ہے۔یہ بات
دنیا کی تمام تہذیبوں اور زبانوں سے ملتی ہے کہ انسان کے گالی دینے کا
انداز قریباً قریباً ایک جیسا ہے اور اس میں جنس کو غیر معقول استعمال ہے۔
شاید جنس کا غیر معقول استعمال انسان کی پوشیدہ خواہشات میں سے ہے ، جس کا
اظہار وہ گالی دیتے وقت بلا سوچے، سمجھے کرتا ہے۔یا یہ دوسرے کو اذیت دینے
کی سب سے مکروہ صورت ہے جس کا استعمال، گالی دینے والے کی تسکین کا ذریعہ
بنتا ہے۔الغرض کچھ بھی ہو، گالی توہین کی بد ترین صورتوں میں سے ایک رہی ہے
اور رہے گی۔لیکن تہذیب کا تقاضا ہے کہ اس کو زبان سے جتنا بھی رکھا جا سکتا
ہو ،رکھنا چاہیئے۔
رندوں کو بھی اپنے خرابات کی توقیر پیاری ہوتی ہے، وہ اس کی بھی کسی صورت
توہین نہیں ہونے دینا چاہتے۔ میکدہ کے اطوار نرالے ہوتے ہیں:
یہ ہے میکدہ، یہاں رند ہیں، یہاں ساقی سب کا امام ہے
یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی، یہاں پارسائی حرام ہے
جہاں پارسائی حرام ہو، وہاں کی توہین بھی کچھ اس انداز کی ہو گی:
اس وقت سبک بات نہیں ہو سکتی
توہینِ خرابات نہیں ہو سکتی
ملنے کو آئے ہیں جبریلِ امیں
کہہ دو کہ ملا قات نہیں ہو سکتی
انسان بہت جاہل اور مکار رہا ہے۔ اس سے زیادہ کوئی مخلوق ہے ہی نہیں۔ انسان
کے سب سے زیادہ ظالم ہونے کے پیچھے اس کے بہت کچھ کر سکنے کی صلاحیت ہے۔
باقی حیوان چوں کہ زیادہ کچھ کر ہی نہیں سکتے، اس لئے وہ زیادہ ظالم واقع
نہیں ہوئے۔انسان نے انسان کو ہر طرح سے ستایا ہے۔ دوسروں کی توہین کا کوئی
جائز یا ناجائز موقع اس نے ضائع نہیں کیا۔انسان نے اپنی اپنی نسل کو
اچھوتوں میں تقسیم کر کے توہین کرنے کے گھٹیا ترین معیار تک پستی اختیار
کی۔ انسانوں کو قبیلوں اور ذاتوں ، اور طبقات کی بھول بھلیوں میں یوں تقسیم
کیا کہ شیطانوں کو بھی شرمندہ کر دیا کہ ایسی تقسیم تو وہ رذیل مخلوق بھی
نہ کر سکی۔مذاہب کی تقسیم کسی نظریئے یا اچھے برے عمل پر ہوتی ہے لیکن
انسان نے انسان کو بلاوجہ جس گروہ بندی میں جکڑ کر رکھ دیا ان رسوں کو
توڑنے کی بہت زیادہ کوشش ہونے کے باوجود انسان ان سے خلاصی نہیں پا سکا۔اب
اگر کوئی خاکروب صفائی کا کام کرتا ہے تو اس میں گھٹیا پن کی کون سی چیز
ہے؟ سیدھی سی بات ہے کہ اگر وہ صفائی نہیں کرے گا تو خود ہم کو کرنی پڑے
گی۔ آخر کسی نے تو یہ کام کرنا ہی ہے۔اسی طرح سے کپڑا بنانا، جوتے بنانا،
برتن بنانا، یا کوئی بھی کام کرنا کس عظیم ہستی نے گھٹیا قرار دیا ہے۔ کسی
نے بھی نہیں۔ بلکہ عظیم ہستیاں تو خود یہ کام کرتی رہی ہیں۔ یہ سامراجیت کے
پہلو ہیں جو کہ آج تک چلے آ رہے ہیں کہ مخالف کو یا دوسروں کو توہین کا
نشانہ بناتے رہو تا کہ وہ نفسیاتی طور پر اپنے آپ کو گھٹیا محسوس کرتے
رہیں۔
عورت کی توہین انسانی تاریخ کے منہ پر بد نما داغ کی طرح آج بھی موجود ہے۔
عورت میں بطورِ عورت باعثِ توہین کیا چیز ہے؟ کوئی بھی نہیں۔ وہ انسانیت کی
ماں ہے، بیوی ہے، بہن اور بیٹی ہے۔ ان میں کوئی بھی رول قابلِ نفرت یا
توہین نہیں ہے۔اگر عورت کسی رول میں قابلِ کراہت ہوتی ہے تو وہ اس رول میں
اکیلی نہیں ہوتی۔ ایک عورت اس وقت قابلِ مزمت ہوتی جب اس کے ساتھ کئی ایک
مرد بھی قابلِ نفرت ہو چکے ہوتے ہیں، ان حضرات کو کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ
کس انسانیت کے سپوت ہیں جبکہ ایک کمزور عورت کو پر کوئی ملامت کرنے لگتا
ہے۔ مردوں کی یہ دوغلا پالیسی آج بھی جاری و ساری ہے۔ عورت میں اگر کوئی
کمزوری یا برائی ہے تو کیا مردوں کو ان کمزوریوں اور برائیوں سے آزاد پیدا
کیا گیا ہے؟ ہر گز نہیں۔ تو پھر توہین عورت ہی کے حصے میں کیوں آتی ہے۔
غربت دنیا میں توہین کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے۔غریب کی جورو سب کی
بھابی۔ امارت کو ہمیشہ سلام ہوا ہے اور غربت سے غیر ہی نہیں اپنے بھی نظر
چرا لیتے ہیں۔ کیوں کہ غربت کا دامن خالی ہے جو کہ ہر کسی سے کچھ دینے کا
تقاضا کرتا ہے۔ جبکہ امارت سے کچھ ملنے کی توقع کی جاتی ہے۔غریب کی توہین
کیوں؟ اس لئے کہ وہ پوری سوسائٹی کو اپنے خون پسینے سے سینچتا ہے۔ کم سے کم
اجرت پر زیادہ سے زیادہ کام کرتا ہے۔اس کرپٹ دنیا میں وہ سب سے کم کرپٹ ہے۔
وہ سوسائٹی سے سب سے کم اپنا حصہ وصول کرتا ہے۔ تمام صنعت اسی کے دم قدم سے
رواں دواں ہے۔ تمام کھیت کھلیان اسی کی محنت سے سر سبز ہیں۔ کیا غریب کے
گھر پیدا ہونے والے نے کوئی نا قابلِ معافی جرم کر دیا ہے۔ یا غریب کو
اولاد دینے والی فطرت سے غلطی سر زد ہوئی ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ۔ بس انسان
کی جہالت کو سلام ہے کہ اس نے یہ سارے ضابطے اور قواعد اپنی ثواب دید سے
بنا چھوڑے ہیں۔
مہذب دنیا کے توہین کے اطوار بھی مہذب ہوتے ہیں۔یہ بات ممکن نہیں کہ ابنِ
آدم توہین سے بچ سکے، کان سیدھا نہیں تو الٹا تو پکڑا ہی جائے گا۔ یہ
انسانی کانوں کی کم بختی ہے کہ یہ سننے سے ساتھ ساتھ عقل شریف دماغ میں
داخل ہونے کا ذریعہ بھی ہیں۔ اسی لئے تو کھینچے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ
حیوانوں کے کان بھی ان کی کمزوریوں میں سے ہیں۔انسانی کان تو ہیں ہی توہین
کے لئے۔ کانوں کے ساتھ جو دوسرا عضو توہین کے سلسلے کی اہم کڑی ہے، وہ ناک
ہے۔ ناک کے کٹ جانے کی کتنی وارداتیں روزانہ کا معمول ہیں۔ناک کو اونچا
رکھنا ، انسان کی معاشرتی زندگی میں اتنا اہم ہے جتنا کہ ناک کے ذریعے سانس
لینے کا عمل۔اگر سانس نہ آئے تو جان نہیں رہتی۔ اور اگر ناک نہ رہے تو جان
کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔لوگ کہہ ہی دیتے ہیں: چلو بھر پانی میں ناک ڈبو کر
مر جاؤ۔ یہ مرنا، پورا ڈوب کر مرنے سے کہیں زیادہ اذیت ناک ہے کہ یہ اس طرح
مرنا آسان نہیں اور مرے بغیر رہ بھی نہیں آتی:
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
توہین کرنے کا ایک مہذب طریقہ نظر انداز کرنا دینا ہے۔یہ ایسی دو دھاری
تلوار ہے کہ بہت گہرا زخم لگاتی ہے۔ اس میں سانپ بھی مر جاتا ہے اور لاٹھی
بھی بچ جاتی ہے۔مہذب لوگ پھر مہذب ہی ٹھہرتے ہیں:
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
مہذب دنیا میں توہین کے مختلف اطوار میں سے ایک یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی
کی بات کو اہمیت ہی نہ دی جائے۔ وہ جو کچھ کہے، یا لکھے اسے بیان میں نہ
لایا جائے، اخبار یا رسالے کے صفحات میں جگہ نہ دی جائے۔ یااس کو کسی تحریر
یا گفتگو کا حوالہ ہی نہ بنایا جائے۔ ایسا ہو رہا ہے کہ کچھ لوگوں کو ادبی
دنیا سے آؤٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ایسے لوگوں کو اِن کیا جاتا ہے جو
زیادہ منظورِ نظر ہوں۔ یہ باتیں آج کی تو نہیں ہیں۔ ہمیشہ ہی سے ہے اور
ہمیشہ ہی رہے گا ۔ کیوں کہ حضرتِ انسان نے انسان ہی رہنا ہے، فرشتہ کبھی
نہیں بننا چاہے وہ کتنا ہی مہذب، تعلیم یافتہ، فلسفی، دانشور، وغیرہ وغیرہ
کیوں نہ بن جائے۔وہ اپنی جبلت سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ وہ ہمیشہ اسی فارمولے
کا غلام رہے گا جو فطرت نے اس کے سافٹ ویئر میں انسٹال کر دیا ہے۔ اب نیا
انسان بنانے کے لئے سافٹ ویئر بھی نیا فیڈ کرنا پڑے گا ، جو کہ انسان کے بس
میں نہیں۔ لہٰذا اسی انسان کو ہی قبول کرنا پڑے گا چارو ناچار۔اور اس کے
یہی توہین آمیز رویئے انسان کے رویوں کی عکاسی کرتے رہیں گے۔
تہذیب کے مشعل برداروں سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے افریقہ اور
ایشیا ء کے سیاہ فام اور سرخ فام باشندوں کی توہین کس بنیاد پر کی اور اس
صدیوں پر محیط توہین آمیز رویئے کی پاداش کو قبول کرتا ہے؟ اور آج بھی کون
سا رنگ و نسل کا راج مکمل ختم ہو گیا ہے۔
رسوائی یا توہین کا ایک انداز موت بھی ہے۔ مرنا بھی انسان کو دوسروں کا
محتاج بنا دیتا ہے۔ اور دوسروں کی محتاجی بڑی رسوائی یا توہین ہے۔ اس انداز
کو غالبؔ ہی احسن انداز میں پیش کر سکتے تھے:
ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
اور کبھی زندگی ہی موت کا مزا چکھا دیتی ہے، اور بار بار چکھاتی ہے:
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
الغرض زندگی کے جتنے بھی رنگ اور ڈھنگ ہیں ان میں اپنی طرز کی توہین کے
پہلو موجود ہوتے ہیں۔ انسان کی زندگی انہی رنگوں میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔
کبھی ایک رنگ کی لپیٹ میں تو کبھی دوسرے رنگ کی زد میں۔ توہین بھی شاید
ایسے رنگوں میں سے ہیں ک جن سے انسان کبھی دامن بچا نہیں سکتا۔ لیکن ہم
اپنی بات انہی الفاظ پر ختم کریں گے کہ انسان کی ہمیشہ عزت ہونی چاہیئے۔
توہینِ انسان کو اب قصہء پارینہ بنا دینا چاہیئے۔ لیکن یہ ایک خواہش ہی ہے،
ایسا ہو نہیں سکتا۔ کوشش کی جاسکتی ہے۔ دعا ہے کہ ہم سب کی عزت کرنے والے
بنیں اور دوسرے بھی ہماری عزت کریں! آمین ! |
|