ضلع جھنگ پرانے اضلاع میں سے ایک
ایسا بعد قسمت ضلع جس کا کوئی وارث نہ بن سکا۔اگر اس ضلع کے وارث ہوتے تو
اس کے ایسے ٹکڑئے نہ ہوتے۔اس ضلع جھنگ کی حدشخوپورہ تک ہوتی تھی۔مگر بے رحم
وقت نے ایسی کروٹ لی کہ آج چار تحصیلوں تک محدود ہو کر رہے گیا ہے۔آج جو
ڈویژن فیصل آبادہے وہ کبھی اس ضلع جھنگ کی تحصیل ہوا کرتا تھا۔یہ ایسا ضلع
ہے کہ یہاں کوئی افسر آنے کو تیار ہی نہیں ہوتا ۔اور اگر آئے جائے تو وہ
یہاں سے جانے کا نام ہی نہیں لیتا۔اس ضلع جھنگ میں ایسے افسران اور ڈاکٹر ز
ماجود ہے۔ جب ان کی نوکری لگی تھی ۔تو اس سیٹ پر آئے تھے۔اور آج تک انہی
سیٹوں پر جمے بیٹھے ہے۔ان کے بارے میں اگلے کالم میں لکھوں گا۔خیر میں آپ
کی توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف دلوانا چاہوں گا۔میں نے اپنے پچھلے کالم میں
ذکر کیا تھا۔کہ ٹی ایم اے جھنگ کے سیوریج کے لیول ایک پرائیویٹ شخص کر رہا
ہے۔جو سننے میں آیا ہے ۔وہ سب اسی ایک شخص سے لیول کرواتے ہے۔یہاں بات بھی
قابلے ذکر ہے۔ٹی ایم اے جھنگ میں تقریبا آٹھ سب انجینیر ہے۔اور افسران بھی
ماجود ہے ۔تو پھر اس پرائیویٹ آدمی میں کیا خاصوصیت ہے۔کہ اس پرائیوئیٹ شخص
کے لیول پر ہی سب اعتماد کرتے ہے۔ میں تو یہاں یہی کہا سکتا ہوں ۔یا تو ان
افسران کو لیول کرنا نہیں آتا ۔یا پھر یہ کام کرنے سے کتراتے ہے۔لیکن آج تک
ان سے افسران نے ان سے کیوں نہیں پوچھا کہ تم اس پرائیوئیٹ شخص سے لیول
کیوں کرواتے ہو۔اس شخص کا لیول ان ٹھیکیداروں اور افسران کے لیے حرف آخر کس
لیے بن چکا ہے۔جتنے بھی کام ہو گئے لیول اسی شخص کا ہی ہو گا۔کیا خوش قسمتی
ہے ہماری جو کام گورنمنٹ ملازموں کو کرنا چاہیے وہ پرائیوئیٹ شخص کر کے دے
رہا ہے سب کو لیکن افسران خاموش کس لیے۔۔۔۔۔۔۔۔اور اگر ٹی ایم اے جھنگ کی
ناجائز تجاوزات کی برانچ کو ہی دیکھ لو۔تو وہاں آج کل ایک نیا ڈرام چل رہا
ہے۔بازاروں میں جو دوکانداروں کو تو پکڑنا گنا سمجھتے ہے۔ جبکہ غریب ہاتھ
ریڑھی والوں کو پکڑ کر ٹی ایم اے میں لے آتے ۔ہاں تقریبا پانچ سات دن قبل
انہوں نے ناجائز تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کیا تو اس آپریشن میں ان غریب
فروٹ کی ریڑھیاں لگانے والوں کی ریڑھیاں پکڑ کر ٹی ایم اے لے آئے جو دوسرے
دن ان کو دوپہر ٹائم واپس کر دی گئی۔ان لوگوں کو تو یہ نہیں پوچھتے جن
لوگوں نے سرکاری گلیوں کو اکھاڑ کر اونچا کر لیا ہوا ہے۔جھنگ سٹی میلاد چوک
تا سٹی ہسپتال تک ناجائزتجاوزات کی بھر مارہے جس کے بار لاتعداد دفعہ جاکر
کہا۔مگر ان کا ایک ہی الفاظ ہوتا ہے کہ کل کر لیے گئے ۔کل اتوار آگیا ہے
سوموار کو کر لیے گئے۔ناجائز تجاوزات کی زندہ مثال فوار چوک میں ایک فروٹ
فروش نے عرصہ دراز سے ڈیرہ ڈالا ہوا ہے اس کے خلاف انہوں نے کیا کاروائی کی
۔فٹ پاتھوں پر دوکانداروں نے قبضے کیے ہوئے ہے دوکانوں کے آگے پھٹے لگوا
رکھے ہے ۔جن سے دوکاندار حضرات مہنے کے ہزاروں روپے وصول کرتے ہے۔ریل
بازار۔شہید روڈ۔فوار چوک۔پکہ کوٹ روڈ۔ایوب چوک ۔کھتیانوالہ
بازار۔لوہارانوالہ بازاروغیرہ اور اس کے علاوہ جھنگ سٹی کے نور شاہ
بازار۔ریل بازار۔باب عمر گیٹ۔شیریں چوک وغیرہ جس طرف بھی دیکھوں آپ کو
ناجائزتجاوزات ہی نظر آئے گئی۔ان کو صرف چند ایک غریب ریڑھی والے نظر آتے
ہے۔کیوں نہیں دوسرے دوکانداروں کے خلاف جا کر تمام کے تمام بازاروں میں ان
لوگوں کا کیایہی کام ہے کہ آفس سے نکلے اور جا کر غریب ریڑھی والوں کو
پکڑاور چھوڑ دیا۔مزے کی بات ہے کہ رہڑھیاں بھی وہ پکڑ کر لاتے ہے ۔جن پر
فروٹ زیادہ اور اچھا ہو۔بازاروں میں پیدل گزرنا مشکل ہے ۔میلاد چوک میں
ناجائز تجاوزات کی بھر مار ہے۔اس کے آس پاس لڑکیوں اور لڑکوں کے چار پانچ
سکول ہے۔جس کی وجہ سے ان کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔مگر ٹی ایم اے کے
افسران ناجانے کسی مصلحت کے تحت خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے میں مصروف
عمل ہے۔ہاں میں بات کر رہا تھا ۔ ترقیاتی سکیموں کی جن میں سیوریج
۔سلیپ۔نالیوغیروہ ہوتی ہے۔وزیر اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف وحکام بالا
سے جھنگ کی غریب عوام کا یہی مطالبہ ہے کہ وزیر اعلی پنجاب نیک اور
ایماندار لوگوں کی ٹیم بنا کر ٹی ایم اے جھنگ بھیجے ۔جو پچھلی سکیموں کے
اخبار اشتہار ہوئے تھے ۔جو کام ہو چکا ہے ،یا جو ہورہے ہے ۔خصوصی طور پر
سیوریج کا لیول اور تما م سکیموں کو ایک ایک کر کے چیک کرئے،اور پہلے بات
سنتے تھے کہ جس کو کوئی کام نہیں آتا تھا ۔وہ ڈرائیور بن جاتا تھا ۔اب جس
کے پاس پیسہ شفارش ہے وہ ٹی ایم اے جھنگ کا ٹھیکیدار بن جاتا ہے۔ٹی ایم اے
جھنگ کا ٹھیکیدار بنانا مشکل کام نہیں کسی نے کوئی انڑویو تو لینا نہیں ۔جو
ٹھیکیدار کی فائل جمع کرتے ہے ۔کبھی کسی افسرنے کسی ٹھیکیدار کا انٹرویوبھی
لیا ہے کہ کا م کیسے ہوتا ہے۔تمام ٹھیکیداروں کے ٹیسٹ ہونا چاہئے جو ٹیسٹ
میں پاس ہو اس کو ٹھیکیداری کا لائیسنس دیا جائے۔اور جن لوگو ں نے کام ٹھیک
نہیں کیے ان کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔اور اس ٹھیکیدار کا
لائیسنس بھی کینسل کیا جائے ۔جنہوں نے کام درست نہ کیا ہو۔ایسے ٹھیکیداروں
اورسب انجینیر کے خلاف بھی کاروائی عمل میں لائی جائے۔اور ایسی سزا دی جائے
کہ کوئی اور غلط کام کرنے کی بھی نہ سوچے۔ |