سینگاپور کے آنجہانی بانی لی کو
آن یو کا کہناتھا کہ "امریکی بے قراری کے بارے میں سنجیدہ غور وفکر کے چار
سالوں کے دوران ایرانی انقلاب اور افغانستان میں روسی مداخلت نے امریکی
وقار کو مزید زک پہنچائی۔"مسٹر کارٹر کے پیشرو ، جیرالڈ فورڈ نے ۳ ؍ اپریل
۱۹۷۵ ے کو تقریر کرتے ہوئے جب یہ کہا تھا کہ انڈو چائنا میں ہونے والے
واقعات "افسوسناک رو ہیں ، لیکن نہ تو یہ دنیا کے خاتمے کی نشانی ہیں اور
نہ ہی دنیا میں امریکی خاتمے کی۔"اسی طرح سوویت یونین کے خلاف چین کے ساتھ
ایک فی الواقع اتحاد نے ایشیا میں امریکی برتری کو ناقابل تسخیر بنا
ڈالا۔بیشتر امریکی اسٹریجک مفکرین حال تک بھی اس نقطہ نظر کی طرف مائل رہے
کہ چین کو موجودہ ورلڈ آرڈر میں سمویا جا سکتا ہے ، ایک آسٹریلوی قلم کار
ہیو وائٹ کا کہنا ہے کہ چین اپنے نئے راہنما شی جن پنگ کے ماتحت قطعی مختلف
طریقے اختیار کرکے وہ کچھ حاصل کر رہا ہے ، جو ماؤزے تنگ کے زیر نگرانی
حاصل کرنے میں ناکام رہا ، یعنی دولت ، طاقت اور اپنے ہی خطے میں ایک زور
آور کردار۔ یہاں ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ چین امریکا کو شک کی نظر سے
دیکھتا ہے کہ ایسے کمزور کرنے کی سازش کی جا رہی ہے جبکہ چین یہ بھی کہتا
ہے کہ وہ معاہدے ، جن کے تحت امریکا ایشیا کے ساتھ بندھا ہوا ہے ، سرد جنگ
کے زمانے کی یادگار ہیں اور اب نہیں تحلیل ہو جانا چاہیے۔بین الاقوامی
مالیاتی فنڈ اور عالمی بنک کے حالیہ اجلاسوں میں یہ بات آشکارہ ہوچکی ہے کہ
امریکہ کی معاشی طاقت کمزور سے کمزور ترین ہو رہی ہے۔" دی ویکلی اسٹینڈرڈ"
نامی ایک اہم جریدہ لکھتا ہے کہ اکتوبر2001ء کے حملے ناکافی امریکی مداخلت
و جذبے کا نتیجہ ہے ، حل یہ ہے کہ اپنے مقاصد کیلئے زیادہ خرچ کیا جائے اور
ان کے نفاذ کے خاطر دباؤ بڑھایا جائے۔"ایک دلچسپ تبصرہ بریٹ اسٹیفنز کا ہے
جو انھوں نے اپنی کتاب America in Tetreat: The New Isllationism and the
coming world Disorder " میں لکھے اس میں نکات دو اہم ہیں ایک نکتے میں ،
ایسی تنہائی ہے جس کے بارے میں بات ہونی چاہیے اور دوم ، انتشار ایک فطری
مسئلہ۔ بریٹ اسٹیفنز کہتے ہیں کہـ اوباہا خود ایک مسئلہ ہیں ، جب وہ اقتدار
میں اس عزم کے ساتھ آئے تھے کہ ملکی سطح پر قوم سازی کی خاطر امریکا کی
عالمی ذمہ داریوں میں کمی کریں گے "۔ امریکی کی عسکری مہمات کو اگر سمجھنا
ہو تو صدر وارن ہارڈنگ کے1921ء میں جمعیت اقوام میں کہے جانے والے الفاظ
یاد کرنا ہونگے کہ ـ ’ مخالف موقف اور جنگ کے بعد عسکری ڈھانچے کو کمزور
کرکے امریکا کو تنہائی پسندی کے راستے پر گامزن کیا ، نتائج کا درست اندازہ
لگائے بغیر بھاری اخراجات کرنا جنگ کا ناگزیر ثمر ہے ‘۔ یہی وجہ ہے کہ
امریکہ نے معاشی پالیسیوں کو لاگو کرنے کیلئے ایک ایسے عالمی نیو ورلڈ آرڈر
کی بنیاد رکھ ڈالی جس نے دنیا میں جنگوں ، اور مخالف حکومتوں کی اکھاڑ
پچھاڑ کا ایک نا رکنے والا سلسلہ شروع کردیا۔عراق میں جمہوری کمیابی کو تین
افراد کی دوری پر سمجھا جاتا تھا ، بد قسمتی سے وہ تین افراد جارج واشنگٹن
، جیمز میڈیسن اور مارشل ہیں ۔"
جب امریکہ 2011ء میں ایک اور تنازعہ میں جا پڑا تو کرسٹو فرلین کو کہنا پڑا
کہ " تین جنگیں بہت ہیں ، حتی کہ امریکا کیلئے بھی " ۔ امریکی بالادستی کا
عروج اب خاتمے کی جانب دیکھائی دیتا ہے اور بین الاقوامی سیاست تبدیلی کے
دور میں داخل ہو رہی ہے ، جو یک قطبی نہیں ہوگی مگر پوری طرح کیثر قبطی بھی
نہیں ہوگی۔امریکا بتدریج پسپائی کی جانب رواں ہے اور اس کی بنیادی وجہ اس
کی اپنی پالیسیاں ہیں۔ قطر میں جب طالبان افغانستان کے ساتھ پاکستانی ،
ایرانی ، برطانوی ، فرانسیسی اور دیگرممالک کے نمائندوں نے شرکت کی تو ان
کی جانب سے واضح مطالبات سامنے تھے کہ سب سے پہلے بیرونی قوتیں بشمول
امریکا فوری طور پر افغانستان سے نکل جائیں ، افغانستان میں اسلامی حکومت
قائم کی جائے اور اور تحریک کے ذمہ دار افراد پر سفری پابندیاں ختم کی جائے
، حالاں کہ طالبان کے نمائندوں نے اس سے پہلے جاپان اور فرانس میں بھی اس
طرح کی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔حزب اسلامی بھی دو نکات پر زور دیتی ہے کہ
امریکا سمیت تمام بیرونی قوتیں نکل جائیں اور افغان قوم کی مرضی سے ایک خود
مختار اور اسلامی حکومت قائم کی جائے۔ امریکا نے سرد جنگ میں افغانستان کو
استعمال کیا ، لاکھوں انسانوں کی ہلاکتوں کا سبب بنا ، پھر اس کے بعد نائن
الیون میں افغانستان پر جارحیت کی اس نے امریکا کیلئے پوری دنیا میں خطرات
کے دائرے کو مزید پھیلا دیا۔ افغانستان میں امریکی مداخلت جتنی بڑھتی گئی ،
عالمی خطے میں طاقت کا توازن بگڑتا چلا گیا ۔ پاکستان ہر جنگ میں متاثر ہوا
کیونکہ اس نے اپنی خارجہ پالیسیوں میں پاکستانی عوام کے مفاد کو مد نظر
رکھنے کے بجائے امریکی مفادات کو ترجیح دی اور اس خٰمازہ اس کو بھگتنا پڑ
رہا ہے۔ چین کے ساتھ بڑھتے روابط سے امریکا ناخوش ہے کیونکہ پاکستانی ارباب
اختیار نے ہمیشہ امریکی خوشنودی حاصل کرنے اور ان کی رضا مندی سے مسند
اقتدار پر فائز ہونے کی کوشش کی ، نتیجہ کے طور پر پاکستان کو امریکا کی ہر
وہ بات ماننا پڑی جو اس کے ملکی مفاد میں نہیں تھی ، لیکن امریکا نے جب
ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر اور بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانا
شروع کردیں تو پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہوتا چلا گیا اور ایسے اپنے
لئے ایک ایسے مضبوط بلاک کی ضرورت محسوس ہونے لگی جس میں ملکی دفاع کیلئے
امریکا پر انحصار کم ہوجائے۔چین عسکری طاقت کے توازن میں بھاری ہوتا جارہا
ہے لیکن چین کی دوستی میں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ چین اپنی قوت
کو مضبوط بنانے کیساتھ ساتھ بھارت ، ایران ، افغانستان اور عرب ممالک کے
ساتھ گہرے معاشی مراسم کو فروغ دے رہا ہے۔ اس صورت میں پاکستان کو اپنی
شمالی و مغربی سرحدوں کی حفاظت کیلئے افغانستان سے دوستانہ تعلقات کو مضبوط
بنانے کیلئے کچھ قربانیاں ضرور دینا ہونگی اور اس کیلئے اپنی مخصوص
پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ قومیں ترقی کرتی ہیں ،
آفات آتی ہیں تو پھر ملکر راہ پر گامزن ہو جاتی ہیں لیکن بد قسمتی سے
پاکستان میں پاکستانیت کاتصور نہیں ہے ، یہاں مختلف الزبان قومیتیں آباد
ہیں جو لسانی ، نسلی اور گروہی بنیادوں پر سیاست کو فروغ دے رہی ہیں۔ روس ،
ایران اور چین دنیا کی تین ایسی طاقتیں بن رہی ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے
بعد مغرب کی سربراہی میں قائم " اسٹیٹس کو"Status Quoکو مختلف انداز میں
چیلنج کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں ، روس ، سابق سوویت یونین کے ٹکڑوں کو جس
حد تک جوڑ سکتا ہے ، جوڑنا چاہتا ہے ، ایران مشرق وسطی میں سُنی عرب
ریاستوں کے غلبے اور سعودی عرب میں قائم نظام کی موجودہ ترتیب کو بدلنا
چاہتا ہے ، برڈ کالج کے والٹر رسل میڈ کا ماننا ہے کہ تینوں ممالک ( روس ،
چین اور یران) کے راہنما اس بات پر متفق ہیں کہ امریکی طاقت ان کے نو مرتب
شدہ عزائم (Revisionist Goals) کی راہ میں مرکزی رکاؤٹ ہے۔ان تمام حالات کے
تناظر میں افغانستان اور پاکستان دو ایسے ممالک ہیں جنھیں یہ قوتیں اپنے
مفاد کیلئے دوبارہ یا مسلسل کسی نہ کسی صورت استعمال کرسکتی ہیں ، اس لئے
افغانستان اور پاکستان کا دشمن ایک ہی ہے اور دونوں ممالک کے ارباب اختیار
کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس عالمی اقتدار کی جنگ میں ان کا اپنا کردار کیا
ہوگا۔ اگر افغانستان پاکستان سے اپنے تعلقات ومراسم کو مضبوط بنانا چاہتا
ہے تو اپنے تمام تنازعات کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرنا ہوگا ۔
بھارت، پاکستان کا ازلی دشمن اس لئے ہے کیونکہ پاکستان ایک ایسی ایٹمی قوت
ہے جو اسلام کے نام پر کچھ بھی کرسکتی ہے ، جبکہ افغانستان تاریخی طور پر
فاتح جنگجو قوم ہے لیکن اسلام کے نام پر کسی بھی قوت کو زیر کرنے میں اسکا
کوئی ثانی نہیں ہے ، پاکستان اور افغانستان کا اتحاد ایک ایسی قوت اور
مثالی بن سکتا ہے کہ ان کی جانب آئیندہ کوئی میلی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش
نہ کرے ، کسی بھی ملک کا آلہ کار بننے کے بجائے کنگ میکر بننے کی قدرتی
صلاحیت موجود ہے ، بھارت مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ کراپنی دہشت
گردی کو آئین کا حصہ بنا رہا ہے ۔ افغانستان میں یہ قوت موجود ہے کہ وہ
ماضی کی طرح دوبارہ بھارت کو اپنی اوقات یاد دلا دے ، پاکستان نے بھی اپنے
جدید ہتھیاروں کے نام افغان بادشاہوں کے نام پر ہی تو رکھے ہیں تو پھر ماضی
کے رشتوں کو مضبوط کیوں نہ بنایا جائے |