خیبرپختونخوا: انتخابات میں دھاندلی .... صوبائی حکومت پریشان
(عابد محمود عزام, karachi)
خیبرپختونخوا میں 10 سال بعد
بلدیاتی انتخابات ہوئے، جس میں اب تک مجموعی طورپر صوبے کی حکمران جماعت
تحریک انصاف کو برتری حاصل ہے۔ جبکہ دوسرے نمبر پر جمعیت علمائے اسلام (ف)
ہے۔ خیبرپختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو اکثر سیاسی جماعتوں کی
جانب سے غیرشفاف قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ ان انتخابات میں جہاں ایک طرف
الیکشن کے روز 11 افراد ہلاک اور لگ بھگ سو زخمی ہوئے، وہیں پولنگ کے دوران
بدنظمی، مار دھاڑ ، کھلے عام اسلحے کی نمائش اور دھاندلی کی شکایات سامنے آ
رہی ہیں۔ صوبے کی حکمران جماعت چونکہ پی ٹی آئی ہے، اس لیے سب کی انگلیاں
بھی پی ٹی آئی کی جانب اٹھ رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی
کے وزرا اور ایم این ایز یا ایم پی ایز نے اپنے اپنے حلقوں میں جا کر
سرکاری اور سیاسی اثر و رسوخ کو بدترین طریقے سے استعمال کیا۔ بعض وزرا کی
ویڈیوز تک سامنے آئیں، جن میں وہ وزارت کا استعمال کرکے لوگوں کو ڈرا دھمکا
رہے ہیں۔ ہزاروں لوگ ووٹ ڈالنے سے محروم رہے۔ درجنوں مقامات پر پولنک معطل
کرنا پڑی۔ سیکڑوں مقامات پر بیلٹ پیپر غلط چھپے۔ سب سے زیادہ شکایات
وزیراعلیٰ کے ضلع سے موصول ہوئیں۔ اس کے ساتھ پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر
امین گنڈاپور بیلٹ باکسز لے جاتے ہوئے پکڑے گئے، جس کے بعد امین گنڈا پور
کو ایس ایچ او اور پرائیڈنگ افسر پر تشدد کے مقدمے میں گرفتار کر کے جسمانی
ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا، جو پی ٹی آئی کے لیے مقام ندامت ہے،
کیونکہ پی ٹی آئی روز اول سے دھاندلی کے خلاف آواز اٹھاتی آئی ہے، لیکن
بلدیاتی انتخابات میں خود پی ٹی آئی کی جانب سے دھاندلی کے واقعات نے پی ٹی
آئی کے سر شرم سے جھکا دیے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ پولنگ کا عملہ
صوبائی حکومت کے ماتحت اداروں پر مشتمل تھا، جن میں اسکول کے اساتذہ،
سرکاری افسران شامل تھے۔ کئی علاقوں میں سرکاری اور پولیس اہلکار حکومتی
پارٹی سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کے لیے ووٹ مانگتے رہے اور ان کے لیے
جعلی ووٹ ڈالتے ہوئے رنگے ہاتھ پکڑے بھی گئے ہیں، لیکن کسی کے خلاف کوئی
کارروائی نہیں ہوئی۔ کئی شہری علاقوں میں سیاسی جماعتوں کے کارکن کھلے عام
اسلحہ کی نمائش کرتے ہوئے نظر آئے، جس سے پولنگ کا ماحول کشیدگی کا شکار
رہا۔
صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ بدنظمی اور تشدد کے واقعات کی ذمہ داری ان پر
عاید نہیں ہوتی، بلکہ اس سلسلے میں تمام تر ذمہ داری صوبائی الیکشن کمیشن
کی ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کے مطابق مکمل انتظام اور پولیس
کے اختیارات الیکشن کمیشن کو دے دیے گئے تھے اور تحریک انصاف کے سربراہ
عمران خان کا بھی یہی کہنا ہے کہ پولنگ کے دوران بدنظمی اور تشدد روکنے کی
ذمہ داری صوبائی الیکشن کمیشن کی تھی، لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا
ہے کہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوران امن و امان برقرار
رکھنے کی تنہا ذمہ دار صوبائی حکومت تھی، ایک ہی دن بلدیاتی انتخابات حکومت
کے کہنے پرا کرائے ہیں۔ حکومت یا سیاسی جماعتیں جب بھی ناکام ہوتی ہیں تو
اس کا سارا ملبہ الیکشن کمیشن کے سر پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ
اس میں شک نہیں کہ ہفتے کو ہونے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات صوبے کی
تاریخ کے سب سے بڑے بلدیاتی انتخابات قرار دیے جا رہے ہیں، جس میں بڑی
تعداد میں امیدواروں نے حصہ لیا، تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ ”تبدیلی اور
شفافیت“ کا دعویٰ کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت میں بدترین تشدد اور
بدنظمی کے واقعات بھی دیکھنے میں آئے۔ جبکہ نادرا نے پاکستان تحریک انصاف
کی قیادت پر واضح کیا کہ قومی ادارے اور اس کے سربراہ کے خلاف تضحیک آمیز
بیانات دینے سے گریز کرے۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے ایک دن بعد فری اینڈ
فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں انتخابی
بدانتظامی اور بے ضابطگیوں کی ذمے دار خیبر پختونخوا حکومت اور الیکشن
کمیشن کو قرار دیا گیا۔ فافن مبصرین کے مطابق بدانتظامی کی وجہ سے بہت سے
ووٹ کاسٹ نہیں کیے جاسکے۔ پولنگ کا عمل سست اور طویل تھا۔ تقریباً 13 فیصد
پولنگ اسٹیشنوں کے بارے میں رپورٹ ملی تھی کہ انہیں پولنگ کے سرکاری وقت 8
بجے صبح کو کھول دیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ووٹروں اور یہاں
تک کہ امیدواروں کی بھی کسی قسم کی رہنمائی نہیں کی۔ فافن کے ابتدائی نتائج
سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور امیدوار انتخابی قوانین کو
آزادانہ طور پر خلاف ورزی کر رہے تھے۔ پولنگ اسٹیشنوں کے نزدیک قائم کیے
گئے پارٹی کیمپس پر امیدواروں کی انتخابی مہم بلا روک ٹوک جاری رہی اور ان
سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کسی قسم کی کارروائی کی اطلاع نہیں ملی۔
خیبرپختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بدترین بدانتظامی کی وجہ
سے اکثر سیاسی جماعتوں کی جانب سے صوبے کی حکمران جماعت کو تنقید کا نشانہ
بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات میں ہونے
والی دھاندلی نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں
پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخابات میں
وزیراعلیٰ ہاﺅس کو ”بدترین دھاندلی“ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے الیکشن
کمیشن آف پاکستان سے 31 مئی کے انتخابی عمل کو کالعدم قرار دینے اور دوبارہ
پولنگ کرانے کا مطالبہ کیا۔ جماعت اسلامی کے ضلعی سربراہ نے کہا کہ پی ٹی
آئی نے 2013 کے عام انتخابات میں دھاندلی پر وادیلا مچا رکھا ہے، لیکن اس
نے خود صوبائی دارالحکومت کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں ردو بدل کیا
ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”دھاندلی کا منصوبہ وزیراعلیٰ ہاﺅس میں بنا۔“ انہوں
نے الزام عاید کیا کہ حکومتی مشینری بشمول پولیس کو نتائج میں ردوبدل کے
لیے استعمال کیا گیا اور انتخابات نے صوبے میں پولیس کو غیر جانبدار بنانے
کے بلند و بالا دعوﺅں کا پول کھول دیاہے۔ پولیس اور پولنگ عملہ مکمل طور پر
پی ٹی آئی امیدواروں کی حمایت کررہا تھا اور پولنگ اسٹیشنز کی سیکورٹی کے
لیے تعینات پولیس عہدیداران ووٹرز پر پی ٹی آئی امیدواروں کو ووٹ ڈالنے کے
لیے دباﺅ ڈال رہے تھے۔ اپنی اتحادی جماعت کی جانب سے دھاندلی کے الزامات
لگائے جانے پر سربراہ تحریک انصاف نے ناراضی کا اظہار کیا۔ جس کے بعد جماعت
اسلامی کے صوبائی امیر پروفیسر ابراہیم نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ
صوبائی حکومت نے دھاندلی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ عمران خان ثابت کر دے کہ
دھاندلی نہیں ہوئی تو جماعت اسلامی معافی مانگ لے گی۔
کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر جمعیت علمائے اسلام
(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا کے انتخابات پر
ڈاکا ڈالا گیا ہے۔پولیس نے تحریک انصاف کے غنڈوں کا تحفظ کر کے بدترین مثال
قائم کی ہے۔ یہ دھاندلی نہیں، بلکہ بدترین ڈاکا تھا، جس نے تحریک انصاف کو
شرمندہ کر دیا ہے۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام نے اعلان کیا کہ وہ مبینہ
انتخابی دھاندلی کے خلاف جمعرات کو جلسوں اور دھرنوں کا انعقاد کرے گی،
جبکہ چھ جون کو اس حوالے سے کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا۔ جے
یو آئی ف کے صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا شجاع الملک نے کہا کہ تیس مئی ملک
کی تاریخ میں صوبے میں بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کے باعث سیاہ دن کے
حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ صوبائی حکومت، وزرا، صوبائی اراکین اسمبلی اور
عہدیداران نے بیلٹ پیپر کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے پورے عمل کو دھاندلی کا
نشانہ بنایا۔ حکمران جماعت (پی ٹی آئی) کے ورکرز پولیس کے تعاون سے بیلٹ
باکسز کو اٹھا کر لے گئے، لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا اور ضابطہ اخلاق کی
خلاف ورزی کی۔ ٹھپے لگے بیلٹ پیپرز مرد و خواتین کے حوالے کیے گئے تاکہ
بیلٹ باکسز میں ڈالے جاسکیں، جبکہ پی ٹی آئی کے حامیوں نے کھلے عام بیلٹ
پیپرز پر ٹھپے لگائے اور پولنگ ایجنٹوں کو انتخابی نتائج کی نقول فراہم
نہیں کی گئیں۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کے پاس دھاندلی اور بے
ضابطگیوں کی ویڈیو کلپ بھی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے بدترین دھاندلی کے
الزامات پر صوبائی حکومت کافی پریشان دکھائی دے رہی ہے، کیونکہ ہفتے کے روز
سے میڈیا پر کے پی کے میں انتخابات کے دوران ہونے والے دھاندلی اور
بدانتظامی کے چرچے ہیں، لہٰذا دھاندلی کے الزامات کے بعد عمران خان نے کہا
ہے کہ خیبرپختونخوا میں فوج کی نگرانی میں دوبارہ انتخابات کرانے کے لیے
تیار ہیں۔مبصرین کا کہنا ہے کہ سربراہ پی ٹی آئی کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے
کہ انہوں نے کے پی کے میں دھاندلی کا اعتراف کر لیا ہے۔ |
|