بجٹ

آئندہ بجٹ میں غریبوں کی روزمرہ استعمال کی اشیاء کیلئے لازماًٹیکس فری بجٹ بنائیں جبکہ موجودہ حکومت ممبران اسمبلی کو تو نواز رہی ہے اور ان کی تنخواہیں91 فیصدسے زائداضافہ کرکے 68 ہزار سے ایک لاکھ 30ہزار روپے کرڈالی گئی ہیں جبکہ یہ سبھی جاگیر دار ،سرمایہ دار ،صنعتکار طبقات سے تعلق رکھتے ہیں تقریباً سبھی ممبران مختلف مدات سے روزانہ لاکھوں کی دیہاڑی لگاتے اورعیاشیوں میں گنواتے ہیں کہ' مال حرام بود بجائے حرام رفت' جو " رزق حلال ـ"بچ رہتاہے ۔وہ مسلسل بیرونی ممالک کے بینکوں میں "برے وقتوں "کے لیے جمع ہوتا رہتا ہے یہی افراد نئے سرخی پاؤڈر اور غاز ے مل کر ہر اقتدار میں آنے والی پارٹی میں شامل ہو کر لوٹ مار کا کاروبار جاری رکھتے ہیں۔ا ن ممبران کی مراعات میں اضافہ 77 فیصد سے زائدغربت کی لکیر سے نیچے چلے جانے والے عوام کے منہ پر تھپڑ ہے۔دوسری طرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں میڈیکل ،کرایہ و کنؤینس الاؤنسز میں قطعی اضافہ نہ کرنا اور صرف 8،9فیصداضافہ کی تجاویز اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے ان کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی اسمبلی ممبران کی طرح 91 فیصد اضافہ کیا جائے ۔اساتذہ چونکہ معاشرے کی تعمیر کے بنیادی پتھر ہیں۔ اس لیے آئندہ بجٹ میں ان کی تنخواہوں میں بھی91فیصد ہی اضافہ کیا جائے جو ممبران اسمبلی ، وزراء ،جنرل ،کرنل ،حتیٰ کہ صدر اور وزیر اعظم بھی ہیں ان کو زیور تعلیم سے آراستہ انہی ٹیچر حضرات نے کیا ہے۔پرائمری ٹیچر کی تنخواہ لیفٹینٹ کے برابر ، مڈل ٹیچر کی میجر ، میٹرک ٹیچر کی لیفٹینٹ کرنل ، ایف اے تعلیم دینے والے لیکچرارز کی کرنل کے برابر، گریجوایشن کروانے والے پروفیسروں کی بریگیڈئر اور ایم اے تعلیم دینے والے پروفیسرز کی میجر جنرل کے برابر تنخواہ کی جائے ،کالجوں کے پرنسپلوں کی لیفٹینٹ جنرل اور یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تنخواہیں جنرلوں کے برابر کی جائیں کہ وہ جن کو تعلیم دیتے ہیں۔ وہی ان سبھی اعلیٰ عہدوں تک پہنچتے ہیں ۔ان کی تنخواہیں اعلیٰ ہونگیں تو وہ ٹویشنوں کے چکر میں پڑے بغیر خوشی خوشی طلباء کی اعلیٰ تربیت کریں گے اور محنت سے تعلیم و تعلم کرسکیں گے ۔ دانش سے عاری حکمرانوں کو دانش سکولوں سے ہی فر صت نہیں وہ ٹاٹ اور چھپر سکولوں میں غرباء کے بچوں کو سہولتیں مہیا کرنے سے قاصر ہیں۔40فیصد سکولوں میں لیٹرین تک نہیں ہیں 25 فیصد سکول چار دیواری سے محروم ہیں اور 15فیصد کی چھتیں نہ ہیں ادھر زرعی مداخل بجلی ، کھاد بیج اور کیڑے مار ادویات کی قیمتیں کم نہ کی گئیں اور کسان دوست بجٹ نہ بنا اور انھیں 35فیصد سبسڈی نہ دی گئی تو آئندہ وہ فصلیں کاشت کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچیں گے سند ھ اور پنجاب میں سبھی ملیں حکمرانوں کی ہیں اور وہ گنے کی رقوم ادا نہیں کر رہے کسان نہ رو سکتے ہیں نہ مر سکتے ہیں ملک پہلے ہی پولیس اسٹیٹ بنا ہوا ہے اس لیے جلسہ جلسوں میں سوائے سر پھڑوانے یا شہادتیں حاصل کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔بجٹ میں پٹرول ڈیزل اور سگریٹ کی قیمتیں بڑھنے کے امکان سے ہی یہ اشیاء مارکیٹ سے غائب کرکے انھیں بلیک میں فروخت کیا جارہا ہے۔ اعلیٰ سگریٹس کے برانڈ کا سگریٹ مافیا نے اسٹاک شروع کردیا ہے۔ ان مافیاز کے خلاف چھا پہ مار ٹیمیں رشوتیں وصول کرکے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہیں ۔ڈیزل پٹرول مہنگا کرکے دوبارہ عوام کی کمر پر مزید مہنگائی کابوجھ لادا جائے گا اور غریب عوام کے سفر والی معمولی ٹرانسپورٹ کے کرائے ابھی سے بڑھائے جارہے ہیں۔ اور کوئی پوچھنے والا نہ ہے۔ ادویات کی قیمتیں پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور جان بچانے والی ادویات تو غریب کی پہنچ سے پہلے ہی باہر ہوچکی ہیں۔اس لیے ان کی مزید قیمتیں بڑھانا غریب مریضوں کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہو گا۔واضح رہے کہ وزارت صحت بھاری رقوم لے کر ہی قیمتیں بڑھاتی ہے۔ پچھلے 30سال سے آنے والے تمام وزرائے صحت کھربوں کی جائدادیں بیرون ملک بنا چکے ہیں کہ صرف 20پیسے کسی دوائی کی قیمت بڑھانے کی رشوت 10کروڑ روپے ہوتی ہے ۔یہ ریٹ لسٹ سن کر لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔کہ بہر حال ادویات کی قیمتیں بڑھانے سے خریدارغریب عوام پر ہی جگا ٹیکس لگے گا۔پھر جعلی ادویات تیار کرنے والے تو کھربوں کماتے اور اربوں رشوت دیتے ہیں۔ اس مکروہ کاروبار کو تو صرف مخلص قیا دت برسر اقتدار آکر ختم کرسکتی ہے ۔صنعتکار اورتاجر چونکہ معیشت میں بھی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کی مشاورت سے بجٹ بنا یا جائے تو ملک میں معاشی انقلاب آسکتا ہے۔ انڈسٹری چلانے کے لیے بجلی ہے نہ گیس ۔بدامنی کی ایسی دگرگوں صورتحال میں بیرونی سرمایہ کار کیونکر سرمایہ کاری کریں گے۔ حکومت تاجروں اور سرمایہ کاروں کے لیے ہنگامی اقدامات کرے ،توانائی کے بحران کوختم اور قانون کی بالادستی قائم کرے اور آئندہ ٹیکس فری بجٹ سے ہی ملکی صنعت کو سہارا مل سکتا ہے۔ جبکہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ڈیری سیکٹر پر ٹیکس عائد کرنے کا امکان ہے ۔جس سے صارفین کو 260ارب روپے اضافی اداکرنا ہوں گے دودھ کی پیدوار میں تیسرے نمبر کا ملک پاکستان سالانہ تقریباً40کروڑ لیٹر دودھ استعمال کرتا ہے ڈیری سیکٹر انڈسٹری میں ٹیکس کا نفاذ اس کے لیے تباہ کن ہو گا لوگ بھینس ،گائے اور بکریاں رکھناہی چھوڑ جائیں گے۔ بچوں کے منہ سے دودھ بھی چھنے گاحتیٰ کہ حکمران ملک کو بھوکا مارنے پر تلے ہوئے ہیں ایسا ظالمانہ بجٹ پیش کرکے حکمران تو بیرونی ممالک میں اپنے خریدے گئے فلیٹس اور بنگلوں کا رخ کر جائیں گے کہ ان کے ذاتی طیارے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ مگر شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کا حشربھی یاد رکھیں جسے دو گز زمین دفن ہونے کے لیے بھی کسی نے نہ دی تھی۔ اسطرح حکمران اور نام نہاد اپوزیشنی سیاستدان غریب عوام کے لیے مہنگائی کا جن چھوڑ جائیں گے جو کہ دیو بن کر ان کی آئندہ نسلوں حتیٰ کہ بچوں کو بھی روندتا رہے گا ۔ہوش کے ناخن لیں اور غریبوں کی روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں1/3کرکے ان کیلئے ٹیکس فری بجٹ بھی بنائیں ۔مرکزی حکومت اپنی عیاشیوں ، اوباشیوں اور فضول خرچیوں کی سزا غریب عوام کو دینے پر تُلی ہوئی ہے اور آئندہ بجٹ میں پانچ سو ارب روپوں کے نئے ٹیکسوں کا زہریلا ٹیکہ لگا نا اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔حکومت اسمبلیوں تک سے مشاورت کئے بغیر اللے تللے کاموں پر بھاری رقوم خرچ کرڈالتی ہے۔ اور پھرضمنی بجٹوں اور سالانہ بجٹ کے ذریعے عوام کی گردن پر مزید ٹیکسوں کی صورت میں ایسا بھاری بوجھ ڈال دیتی ہے کہ الاامان وا لحفیظ ۔امن عامہ اور مسلکی اختلافات سے بگڑتی ہوئی صورتحال میں دو وقت کی نان جویں کو ترستے ہوئے غریب پسے ہوئے طبقات کے لوگوں کو بھلا میٹرو جنگلہ بسوں کی کہاں ضرورت ہے؟ محسوس ہوتا ہے کہ ایسے غیر ضروری منصوبے صنعتکارحکمرانوں کے کاروباری مفادات اور مال کماؤ پروگراموں کا حصہ ہیں ۔اور دنیا کی سب سے بڑی وزارتوں کی ٹیم کے کھلاڑیوں اور ممبران اسمبلی کی تنخواہوں ومراعات میں پہلے ہی اضافہ کیا جاچکا ہے یہ تو وہی ہوا نہ کہ "انا ں ونڈے ریوڑیاں مڑ مڑ اپنیاں نوں" احتساب کرکے کسانوں مزدوروں کے مسائل حل کرنے علا وہ کو ئی چارہ نہیں ہے۔دوسری طرف را اور اس کے ایجنٹ بمعہ تمام ملک و اسلام دشمن قوتوں کے ملک کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ چائنہ گوادر کوریڈور اور اس طرح سے 46ارب ڈالرز کے چینی منصوبوں کو ناکام بنانے کی سازشیں بھی عروج پر ہیں جس کے لیے بھارت تو 30کروڑ ڈالر مختص بھی کرچکا ہے ان حالات میں ملک کو فوری طور پر با کردار ، بااصول قیادت کی اشد ضرورت ہے۔خدا خدا کرکے کوریڈور کے مغربی حصہ پر سیاستدانوں کا اتفاق ہوا ہے جو کہ قابل تحسین عمل ہے۔ چونکہ آئین پاکستان کے تحت سبھی عوام برابر حقوق رکھتے ہیں اس لیے کسی فرد یا حکمرانوں کو غریبوں پر مزید مہنگائی کا بم گرانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ کہ یہ عمل غیر آئینی کہلائے گا۔اس لیے حکومت کی نا اہلیوں اور غیر آئینی اقدامات کا سپریم کورٹ سویو موٹو نوٹس لے۔ اور موجودہ جعلی و دھاندلی زدہ اور آئین پاکستان کے خلاف کام کرنیوالی اسمبلیوں کو تحلیل کرکے عام شفاف انتخابات فو ج کی نگرانی میں کروانے کا فی الفورانتظام کیا جائے کہ سپریم کورٹ ہی غیر آئینی اقدامات کرنے والوں کے خلاف ایکشن لے سکتی ہے۔ اسطر ح ملک کسی مزید نقصان و انتشار سے بچ سکے گااور اس کی سا لمیت پربھی کوئی آنچ نہ آئے گی کہ سامراجی،یہودی ،نصرانی ،اسرائیلی و بھارتی ملک دشمن طاقتیں اپنے اوچھے وار کرنے کو تیار بیٹھی ہیں۔
Imtiaz Ali Awan
About the Author: Imtiaz Ali Awan Read More Articles by Imtiaz Ali Awan: 16 Articles with 12820 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.