برما کے مسلمانوں کی کل آبادی22
لاکھ ہے جن میں سے 7 لاکھ افراد بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور ملیشیا میں
خانہ بدوشی کی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔2 لاکھ مہاجرین بنگلہ دیش میں
جائے پناہ کی تلاش میں ہیں جبکہ ایک سے دو لاکھ افراد پاکستان اور ملیشیا
میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔بھارت میں بھی چند ہزار خاندان خانہ
بدوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، گزشتہ برسوں سے عالمی پیمانے پر
مسلمانوں پر مختلف ملکوں میں عرصۂ حیات تنگ کیا جاتا رہا ہے۔بوسنیا ،ہرزی
گووینیامیں بے دریغ مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی ،۔چیچنیا میں بھی مسلمانوں
کی زندگی دوبھر ہو چکی ہے۔مسلم بستیوں کو اسرائیلی فوجوں نے گولوں اور
بارودوں سے تاراج کر دیا ہے۔ یہ وہی چیچنیا ہے جہاں کوہ ِقاف ہے جس کی
پریوں کی کہانیاں نانیاں اور دادیاں سنایا کرتی ہیں۔ آج میانمار میں وہ
مظالم ڈھائے جا رہے ہیں جو کسی زمانے میں ہٹلر نے ڈھائے تھے۔ حد تو یہ ہے
کہ جمہوریت پسند لیڈر آن سان سوکی جنھیں مسلمانوں نے ہمیشہ ووٹ دیا ہے وہ
بھی مسلمانوں کی ہمدرد نہیں ہیں بلکہ وہ یہ غیر ذمے دارانہ بیان دے رہی ہیں
کہ انھیں یہ معلوم نہیں کہ روہنگیا مسلمان میانمار کے شہری ہیں یا نہیں
جبکہ 1978ء میں انھیں مسلمانوں نے ہی اقتدار کے قریب کیا تھا جس کی سزا وہ
بھگت رہے ہیں۔یہ بات صرف میانمار تک ہی محدود نہیں ہے۔امریکہ جو ہر معاملے
میں ٹانگ اڑانا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے اس خالص انسانی مسئلے پر خاموش
ہے۔یہی نہیں عالم اسلام کے بیشتر ممالک کے حکمراں بھی خاموش ہیں۔مسلم عوام
تو میانمار کے مسلمانوں کے درد کو دل میں محسوس کرتے ہیں لیکن حکمرانوں کے
کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔حد تو یہ ہے کہ پاکستان،بھارت اور بنگلہ دیش کے
مسلمانوں نے بھی ان مظلوموں کے آنسو پونچھنے کی کوشش نہیں کی۔حقوق انسانی
کے نام پر قائم ادارے جو مسلمانوں کے بیشتر مسائل پر تشویش کا اظہار کرتے
رہتے ہیں اور کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں،اس معاملے پر مہر بہ لب
ہیں۔مسلمانوں کی فلاح کے نام پر اربوں روپے خردبرد کرنے والے لوگ بھی اپنے
کانوں میں روئی ڈالے سو رہے ہیں۔برما میں مسلمانوں کے قتل عام کا لامتناہی
سلسلہ جاری ہے۔اب تک ہزاروں نہتے مسلمان شہید کیے جا چکے ہیں اور نہ معلوم
کتنے اور مسلمان شہادت نوش فرمائیں گے کیوں کہ یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔اور
بوذی قبائل کے حوصلے اور زیادہ بلند ہو گئے اور انھوں نے مسلمانوں کا قتل
عام اور مسلم خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی شروع کر دی۔اس جاں سوز المیے
پربرما کے ہمسایہ مسلم ملک بنگلہ دیش کا رویہ تو نہایت تشویشناک اور قابل
مذمت ہے جس نے ان مہاجرین کو اپنے یہاں رہنے دینے اور ان کے قیام و طعام کا
بندوبست کرنے سے قطعی طور پر انکار کر دیا اور کہا کہ ہم خود غریب ملک ہیں
آپ کے اخراجات برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔واضح رہے کہ میانمار اور
بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب واقع شہر اراکان میں میانمار کے بوذی قبائل کی
جانب سے وہاں کی مسلم آبادی کو گزشتہ کئی ماہ سے سنگین نوعیت کی دہشت گردی
کا سامنا ہے۔بوذی قبائل کے دہشت گرد مسلمانوں کی نسل کشی کررہے ہیں جبکہ
وہاں کی حکومت بھی مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دینے کے بجائے انھیں اپنا شہری
تک تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔میانمار میں مسلمانوں کے خلاف جاری دہشت گردی
کے خلاف پورے عالم اسلام کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آرہا ہے۔مصر کی سب سے
بڑی علمی درسگاہ جامعہ الازہر نے بوذی قبائل کے ہاتھوں نہتے مسلمانوں کے
قتل عام کے خلاف دنیا بھر میں موجود میانمارکے سفارتخانوں کے گھیراؤ کا
مطالبہ کیا ہے۔قبل ازیں اسلامی تعاون تنظیم کے سکریٹری جنرل اکمل الدین
احسان اوغلو نے مسلمانوں کے قتل عام کی شدید مذمت کرتے ہوئے تشدد کا سلسلہ
بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا کہ مسلم اکثریتی صوبہ اراکان میں
مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ نہایت شرمناک اور انسانیت سوز
ہے۔عالمی برادری اس کا سختی سے نوٹس لے۔جامعہ الازہرکی علما کونسل کی جانب
سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کا اجتماعی قتل عام جاری ہے۔گھروں
اور مسجدوں کو آگ لگا کر خاکستر کیا جا رہا ہے لیکن عالمی اور اسلامی سطح
پر مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوئی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا گیا
ہے۔حد تو یہ ہے کہ میانمار کے صدر نے جلتے پر تیل ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ
مسلمان ہمارے شہری نہیں ہیں۔اس لیے ان کے بچاؤکا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ عام
شہرو ں سے نکل کر مہاجربستیوں میں چلے جائیں یا ملک چھوڑ دیں۔انہوں نے
اقوام متحدہ کے مندوب برائے پناہ گزین سے ملاقات کے دوران کہا کہ روہنگیا
شہر میں موجود مسلمان ہمارے شہری نہیں ہیں اور نہ ہی ہم ان کے تحفظ کے ذمہ
دار ہیں۔اگر انھیں حملوں کا سامنا ہے تو وہ ملک چھوڑ دیں۔ ہم انھیں اپنا
شہری نہیں مانتے۔ظالمانہ اور مفسدانہ بیان کے نتیجے میں 90 ہزار مسلمانوں
کو ہجرت کرنے پر مجبورکیا جا رہا ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں
ہے۔میانمار کا پرانا نام برما ہے اوردارالحکومت ینگون ہے جو پہلے رنگون
کہلاتا تھاجہاں آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر مدفون ہیں جو جنگ آزادیٔ ہند
کے ہیرو اور سر خیل تھے۔دنیا بھر کے قومی لیڈران جب بھی میانمار جاتے ہیں
ان کے مزار پر چادر چڑھاتے اور گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں۔آج بہادر شاہ
ظفرکی روح مسلم شہیدوں کی لاشوں کی بے حرمتی پر تڑپ رہی ہوگی۔یہ وہی
میانمار ہے جہاں کی جمہوریت پسند لیڈر آن سان سوکی فوجی حکومت کے دوران قید
و بند کی صعوبتیں برداشت کرتی رہیں۔ اس کے صدر کا رویہ اور روش تاناشاہی سے
کم نہیں ہے۔ وہ مظلوم مسلمانوں کے قاتلوں کاحامی اور ان کا پشت پناہ ہے۔وہ
بڑی بے شرمی،ڈھٹائی اور بے غیرتی کے ساتھ مسلمانوں کو ہی ملک سے نکالنے کا
منصوبہ بنا رہا ہے۔افسوس اس کے خلاف سیاسی یا سفارتی دباؤ بنانے کے لیے
کوئی تیار نظر نہیں آرہا ہے۔عالمی برادری خاموشی کے ساتھ صرف تماشا دیکھ
رہی ہے۔مسلم کش حملوں کے خلاف حکومت پاکستان نے بھی اب تک کوئی لب کشائی
نہیں کی ہے جبکہ قریبی پڑوسی ہونے کے ناطے یہ اس کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ
حکومت میانمار کے اس ظالمانہ رویے کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار
کرتی۔پاکستان کی چند مسلم تنظیموں اور جماعتوں کے علاوہ سیاسی جماعتیں اپنا
احتجاج درج کرانے میں نا کام رہی ہیں۔کیا یہ مسلم تنطیموں کی ذمے داری نہیں
ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے دفتر اور میانمار کے سفارت خانے یا ہائی کمیشن میں
جا کر اپنا احتجاج درج کرائیں۔اپنے ذاتی مفاد کی خاطر یہ مسلم تنظیمیں جتنی
بیتاب رہتی ہیں اس معاملہ پر اس قدر خاموش کیوں ہیں اس کا جواب بھی پاکستان
کے مسلمانوں کو ملنا چاہئے۔ذرا سی بات پر کروڑوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں
جبکہ ملت کے مفاد کے معاملے میں یہ تنظیمیں چپ ہیں۔اپنے اقتدار اور مفاد کے
لیے یہ تنظیمیں قوم کا کروڑوں روپیہ برباد کردیتی ہیں مگر ہائے افسوس ان
روپیوں کا کوئی حساب نہیں دیا جاتا کہ کہاں اور کس مد میں یہ روپیہ خرچ
ہوا۔صرف اور صرف یہ تنظیمیں اپنے خاندان اور ذاتی مفاد کے لئے مذہب اور
سیاست کا استعمال کرتی ہیں جس کا جواب عوام کو ملنا چاہئے۔ |