3 اہم ایشوز

مصر ی فوجی عدالت نے مصر کے پہلے نو منتخب اسلام پسند صدر محمد مرسی اور ان کے 105 ساتھیوں کو بھی جیل توڑنے کے الزام میں اسلام پسندی کی سزائے موت کی شکل میں سنا دی ہے۔واضح رہے کہ اس سے قبل مصر میں طویل عرصہ بادشاہت رہی ہے اخوان المسلمین مصر نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرکے حکومت بنالی، تقریباً ایک سال کے عرصہ میں صدر مرسی نے مصر میں درجہ بدرجہ اسلامی قوانین کا اجراء شروع کردیا اس کی سزا عالم کفر نے اس طرح دی کہ مصری فوج سے بغاوت کروا کر صدر مرسی کا تختہ الٹ دیا جس کے نتیجے میں جلسے،جلوس،دھرنے شروع ہوگئے لاکھوں کی تعداد میں اخوان سڑکوں پر آگئے جنھیں ڈکٹیٹر مصری حکومت نے بدترین تشدد،بربریت ،طاقت کے استعمال سے بعد منتشر کردیااخوان قیادت اور سرگرم کارکنان کی گرفتاریوں،سزاؤں کا سلسلہ شروع ہوگیا گذشتہ سال بھی اخوان کے کارکنا ن کو سزائیں دی گئیں اب اخوان کے سرکردہ رہنما سابق صدر محمد مرسی اور ایک سو سے زائد ساتھیوں کے ہمراہ سزائے کوت کا حکم سنادیا گیا ہے ان افراد میں اخوان کے مرشد عام محمد بدیع اور معروف عالم دین یوسف القرضاوی بھی شامل ہیں ،اخباری ذرائع کے مطابق مفتی اعظم مصر اس سزا پر اپنی رائے کا اظہار کریگا حتمی فیصلہ 2 جون کو ہوگا اس فیصلے پر امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے،ترک صدر طیب اردگان نے اسے مغربی منافقت قرار دیتے ہوئے اس فیصلے پر شدید الفاظ میں تنقید کی ہے،انٹر نیشنل ایمنسٹی نے بھی اس فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔اور اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔پاکستان کی مذہبی و سیاسی قیادت کو بھی اس فیصلے پر شدید تحفظات ہیں اس فیصلے کو ظالمانہ،فسطائیت پر مبنی قرار دیا ہے ۔قارئین کرام ! اس ظالمانہ فیصلے سے ایسے لگ رہا ہے کہ اہل جمہوریت نے اپنے دامن سے اسلام پسندوں ، جمہوریت کی چھتری کے نیچے رہ کر نفاذ اسلام کی پرامن جدوجہد کرنے والوں کومکمل صاف کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تاکہ آنے والے مسلمان لیڈران نظام جمہوریت کے تحت نفاذ اسلام کی پرامن جدوجہد کرنے کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لا سکیں۔اس فیصلے اور اخوان پر مظالم کے خلاف اہل جمہوریت کا اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا بصورت دیگر اسلام پسند قوتوں کا جمہوریت،بیلٹ پر اعتماد ختم ہوجائے گا۔عالم کفر یہی سازش ہے کہ اسلام پسند مسلمان ہمارے غلام رہیں یا کسی بہانے انہیں دہشت گرد قرار دے کر ختم کردیا جائے ۔مصرعی عدالت کا حالیہ فیصلہ دینی قوتوں کیلئے نوشۂ دیوار ہے۔

قارئین کرام !سعودی عرب پر بد امنی کی فضا کے بادل چھائے جارہے ہیں گذشتہ جمعہ کو سعودی عرب کی ایک شیعہ مذہب کی عبادت گاہ میں خود کش دھماکہ ہوا ب پھر ٹھیک ساتویں دن جمعہ ہی کو دمام شہر کی مسجد میں کار کے ذریعے حملہ کیا گیا ہے ابتدائی رپورٹس کے مطابق دو افراد شہید جبکہ کئی زخمی ہوگئے شہادتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔اگر یہ کہہ دیا جائے کہ پاکستان کے بعد سعودی عرب بھی دہشت گردی کی لپیٹ میں آتا جارہا ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ایک منظم منصوبے کے تحت اسلام دشمن قوتیں سرگرم عمل ہیں کہ کسی طرح سے سعودی عرب کو غیر منظم،ناکام ریاست بنایا جا سکے ۔سعودی عرب نے پاکستان کو برے وقت میں مدد کیلئے پکار مگر ہماری نااہل قیادت قرارداد کے چکر میں پڑ گئی اب بھی وقت ہے پاکستان کے پاس کہ وہ سعودی عرب کو اپنی عسکری ،خفیہ ایجنسی کی طاقت سے سعودی عرب کا امن تباہ ہونے سے بچا سکتا ہے شاید کسی اور اسلامی ملک کے پاس اس قدر طاقت نہ ہو۔ان حملوں میں کون ملوث ہیں ؟مبصرین کا یہی کہنا ہے کہ ان حملوں میں حوثی باغی اور ان کا حمایتی ملک( جو سعودی عرب کو پتھر کے دور میں لے جانے کی بات اب بھی کر رہا ہے) اور اس ملک کے دم چھلے ممالک اور گروہ ہی ملوث ہیں تاکہ سعودی عرب جیسے پر امن،مقدس،مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ملک کو عدم استحکام کا شکار کیا جائے ۔ان حالات میں اسلامی ممالک پر اولین فرض عائد ہوتا ہے کہ سعودی عرب مخالف گروہوں اور ممالک کے خلاف مضبوط صف بندی کرکے ان کے خلاف بلا تاخیر تادیبی کاروائی کریں اگر خدانخواستہ مسلم ممالک نے سست روی کا مظاہرہ کیا تو سعودی عرب پر عملاً امریکہ اور اسرائیل کے ایجنٹ ،نام نہاد مسلم ملک کے قبضہ ہونے کا خدشہ ہے جو امت مسلمہ کے منہ پر طمانچہ ہوگا عالم کفراپنے ایجنٹ ممالک کے ذریعے سعودی عرب کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ کا آغاز کرچکا۔اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو اب مصلحت اوراختلافات کو بالائے طاق رکھ کر جدوجہد کرنا ہوگی۔

اس سال پاکستان بھر میں یوم تکبیر جوش وخروش سے منایا گیا سینکڑوں تقریبات کا اہتمام کیا گیاسرکاری سطح پروفاقی ،صوبائی حکومتوں کے زیر اہتمام تقاریب منعقد کی گئیں جن میں پاکستان کو مزید مستحکم کرنے کا اعادہ کیا گیا قوم کو دفاع وطن کے جذبے سے سرشار کرنے کیلئے ایسی تقریبات قابل صد تحسین ہیں اس سے نسل نو میں حب الوطنی کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے مگر جب 29 مئی کے اخبارات کے مرکزی صفحے پر بندہ نے پرسرخی پڑھی کہ کسی بھی سرکاری تقریب میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو مدعو نہیں کیا گیا تو دل خون کے آنسو رونے لگا کہ ایک ایسی شخصیت جس نے ایٹم بم بنانے میں کلیدی کرادر ادا کیا اس قوم کا دفاع ناقابل تسخیر بنانے میں دن رات لگا رہا آج جب ایٹمی پاکستان کو سترہ سال مکمل ہوئے تو تجدید عہد کے اس قومی دن پرحکمرانوں اور سیاسی بازی گروں نے اس عظیم ہستی کو یکسر بھول گئے کیا سیاست دان خود اکیلے ہی ایٹم بم کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ خودغرضی ،حماقت ،احسان فراموشی ،خود نمائی کا خطرناک مرض ہے جس کا علاج ازحد لازم ہے ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نظر انداز کرنا محسن پاکستان ہی نہیں بلکہ ساری قوم کے ساتھ زیادتی ہے حکمرانوں کو اپنی اس غلطی پر قوم سے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے معافی مانگتے ہوئے اپنے غلط رویے کو ترک کرنا ہوگاقوم کو ایسی احاسن فراموشی کسی قیمت پر قبول نہیں ۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 269958 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.