’یوم تکبیر‘28 مئی

28مئی 1998 میں اسلامی جمہوریہ پاکستان عالم اسلام کی اولین اور دُنیا کی ساتویں نیوکلیئرپاور ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ پاکستان کا یہ عمل علاقے میں امن کے لیے طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ بھارت نے ایٹمی دھماکہ کرکے خطہ میں توازن بگاڑ پیدا کردیا تھا۔مغربی دنیا اس عمل پر خوش نہیں تھی ، خوش ہوتی بھی کیسے ،پاکستان ایک اسلامی ملک تھااور اسلامی دنیا میں نیوکلیئر پاور ہونے والا پہلا ملک ہونے جارہا تھا۔ امریکہ نے تو پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگا کر پاکستان سے محبت یا نفرت کا عملی مظاہرہ کردیا تھا، ان اقتصادی پابندیوں کو پاکستان نے برداشت کیا، دیگر ممالک بھی امریکہ کی طرح پاکستان کے اس عمل پر خوش نہ تھے، بعض مغربی ممالک جو پاکستان کے دوست تصور کیے جاتے ہیں انہوں نے بھی پاکستان کو ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا، پاکستان نے ان کا مشورہ خوش دلی سے سن لیا لیکن قبول نہیں کیا ، انہوں نے اس کا برا نہیں منایا، کسی قسم کی پابندیوں کی بات نہیں کی۔ جہاں اس عمل کی مخالفت پائی جاتی تھی دوسری جانب بعض ممالک جن مغربی اور اسلامی ممالک شامل تھے پاکستان کے اس عمل کے حق میں تھے۔ بعض نے اعلانیہ اور بعض نے خاموشی سے پاکستان کی حمایت کی۔ سعودی عرب نے بہت عرصے پاکستان کو مفت تیل فراہم کرکے ثابت کیا کہ وہ پاکستان کے اس عمل کو جائز ور درست سمجھتا ہے اور اس کا حقیقی دوست ہے۔

دنیا کے سامنے ہیرو شیما اور ناگا ساکی ایٹمی تباکاریاں تھیں انہیں کے پیش نظر بعض ممالک چاہتے تھے کہ کہیں دنیا میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی تاریخ دھرائی نہ جائے۔ پاکستان سے بھارت کی عناد اور دشمنی سب کے سامنے تھی، دونوں ممالک ایک سے زیادہ بار روایتی جنگ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آچکے تھے۔ ایٹمی جنگ یقینا زیادہ تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جب بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا تھا تب بہت سے مغربی ممالک نے خاموشی اختیار کیے رکھی، اس کی مذمت تک نہیں کی۔ کیا بھارت کا ایٹمی دھماکہ امریکہ کی مرضی کے بغیر ہوسکتا تھا؟ ہر گز نہیں، امریکہ کی آشیر باد بھارت کو اندرونِ خانہ حاصل رہی تھی۔ اس کے جواب میں پاکستان نے جب یہی عمل کیا تو امریکہ اپنے کیے ہوئے ہیروشیما اور ناگا سا کے ظلم اور تباہی و بربادی یاد آگئی ۔ پاکستان تو دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بننے جارہا تھا، اس سے قبل چھ ممالک نیوکلیئر پاور کی حیثیت سے یہی طاقت رکھتے تھے۔جہاں چھ تھے وہاں سات ہوگئے تو کون سی قیامت آگئی اب اگر آٹھ یا نو ہوجائیں گے تو کیا دنیا کو ختم کردیں گے۔ جب امریکہ نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی بم گرا کر انسانیت سوز کردار اداکیا ، اگر اس وقت جاپان بھی ایٹمی قوت ہوتا تو امریکہ کو سو بار سوچنا پڑتا کے وہ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی بم برسا کر انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہلاک کردینا کیا ہوتا ہے۔ امریکہ جس قدر طاقت ور اور بڑی طاقت ہے اپنے لوگو ں کے معاملے میں بہت ہی بزدل اور کمزور بھی ہے۔ اس کا ایک باشندہ کوئی پکڑ لے پھر دیکھیں اس کی کیفیت۔ باولے کتے کی طرح متعلقہ فریق کو جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ ریمن ڈیوس کی رہائی ہمارے آپ کے سامنے ہے۔ کس طرح اس نے چند دنوں میں ایک قاتل کو آزاد کرایا۔ بات کہی سے کہی چلی گئی۔ اصل موضوع یوم تکبیر ہے۔ جو ہر سال بڑی شان و شوکت سے منا یا جاتا ہے اور منانا بھی چاہیے۔ اس لیے کہ اس دن ہم دنیا کے ان ممالک کی صف میں شامل ہوئے جو اپنے آپ کو ترقی تافتہ اور ایٹمی قوت کہتی ہے۔ یہ دوسرے بات ہے کہ ہماری اقتصادی اور دیگر حالات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے لیکن اپنے ازلی دشمن کی دشمنی کو دیکھتے ہوئے یہ بھی ضروری تھا۔ ہم زندہ رہیں و قائم رہیں گے تو اپنے اقتصادی اور دیگر معاملات کو بھی صحیح رخ دے سکیں گے۔

جس دن پاکستان نے نیوکلیئر دھماکہ کیا اس دن کو ’یوم تکبیر ‘کے طور پر ہر سال منایا جاتا ہے۔ قابل مبارک ہے ہماری سیاسی قوت جو اس وقت برسرِ اقتدار تھی کہ اس نے تمام تر عالمی قوتوں کی مخالفت اور امریکہ جیسی ایٹمی قوت کے آگے سرِ خم تسلیم نہیں کیااور 28مئی 1998کو ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کے عوام کو دشمنوں کے سامنے برابری کی حیثیت میں لاکھڑا کیا۔ میاں نواز شریف اس وقت وزیراعظم پاکستان تھے اس لیے یہ اعزاز ہر اعتبار سے انہیں جاتا ہے کہ انہوں نے اس وقت ملک اور قوم کے مفاد کو ہر چیز پر فوقیت دی، یہ اقدام دلیری اور بہادری کے بغیر ممکن نہیں تھا، اپنوں سے ناراضگی، دوست ممالک کی اس درخواست کو رد کردینا کہ ہم ایسا ہر صورت میں کریں گے، آپ کے مشورے کا بہت بہت شکریہ۔ ایٹمی قوت کا خوف، امریکہ کی ناراضگی، اس کی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کیسے کیا جائے گا، الغرض انہوں نے تمام تر خطرات کو بالائے طاق رکھ کر ایٹمی دھماکہ کرنے کو ترجیح دی، اور ایسا ہوگیا، اقتصادی پابندیاں بھی پاکستان اور پاکستان کے عوام کا کچھ نہ بگاڑ سکیں، بھارت بھی پاکستان کا کچھ نہ کرسکا، بلکہ اب وہ جو کچھ کرے گا سو بار سوچے گا۔ اس لیے کہ اب ہم اسے اسی کی زبان میں جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔جو وہ کرے گا وہ ہم کریں گے۔ اس نے گولی چلائی تو جواب میں گولی ہی ملے گی، ایٹم بم گرایا تو جواب میں ہار اور پھول نچھاور نہیں کیے جائیں گے۔

ایٹمی دھماکے ایک دم نہیں ہوئے،ادھر بھارت نے یہ عمل کیاتو ہم نے بھی بٹن دبایا اور دھماکے ہوگئے۔ اس کے لیے برس ہا برس کی تحقیق، عملی جدوجہد، مصمم اردہ اور نیک دلی شامل تھی ۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے بہت پہلے سوچ لیا تھا کہ پاکستان کا ایٹمی قوت بننا بہت ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہواتو بھارت جس نے پاکستان کو پہلے ہی دن سے تسلیم نہیں کیا، اپنی ایٹمی قوت کا خوف دلاتا رہے گااورہمیں بلیک میل کرتا رہے گا۔ ایٹمی طاقت کی جدوجہد کا آغاز پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1976میں ہواتھا، یعنی ایٹمی قوت بننے کے تانے بانے ذوالفقار علی بھٹو مرحوام کے دور میں بنے گئے۔ پاکستان کو عبدا لقدیر خان، مبارک ثمن اور دیگر سائنس دانوں کی ایک ٹیم ایسی میسر آئی کے جو اس بات پر یقین رکھتی تھی کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بننا ضروری ہے۔ اس لیے کہ کسی بھی کام کو انجام دینے کے لیے ارادے کا ہونا بنیادی شرط ہوتی ہے۔ چنانچہ پاکستان کی سیاسی وعسکری قوت اور سائنس دانوں نے پختہ عزم کر لیا کہ پاکستان کو ایٹمی طاقتوں کے طور پر دنیا کے سامنے لا کھڑاکرنا ہے۔ یہ عمل ظاہری نہیں تھا، بلکہ ایسے کام خاموشی سے اور اندرون خانہ کیے جاتے ہیں، آفرین ہے ذوالفقار علی بھٹو پر کہ جنہوں نے اس مقصد کی بنیاد ڈالی اور ان قوتوں کی اخلاقی، معاشی، مالی مدد اور حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے۔عبدالقدیر خان کا کہنا ہے کہ’ اﷲ ذوالفقار علی بھٹو کو جنت نصیب کرے ، میں اچھی خاصی نوکری کررہاتھا اور مجھ پر غیر ممالک میں اعتبار کیا جاتا تھا ،میں چھٹی پر آیا تو مجھے جانے نہ دیا اور یہ کام سونپ دیا ، اپنے کام میں مہارت رکھتا تھا، ہم سب نے مل کر وہ کارنامہ انجام دیا جس نے مغربی ممالک کو حیران کردیا اور دشمن کے دانت کھٹے کردیئے‘۔ در حقیت ایسا صرف اور صرف اس وجہ سے ہی ممکن ہوا کہ اس عمل کے ابتدئی مرحلے میں کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی گئی اگر ایسا نہ ہوتا تو 22سال بعد ہمارے سائنس دان ہر گز اس پوزیشن میں نہ ہوتے کہ نیوکلیئر طاقت بننے کے خواب کوعملی جامہ پہناسکتے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ملک میں فوجی قوت نے اقتدار سنبھلاجسے عرف عام میں آمریت کا دور کہا جاتا ہے۔ یقینا آمریت کسی بھی ملک کے لیے اچھی چیز نہیں، آمر کی حیثیت سے حکمرانی کی مثالیں بہت پائی جاتی ہیں ۔ جنہیں اچھا تصور نہیں کیا جاتا کہتے ہیں کہ بری جمہوریت اچھی آمریت سے بہتر ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کا آمرانہ دور سیاسی اعتبار سے بہتر تصور نہ کیا جائے لیکن اس اعتبار سے اس آمر کو یہ کریڈٹ دیا جائے گا کہ اس نے پاکستان کو نیوکلیئر طاقت بننے کے عمل میں رکاوٹ نہیں ڈالی اور اس عمل کو اُسی طرح جاری و ساری رکھا، بعض کا تو کہنا ہے کہ ضیاء الحق نے اس عمل میں تیزی لانے میں اہم کردار ادا کیا۔اس دور میں کولڈ ٹیسٹ کیا گیا۔افغان جہاد بھی اسی دور میں شروع ہوا۔ اس ماحول نے پاکستان کو اور زیادہ مجبور کیا کہ وہ ایٹمی طاقت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرے۔ اس دور میں پاکستان کے ایٹمی سائنس دانوں نے دن رات محنت کی اور اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے خاموشی کے ساتھ لگے رہے۔ سائنس دانوں کی حوصلہ افزائی کاعمل حکمرانوں کی جانب سے جاری رہا ۔ اس طرح پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا سفر جاری و ساری رہا۔ عبدالقدیر خان کا کہنا ہے کہ 1984میں ضیاء الحق کو کہہ دیا تھا کہ ہم ایک ہفتہ کے اندر اندر ایٹمی دھماکہ کرسکتے ہیں۔مگرکوئی بھی یقین نہیں کررہا تھا۔

ایٹمی طاقت کی جدوجہد کو 22سال پورے ہوچکے تھے ۔ بھارت نے اچانک ایٹمی دھماکہ کردیا۔ یہ دھماکہ تو اچانک ہوا لیکن بھارت بھی اس کی تیاری یقینا کئی برس سے کررہا تھا۔ کسی کو یہ معلوم ہی نہ ہوسکا کہ بھارت ایسا کردے گا۔ جب اس نے دھماکہ کردیا تو دنیا کو علم ہوا، لیکن اندرونِ خانہ بھارت کے دوست ممالک کو اس بات کا علم ہوگا کہ بھارت ایٹمی دھماکہ کرنے جارہا ہے۔ اب پاکستان کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا کہ اپنے دشمن کو اسی زبان میں جواب دے۔ ادھر سائنس دان اپنا مقصد پورا کرچکے تھے اور بے تابی سے اس وقت کا انتظار کررہے تھے۔ میاں نواز شریف پھر سے ملک کے وزیراعظم تھے۔ گویا یہ سعادت میاں صاحب کے نصیب میں تھی کہ اس کا کریڈٹ انہیں ملے۔یہ نصیب اور سعادت کی بات ہے۔ وہ چاہتے تو سیاسی طور پر اس عمل کو روک بھی سکتے تھے لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں یہ عمل کرانا تھا چنانچہ ان کے دل میں یہ عزم اور حوصلہ ڈال دیا کہ انہوں نے بھارت کے ایٹمی طاقت کا جواب ایٹمی طاقت بن کر ہی دینا ہے۔ انہوں نے بھی یہی ارادہ کیا اور اﷲ نے ان کی مددو رہنمائی کی 28مئی1998کی صبح نے پاکستان کو نیوکلیئر طاقت کے طور پر دنیا کے نقشہ پر نمودار کیا۔ تمام ترسازشیں دم توڑ گئیں، اقتصادی پابندیاں اپنی موت آپ مرگئیں، ساری کی ساری دہمکیاں ، گید ڑ بھپکیا دھری کی دھری رہ گئیں جب بلوچستان کے مقام پر وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف اور ان کے ایک جانب عالمی شہرت کے مالک سائنس دان عبد القدیر خان تھے دوسری جانب دوسرے سائنس دان ثمر مبارک تھے ، اعلیٰ سیاسی و عکسری قیادت کی موجودگی میں میاں صاحب نے اپنی شہادت کی انگلی سے بٹن دبایا اور پاکستان کا اسلامی ایٹم بم بھارت کے کلیجے پر دھم سے جاکر لگا جس سے اس کی نیندیں حرام ہوگئیں، بوکھلاہٹ، حسد و جلن، غم وغصہ میں نہ معلوم کیا کیا بکتا رہا بالا ٓخر بھونک بھونک کر خاموش ہورہا۔اس کی مثال اس وقت ایسی تھی ؂
بک رہا ہوں جنوں میں نہ جانے کیا کیا
کوئی نہ سمجھے خدا کرے کوئی

28مئی1998 سے ہر سال یومِ تکبیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔یہ ہمارے ملک کے لیے قوم کے لیے ایک یاد گار دن ہے ۔ یہ ایک ایسا دن ہے جس دن پاکستان کواسلامی ممالک میں پہلی ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، دنیا کے ممالک میں ساتویں ایٹمی قوت ہونے کا مقام ملا۔ بھارت سے برابری کی حیثیت حاصل ہوئی۔ اب بھارت پاکستان کو اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا ڈر و خوف نہیں دے پائے گا۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ بھارت اب بھی اپنے مذموم مقاصدپاکستان دشمنی سے بعض نہیں آیا، وہ طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرکے پاکستان کے لیے مشکلات اور مصا ئب پیدا کرتا رہتا ہے۔ کیونکہ پاکستان دشمنی اس کی شرشت میں ہے، اس کے خون میں ہے، اس کی بنیادوں میں ہے کہ پاکستان اس کو کھٹکتا ہے۔ وہ اِسے پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتا۔ اس لیے ہمیں اس سے ہر دم ہوشیار اور چوکنا رہنا ہوگا۔پتھر کا جواب اینٹ سے دینا ہوگا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ وہ ہمارا پڑوسی ملک ہے۔ اس کی سرزمین پر ہمارے بے شمار مسلمان بھائی آباد ہیں، پاکستان کی آبادی کے ایک بڑے طبقے نے بھارت کے مختلف شہروں سے پاکستان ہجرت کی اور وہ پاکستان میں آباد ہوئے۔ بہتر یہ ہے کہ دونوں ممالک اپنے مسائل کو افہام و تفہیم سے حل کر لیں۔اپنے اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں، کشمیر اصل میں دونوں کے درمیان بنیادی تنازعہ ہے ۔ اسے اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں اور کشمیری عوام کی اپنی مرضی سے حل ہوجانا چاہیے۔ دنیا میں کسی کو بھی جبر و ظلم کے ذریعہ ، دھونس اور دھاندلی کے ذریعہ اپنے زیر اثر نہیں رکھا جاسکتا۔ کشمیریوں کو ان کا حق آزادی ایک نہ ایک دن ضرور ملے گا۔ بھارت کو حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیریوں پر زیادتی بند کردینی چاہیے۔ اقوام متحدہ کی قرار داد بہت واضح ہے اس کی روشنی میں انہیں ان کا حقِ دے دینا چاہیے۔پاکستان کے عوام ہر سال یوم تکبیر منا کر بھارت کو اور دنیا کو یہ باور کراتے رہیں گے کہ ہم ایک پر امن قوم اورپر امن ملک کے باسی ہیں، جیو اور جینے دو ہمارا مشن ہے۔ ایٹمی طاقت ہونا ہماری مجبوری تھی، اوروقت کی ضرورت بھی لیکن یہ ایٹمی صلاحیت پر امن مقاصد کے لیے استعمال ہوگی،انشا ء اﷲ۔ (28مئی2015، مصنف سے رابطے کے لیے ای میل:(E-mail: [email protected])
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437325 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More