گلگت بلتستان انتخابات اور زمینی حقائق
(Hidayatullah Akhtar, Gilgit)
گلگت بلتستان انتخابات میں ابھی
چند ہی دن باقی رہ گئے ہیں ۔اس دفعہ جو پاکستانی سیاسی پارٹیاں ان انتخابات
میں حصہ لے رہی ہیں ان میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی سیاسی اور دینی
جماعتیں ۔پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف،
مجلس وحدت المسلمین، جمعیت العلما اسلام فضل الرحمان، جماعت اسلامی آزاد
جموں کشمیر ۔تحریک اسلامی۔ ایم کیو ایم، آل پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان
عوامی تحریک شامل ہیں ۔ان انتخابات میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے
کسی سیاسی پارٹی کا وجود نظر نہیں آرہا ہے۔ چند قوم پرست پارٹیاں جن کی
تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اپنے اپنے پلیٹ فارم سے اپنے طور پر آزاد
یا کسی اور شکل میں میدان میں ہیں۔ یہاں کسی پارٹی کو کسی پر فوقیت دینے
اور کسی پارٹی کو کمتر سمجھنے والی بات کے پیش نظر بات نہیں کی جا رہی ہے
بلکہ کچھ زمینی حقائق کی نشاندہی کی خاطر تذکرہ ہے۔پارٹی بڑی ہو یا چھوٹی
ان کے مقاصد اور نظریات مقدم سمجھے جاتے ہیں۔کچھ پارٹیاں ایسی ہیں جن کا
وجود گلگت بلتستان میں عجیب سا محسوس ہو رہا ہے ان میں پاکستان عوامی
تحریک، ایم کیو ایم، اور آل پاکستان مسلم لیگ۔ کہنے کو ان پارٹیوں نے بھی
اپنے امیدوار ان انتخابات میں اتارے ہیں لیکن اس کا جو نتیجہ سامنے آنے
والا ہے اس سے ان پارٹیوں کے سربراہان بخوبی آگاہ ہیں ۔۔دوسری طرف کچھ
ایسی کلعدم جماعتیں ہیں جو انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں پھر بھی اپنا
نام بدل کر وہ بھی ان انتخابات میں موجود ہیں ۔تیسری قسم آزاد امیدواروں
کی ہے ان میں چند ایک تو اپنی برادری کے باعث اپنا ایک ووٹ بنک رکھتے ہیں
لیکن انتخابات جیتنے کی پوزیشن میں کوئی نہیں ۔۔اب ان تمام عوامل کو سامنے
رکھ کر سیاسی جوڑ توڑ کے بارے تجزیہ کیا جا ئے تو اس کا منظر کچھ یوں
دکھائی دیتا ہے ۔ گلگت بلتستان میں سیاست نظریات اور ترقیاتی کاموں سے
زیادہ مذہب اور برادری اور قبیلوں کے گرد زیادہ گھومتی ہوئی نظر آتی ہے
اوران انتخابات میں بھی یہ دو رنگ نمایاں ہیں ۔۔اس کے علاوہ ان انتخابات
میں آزاد امیدوار بڑی سیاسی پارٹیوں کے لئے اتنے پریشان کن نہیں جتنی
مذہبی جماعت ایم ڈبلیو ایم بن گئی ہے۔ کیونکہ اس پارٹی کا نعرہ جان بھی
حسین کی ووٹ بھی حسین کا ت نے تمام سیاسی پارٹیوں کو پریشان کر دیا ہے اس
کی وجہ یہ ہے کہ سب کو معلوم ہے کہ یہاں جنون کی حد تک مذہبی عنصر پایا
جاتا ہے اور سبھی اس بات سے واقف ہیں کہ جہاں حسین کا نام آتا ہے تو کیا
ان پڑھ کیا تعلیم یافتہ سب دوسرے عوامل کو بھول ہی جاتے ہیں اور ان کے
سامنے پھر مذہب مقدم بن جاتا ہے چاہئے امیدوار کچھ بھی ہو ووٹ اسی کو ہی
پڑتا ہے۔۔دوسری اس پارٹی کی حکمت عملی دیکھئے کہ تعلیم یافتہ افراد کو اپنے
حلقے میں شامل کرکے اس اثر کو بھی زائل کر دیا ہے کہ تعیم یافتہ افراد
مذہبی جماعتوں کا ساتھ نہیں دینگے ۔ مجلس وحدت المسلمین وحدت کی بات تو
کرتی ہے لیکن اس پارٹی نے ایک ہی فرقے سے تعلق رکھنے والے افرادکے علاوہ
کسی دوسرے مسلک کے لوگوں کو ٹکٹ نہیں دئے جس کے باعث یہ شعیوں کی جماعت ہی
کہلاتی ہے جس کی وجہ سے دوسرے مسالک اپنے اندر تحفظات رکھتے ہیں ۔یہ مسلہ
صرف وحدت المسلمین کے ساتھ ہی نہیں بلکہ دوسری مذہبی جماعتیں جن میں جماعت
اسلامی، جمعیت العلما اسلام اور تحریک اسلامی ( سابقہ تحریک جعفریہ) بھی
شامل ہیں ۔ یہ بلکل وہی صورت حال ہوگئی ہے جو گلگت بلتستان کو ڈوگرہ راج سے
خالی کرنے کے بعد پیدا ہوئی تھی ۔اس پر جلتی کا کام پیپلز پارٹی کےنامزد
امیدوارکی فرقہ ورانہ منافرت پر مبنی انتخابی مہم نے بھی کیا۔۔دوسری طرف
مذہبی جماعت جماعت اسلامی جو ایک نظریاتی جماعت ہے ہر طرح سے منظم ہے لیکن
ان کو بھی اتنی پذیرائی حا صل نہیں کہ وہ کوئی سیٹ حاصل کرسکے لیکن اس کے
باوجود بھی وہ اس انتخابی میدان میں کمر کس کے موجود ہے جماعت اسلامی
انتخابات جیتے یا ہارے اس سے ہٹ کر ان کی خوبی یہ ہے کہ ان کا متمنی نظر
اقتدار نہیں بلکہ گڈ گورنس ہے اور یہ اسمبلی سے باہر رہ کر بھی اپنے کام کو
احسن طریقے سے ادا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔۔۔ مولانا فضل الرحمان کی دینی
جماعت جمعیت العلما اسلام کی پوزیشن گلگت سے زیادہ دیامر داریل تانگیر میں
مستحکم نظر آتی ہے لگتا ایسا ہے کہ یہ جماعت اپنی سابقہ پوزیشن برقرار
رکھنے میں کامیاب رہے اس دفعہ اس جماعت کے لئے پی ٹی آئی نے بڑا ٹف ٹائم
دیا ہے۔تحریک اسلامی کی پوزیشن کوئی خاص نہیں یہ جماعت اندرون خانہ کسی بھی
دینی جماعت کے حق میں دستبردار ہو سکتی ہے جیسے ان کے رہنمائیوں کے سیاسی
بیانات سے ظاہر ہو رہا ہے ۔۔ پاکستان عوامی تحریک بھی ایک دینی جماعت ہے جو
ایک نیا اضافہ ہے اس دینی جماعت کے مسلک سے تعلق رکھنے والے گلگت بلتستان
میں سرے سے موجود ہی نہیں لیکن اس کے باوجود بھی اس پارٹی کے امیدوار گلگت
بلتستان کے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ۔تعجب والی بات اس زمانے میں تو ہو
ہی نہیں سکتی ۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انسانی ذہن کے ساتھ ساتھ
پیسہ بھی بولتا ہے۔۔دینی جماعتوں کے علاوہ پاکستانی سیاسی پارٹیوں میں
پاکستان پیپلز پارٹی جس نے اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کئے ہیں ان
انتخابات میں اسے بڑی مشکلات کا سامنا ہے اور ان کے پاس اب کوئی ایسا
پروگرام نہیں جن کو سامنے رکھ کر لوگوں سے ووٹ مانگ سکے ان کے انتخابی مہم
میں آج سے پینتالیس سال پہلے ذولفقار علی بھٹو کے کئے ہوئے کاموں کے اعادہ
کے سوا کچھ نہیں ۔ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کی پوزیشن وہ نہیں رہی ہے
جو پہلے تھی سوائے چند حلقوں کے جہاں امیدوار کے اپنے ذاتی ووٹ بنک ہیں اور
جنہوں نے اپنے حلقے میں کچھ ترقیاتی کام کئے ہیں ۔وہاں ان امیدواروں کی جیت
کے امکانات نظر آتے ہیں ۔ان انتخابات میں پاکستانی سیاسی پارٹیوں میں پی
ٹی آئی بھی ایک نیا اضافہ ہے اور اس نئے اضافے نے بھی انتخابی مہم میں ہل
چل سی پیدا کی ہے اور تھوڑے عرصے میں ہی اپنا اثر رسوخ قائم کیا ہے اور یہ
بھی ممکن ہے کہ ایک ادھ سیٹ پی ٹی آئی کے حصے میں بھی آئے لیکن اس کے
امکانات بہت کم نظر آتے ہیں بحر الحال مستقبل میں اس سیاسی پارٹی کے
ابھرنے کے امکانات بہت زیادہ روشن ہیں پاکستان عوامی تحریک اور ایم کیو ایم
اور آل پاکستان مسلم لیگ ایسی پارٹیاں ہیں جنہوں نے لاکھوں روپے خرچ کر کے
اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتارے ہیں صرف اس لئے کہ وہ پاکستانی حکومت کو
یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ان کا وجود بھی خطہ گلگت بلتستان میں موجود
ہے۔ان کا مستقبل گلگت بلتستان میں پنپنے والا نہیں ۔رہی بات قوم پرستوں کی
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قوم پرست مقامی قیادت اور مقامی لوگوں کے ہاتھ
میں خطے کا انتظام دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ان قوم پرستوں کا دوسرا رخ کچھ
دھندلا سا دکھائی دیتا ہے ۔تمام قوم پرست ایک پلیٹ فارم پر موجود نہیں سب
اپنی اپنی کشتی میں سوار ہیں اور سب ہی اپنے آپ کو ملاح سمجھتے ہیں اور
کسی کو اپنی کشتی میں سوار کرنے کے خیال میں نہیں ۔قوم پرست ہونا ایک اچھی
بات ہے اور ہر ایک کو قوم پرست ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ یہ قوم
پرست نظام کی خرابی اور نظام کی تبدیلی کے لئے کوشاں رہتے انہوں نے صرف
اخباری بیانات پر ہی اب تک اکتفا کیا ہوا ہے اور ان کی ڈکشنری میں مذہبی
سیاسی جماعتوں اور علما، شیخ اور ریاست کے خلاف بولنے ہی کو قوم پرستی سمجھ
رکھا ہے جس کے باعث ان قوم پرستوں کو گلگت بلتستان میں اتنی اہمیت نہیں
جتنی ہونی چاہئے تھی ۔اور اسی رویے کی وجہ سے وہ ہمیشہ حکومتی عتاب میں
رہتے ہیں اگر یہ قوم پرست اپنی جڑیں اس خطے میں پھیلانا چاہتے ہیں تو ان کو
ہوائی تیر نہیں بلکہ زمینی حقائق دیکھنے کی ضرورت ہے ۔اور جب تک یہ قوم
پرست اپنی کوئی سیاسی جماعت نہیں بناتے اس وقت تک ان کی کامیابی کا کچھ
نہیں کہا جا سکتا۔۔جہاں تک آزاد امیدواروں کا تعلق ہے ان میں سے بڑی
اکثریت صرف نام کی خاطر انتخابات میں کھڑے نظر آتے دکھائی دیتے ہیں ان کا
کام بس یہ ہے کہ تھوڑی بہت سودا بازی کر کے ایک پریس کانفرنس کا بندوبست کر
کے اپنے چند ووٹوں کے ساتھ کسی سیاسی پارٹی کی حمایت کرنا ہی ان کا پہلا
مقصد ہے اس لئے یہ امیدوار کسی بھی سیاسی پارٹی کے لئے کوئی خطرے کا باعث
نہیں سوائے چند امیدواروں کے۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق آزاد امیدواروں کی
اکثریت نے پاکستان مسلم لیگ نون کے حق میں اپنی دستبرداری کا اعلان کیا ہے
اور مزید آزاد امیدوار بھی پاکستان مسلم لیگ کے حق میں دستبرداری کا اعلان
کر سکتے ہیں ۔اسی طرح حلقہ نمبر ایک گلگت میں بھی کوئی اپ سیٹ ہونے کی توقع
کی جا سکتی ہے ۔ توقع یہ کی جارہی ہے کہ حلقہ نمبر ون گلگت خالص مذہبی شکل
اختیار کر جائے گا ، اور اس مذہبی بنانے میں دو بڑی سیاسی پارٹیاں بھی آگے
آگے ہیں ۔جہاں مسلم لیگ آزاد امیدواروں کو اپنے حق میں دستبردار کروانے
کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے وہاں پیپلز پارٹی بھی مذہبی کارڈ
کھیلنے میں پیچھے نہیں اور ایک سیاسی بیان کے مطابق پیپلز پارٹی ایم ڈبلیو
ایم اور ایک آزاد امیدوار کے اتحاد کی بھی باتیں ہو رہی ہیں ۔ان انتخابات
میں یہ بات تو عیاں ہو چکی ہے کہ مسلکی اور ذاتی نفرت ہی کی بدولت ہی حلقہ
ون اور حلقہ دو گلگت میں مسلم لیگ کو ہر صورت ہرانے کا پروگرام بن چکا ہے ۔
لیکن حکومتی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کو فائدہ اس لحاظ سے ہو رہا ہے کہ
موجودہ صورت حال میں اسلام آباد میں حکومت پاکستان مسلم لیگ نون کی ہے جس
کے اثرات گلگت بلتستان کے انتخابات میں پڑ رہے ہیں گلگت بلتستان میں اکثریت
اور ماضی کے انتخابات اور رحجانات سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ ۔ان انتخابات
میں پاکستان مسلم لیگ ایک بڑی سیاسی جماعت کے روپ میں سامنے آرہی ہے۔اس کی
وجہ پچھلے حکومتی اقدامات اور ممبروں کے نوازنے کے سلسلے میں لوگوں کے
ذہنوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ حکومت وقت کا ساتھ دینا ہی عقلمندی ہے
تاکہ فائدہ اٹھایا جا سکے اور ان انتخابات میں اسی فلسفے کے تحت مسلم لیگ
کے اقتدار حاصل کرنے کے زیادہ مواقع دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔ان عوامل کے ساتھ
ساتھ ٹیکنوکریٹس اور خواتین کی مخصوص نششتیں بھی اس انتخابی مہم کا حصہ ہیں
اور یہ یقینی بات ہے کہ جس پارٹی کی بھی اکثریت ہوگی وہی ان مخصوص نششتوں
اور آزاد امیدواروں کی جیت سے فائدہ بھی اٹھائیگی۔۔۔اب یہ کہنے کی ضرورت
باقی نہیں رہتی ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی میں نئی آنے والی حکومت کس کی
ہوگی ۔ |
|