اردو ہے جس کا نام - کی قومی حیثیت بارے آئین پاکستان

اردو زبان کے بارے میں پاکستان کا موجودہ آئین بعرف عام انیس سو اکہتر کے آئین پاکستان میں کیا تحریر ہے اس کا اردو ترجمہ دیکھتے ہیں (آئین پاکستان کا انگریزی میں ترجمہ اس کالم کے آخر میں درج کیا گیا ہے ) آئین پاکستان میں جو لکھا ہے وہ ملاحظہ ہو

پاکستان کے آئین کی آرٹیکل ٢٥١ کے مطابق

آرٹیکل ٢٥١ (١) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لئے استعمال کرنے کے انتظامات کئے جائیں گے۔

(٢) شق (١) کے تابع، انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لئے استعمال کی جاسکے گی، جب تک کہ اس کو اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہوجائیں۔

(٣) قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کئے بغیر، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے کے زریعہ قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لئے اقدامات تجویز کرسکتی ہے۔

صوبہ سرحد یا صوبہ پختونستان یا نامعلوم کیا نام ہونے کو ہے اس صوبے کا۔ جس کا نام ہی کنفرم نا ہو اس اسمبلی میں ایک اتفاقیہ (مشہور و معروف جماعتوں کے انتخابی بائیکاٹ کے نتیجے میں ) اقتدار پر جا بیٹھنے والی ایک حادثاتی سیاسی جماعت کہ جسے موجودہ صوبہ سرحد کے عوام کی اکثریت گزشتہ انتخابات میں بدترین طریقے سے مسترد کرتی چلی آئی ہے اس جماعت کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور کی حسرتیں ملاحظہ ہوں اور ان کی خوش فہمی اور لاعلمی کی انتہا دیکھنی ہو تو ملاحظہ ہو ان کا بیان کہ “اردو قومی زبان نہیں ہے، کیونکہ اردو ملک بھر میں نہیں بولی جاتی بلکہ صرف رابطہ زبان ہے“

انا اللہ و انا الیہ راجعون (بے شک ہم اللہ کا مال ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جائیں گے)

یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ کیونکہ اردو اگر پاکستان ملک بھر میں نہیں بولی جاتی اور صرف رابطہ کی زبان ہے تو محترم سے یہ امید رکھی جائے کہ گر پاکستانیوں کو وہ ایک قوم مانتے ہیں تو پھر کونسی ایسی زبان ہے جو ملک بھر میں بولی جاتی ہے کیا پشتو یا کوئی اور اہم زبان ان کی معلومات میں ہیں اور اگر کوئی ایسی زبان نہیں ہے جو ملک بھر میں چونکہ نہیں بولی جاتی اسلیے وہ قومی زبان کا درجہ نہیں رکھتی تو موصوف سینیر وزیر بشیر بلور سے پوچھنا یہ ہے کہ پاکستان ایک ملک ہے پاکستانی اس کی قوم ہے تو پھر اس قوم کی زبان کیا ہے ؟ یا وہ بھی ایک صوبے کے بے نام (نارتھ ویسٹ فرنٹیر پروونس ) کی طرح ایک بغیر قومی زبان کی قوم ہے۔

کس طرح کسی زبان کے قومی ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے اس کے لیے آئین کو دیکھیں یا بشیر بلور جیسے سیاسی مینڈکوں کی بات مانی جائے جن کے پاس اس معاملے میں آئین سے کھلا اختلاف ہے یعنی آئین کو نا ماننا کھلی غداری نہیں ہے کیا ؟

کل کلاں کو بشیر بلور جیسا کوئی اٹھے اور کہے کہ معاز اللہ عربی چونکہ تمام عالم اسلام میں نہیں بولی جاتی اور قرآن کریم کی زبان بھی عربی ہے اسلیے یہ صرف عربوں کے لیے اتارا گیا وگرنہ ہمارے لیے اتارا جاتا تو پشتو میں اتارا جاتا یا ہماری ہماری علاقائی زبانوں میں اتارا جاتا۔

ایک شخص جو کسی کسی پارٹی کے سینئر ترین افراد میں شامل ہو اور آئین میں صاف صراحت سے دیے گئے بیان یعنی “پاکستان کی قومی زبان اردو ہے “ کے الفاظ کو خوابوں میں بھی چاہیں تو نہیں ختم کرسکتا کیونکہ آئین اس سلسلے میں بالکل واضع ہے اگلی شق میں یعنی

“قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کئے بغیر، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے کے زریعہ قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لئے اقدامات تجویز کرسکتی ہے۔ “

غور کریں اور بڑھاپے میں ہوش کے ناخن لیتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے سینیئر ترین وزیر موصوف زرا آئین میں غور سے پڑھیں چاہے تو انگریزی اردو ورژن چھوڑ کر اپنی صوبائی زبان میں بھی آئین پڑھ لیں اگر موجود ہو تو بھی یہی قدغن نظر آئے گی کہ قومی زبان یعنی اردو کی حیثیت کو متاثر کئے بغیر ان کی صوبائی حکومت جتنا بھی زور لگا لے قومی زبان یعنی اردو کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم ترقی اور اس کے استعمال کے لئے اقدامات تجویز کرسکتی ہے اور بس اس سے زیادہ کچھ نہیں باقی بڑ بولے قسم کے لوگ اپنی ہی جگ ہنسائی کا زریعہ بنتے ہیں اور بڑے بڑے بول بولنے کے بعد جب اتر جاتی ہے تو فوراً معافی مانگ لیتے ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اپنی ہی مکمل صوبائی حکومت ہونے کے ناطے ان ہی کے اسپیکر کرامت اللہ نے رولنگ دی کہ آئین اس بارے میں واضع ہے (یعنی اردو قومی زبان ہے) اور شرم کی بات ہے کہ میڈیا سے گفتگو میں بھی بشیر بلور اپنے مؤقف پر قائم رہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئین وہ ہے جو تحریر شدہ ہے اور جس کی نگہبان سپریم کورٹ اور تمام عدلیہ ہے یا وہ ہے جو بشیر احمد بلور کے دماغ میں اچانک آجائے اور اگر سوموٹ ایکشن لے لیا جائے اور آئین کے خلاف کی گئی اس بات پر کوئی ایکشن وغیرہ لیا جائے تو فورا معافی مانگ لیں جیسا کے ان کی پارٹی کے ایک اور صاحب کرچکے ہیں۔

اس معاملے میں ڈاکٹر صغیر احمد جو سندھ حکومت میں وزیر صحت ہیں ان کا بیان قابل غور ہے جس میں انہوں نے بشیر بلور کے لیے کہا ہے کہ

“اردو زبان کی اہمیت سے انکار کرنے والے خود اردو زبان میں بات کرنے پر مجبور ہیں اور انہیں اندازہ ہے کہ اردو زبان کا سہارا لئے بغیر وہ اپنی بات ملک بھر کے عوام تک نہیں پہنچا سکتے۔ ۔۔۔ اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر بشیر بلور کے بقول اردو قومی زبان نہیں ہے تو ہم ان سے مؤدبانہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ آئندہ اپنی تقریر اور تحریر میں اردو زبان کو زحمت دینے کے بجائے اس زبان میں اظہار خیال کریں جسے وہ قومی زبان سمجھتے ہیں۔
 

Article: 251 National language
(1)
The National language of Pakistan is Urdu, and arrangements shall be made for its being used for official and other purposes within fifteen years from the commencing day.

(2)
Subject to clause (1), the English language may be used for official purposes until arrangements are made for its replacement by Urdu.

(3)
Without prejudice to the status of the National Language, a Provincial Assembly may by law prescribe measure for the teaching, promotion and use of a provincial language in addition to the national language
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 533023 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.