اب تو کچھ اور بھی اندھیرا ہے

وہ شخص ایک تحریک تھا اسے شہرت سے دور تک کا واسطہ نہ تھا۔وہ گفتار کا نہیں کردار کا قائل تھا۔وہ بالعموم امت مسلمہ اور بالخصوص کشمیری قوم کا سرمایہ افتخار تھا۔غیرت اس کے سینے میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ 10فروری1964 کو وادی سماہنی کے علاقے تونین تھاتھی میں پیدا ہوا۔ حصولِ تعلیم کے دوران ہی قومی غیرت اور اسلامی حمیت اس کے دل میں گھر کر گئی تھی۔یہ وہ دور تھا جب سرخ ریچھ(روس) اپنے خونی پنجوں تلے مشرقی ممالک کو روندتا ہوا گرم پانیوں پر قبضہ کر پوری دنیا پر قابض ہونا چاہتاتھا،افغانستان میں نبرد آزما تھا۔غیرت مند افغانی قوم نے روس کے سامنے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا اور جہاد کا آغاز کیا۔پوری اسلامی دنیا کے نہتے مجاہدین نے روس کو عبرت ناک شکست دی۔ ”اس“ کی ذہنی اور فکری تربیت اسی دور میں مکمل ہوئی۔

تحریک آزاد کشمیر میں اس کا فعال کردار رہا۔مشہور زمانہ کارروائی جو سانحہ لنجوٹ(انڈین آرمی نے آزاد کشمیر کے علاقے نکیال میں داخل ہو کر 15سے زائد بچوں اور عورتوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا تھا)کا بدلہ48کوگھنٹوں کے اندر اندر لیتے ہو ئے کی۔نیریندر مودی کے گجرات فسادات کا بدلہ ٹانڈہ اکھنور میں لیا۔یہ شخص عالمی استعمار کی نظروں میں کانٹا بن کر چبنے لگا۔

نائن الیون کے بعدجب دنیا نے ایک نیا رخ اختیار کیا تو پاکستانی آمر جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بننے کا اعلان کیا اور اسلام پسندوں پر پاکستان کی سرزمین کو تنگ کر دیا گیا۔ اسے بھی مشرف حملہ کیس میں 2003میں گرفتار کر کے بے پنا ٹارچر کیا گیا۔بلاآخر کشمیریوں کے شدیداحتجاج پر اسے فروری2014میں رہا کر دیا گیا۔تھوڑے عرصے بعد اسے پھر گرفتار کیا گیا اور 6ماہ تک لاپتہ رکھا گیا۔تب اس نے ہجرت کا فیصلہ کر لیا۔

2007میں وہ اپنی قوت سمیت نارتھ وزیرستان کے علاقے رزمک میں منتقل ہو گیا۔جہاں سے اس نے دنیا کے ٹھیکیدار عالمی دہشتگرد امریکہ پر کاری ضربیں لگانا شروع کیں۔امریکیوں کا ناکوں چنے چبوانا ”سرزمیں اسلام“ کے حکمرانوں کو قبول نہیں تھا۔لیکن اس نے اپنی جدوجہد جاری رکھی 2010میں وہ امریکی ڈراؤن حملے میں مارے گئے القاعدہ کے ایک اہم لیڈر ”عبداللہ سعید اللیبی“ کے بعد ”لشکرالظل“ کا امیر بنا۔کہتے ہیں اس کے اسامہ بن لادن کے ساتھ بہت قریبی تعلقات تھے۔

”شیخ“کی ایبٹ آباد شہادت کے بعد میڈیا میں القاعدہ کی قیادت الیاس کشمیری کو سونپنے کی خبریں گشت کرتی رہی ہیں۔

6اکتوبر2011امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1267کے تحت اسے عالمی دہشگرد قرار دیا۔اور اس کے سر کی قیمت 5ملین ڈالر مقرر کی گئی۔پھر وہی ہوا جو اس سرزمین کے شاہوں کا شاخسانہ ہے۔”اہل ایمان“ نے یہ قیمت وصول کی۔3جون2011کو پاکستانی انٹیلی جنس شیئرنگ سے امریکی ڈرون حملے میں اسے شہید کر دیا گیا۔

جی ہاں! یہ سرزمین جو اسلام کے نعرے پر حاصل کی گئی تھی۔قوم سے تعاون کے حصول کے لیے مذہب کا نام استعمال کیا گیا تھا۔
پاکستان کا مطلب کیا …… لا الہ الااللہ

قوم کو بتایا گیا کہ ہم مسلمان ہیں۔ہمیں ایک ایسا الگ وطن چاہیے جہاں پر ہم اسلامی نظام ِ حکومت کے تحت زندگی بسر کر سکیں۔”اہل خرد“اس وقت بھی کہتے تھے کہ یہ صرف سراب ہے،نمائش ہے۔ان سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کو ایک ایسی پناہ گاہ چاہیے جہاں یہ اپنی من مانی کریں اور ان کو پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔
جی ہاں! وقت نے ثابت کیا، ایسا ہی ہوا۔آج68سال گذر گے۔نظام اسلام پاکستان میں لاگو نہیں ہو سکا۔اگر کسی نے صدا بلند کی تو دبا دی گئی۔اور کسی نے جدوجہد کی تو کچل دی گئی۔ایک محب وطن شاعر جو پاکستانی قومی ترانے کا خالق ہے”حفیظ جالندھری“ وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو ا
اب تو کچھ اور بھی اندھیرا ہے
یہ میری رات کا سویرا ہے
”رہزنوں“سے تو بھاگ نکلا تھا
اب مجھے ”رہبروں“ نے گھیرا ہے
قافلہ کس کی پیروی میں چلے
کون سب سے بڑا لٹیرا ہے
سر پہ راہی کے ”سربراہی“ نے
کیا صفائی سے ہاتھ پھیرا ہے
اے میری جان اپنے جی کے سوا
کون تیرا ہے،کون میرا ہے
وہ یہ کہنے پر بھی مجبور ہوا
حقیقتیں آشکار کردے، صداقتیں بے حجاب کردے
ہر ایک ذرہ یہ کہہ رہا ہے کہ آ،مجھے آفتاب کر دے
یہ خوب کیا ہے؟ یہ زشت کیا ہے؟جہاں کی اصلی سرزشت کیا ہے؟
بڑا مزا ہو اتمام چہرے اگر کوئی بے نقاب کر دے۔
اور حفیظ جالندھری نے یہ بھی کہا ہے کہ
جلوہ صبح کا تو اندھوں میں ہے جوش و خروش
عقل والوں کو! وہی رات نظر آتی ہے۔

جی ہاں! وہی رات،بلکہ اس سے بڑھ کر تاریکی۔

پہلے جسم غلام تھے اب ذہن غلامی میں جکڑے جا چکے ہیں۔اسلام کی سرزمیں کو اہل اسلام کے خون سے خوب رنگین کیاگیا۔اسلام کو مقصدِ حیات بنانے والوں کا خون سب سے زیادہ اسی اسلامی مملکت میں بہایا گیا۔یہاں تو قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عبد اللہ عزام شہید ؒ کے جسم کو فضا میں بکھیرا گیا۔ڈالروں کے عوض ایمل کانسی کا سودا کیا گیا۔ آزادی کشمیر کے لیے جدوجہد کرنے والے مقبول بٹ شہید کا دو مرتبہ سودا لگا کر تحریک آزادی کشمیر کی کمر میں چھرا گھونپا گیا۔یہاں تو بیٹیوں کو امریکیوں کے ہاتھوں بیچنے سے دریغ نہیں کیا گیا۔لال قلعے کو فتح کرنے والے خوابوں کے شہزادے لال مسجد فتح کر بیٹھے
یہ تو ایک دو مثالیں ہیں ورنہ تاریخ بھری پڑی ہے۔
آہ! جالندھری تو نے سچ کہا
اب تو کچھ اور بھی اندھیرا ہے
shaheen Zarrar
About the Author: shaheen Zarrar Read More Articles by shaheen Zarrar: 3 Articles with 2879 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.