مطالعے کا شوق ہمیں اوائل عمری
سے تھا۔۔۔ ! اس لیے خوب بچوں کے رسالے، میگزین پڑھے۔ خاص طور پر فکشن
کہانیاں بہت بھاتی تھیں۔ بادشاہ، ملکہ، شہزادہ، شہزادی اور جادوگر کے ساتھ
ساتھ پری، جن ، دیو وغیرہ کی کہانیاں حقیقت نہ ہوتے ہوئے بھی متاثر کیا
کرتی تھیں۔ کہانیوں کے کیسے کیسے نام ہوا کرتے تھےجن پر میں اور میرے ہم
عصر مر مٹتے تھے۔ ایک تھا شہزادہ، پرستان کی ملکہ، طوطا اور جادوگر، کوہ
قاف کی پری، انار شہزادی ۔۔ چھوٹی سی پاکٹ سائز کتاب، جس پہ انار کی
خوبصورت سی تصویر بنی ہوتی اور انار کا ایک تہائی حصہ چھلکے کے بغیر نظر
آتا، اور انار کے سرخ سرخ دانوں میں مقید سر پہ تاج پہنے شہزادی کا رخِ
زیبا نظر آتاجس پر ہم جی جان سےفدا ہو جاتے۔۔ کیا، کیوں اور کیسے ؟تجسس کے
ساتھ اک کہانی بننے لگتی اور اصل کہانی پڑھنے کو طبیعت بےقرار ہونے لگتی۔۔
پھر جب تک خرید کر کتاب ہاتھوں میں آ نہ جاتی۔ ہمارا شوق ہوا دیتا رہتا۔۔!
ان کہانیوں کی بدولت بچپن بڑا رنگین رہا۔ اس کے بعد والد صاحب اخبار پڑھتے
تو میں مزے سے اس میں سے بچوں کا صفحہ نکال کر لے جاتی ۔ یہ شوق کالج تک
جاری رہا لیکن تب دنیا کے سامنے اس شوق کی پردہ داری کی جاتی کہ لوگ کیا
کہیں گے؟ کالج سٹوڈنٹ بچوں کا اخبار پڑھتی ہے۔۔ پھر لڑکپن، اوائل جوانی نے
مل کر ذات کا کچھ ملغوبہ سا بنا دیا اور بچوں کے رسائل کے بعد
خودبخودخواتینی ڈائجسٹ ہاتھ میں آگئے۔ اب من کی دنیا جوان ہونے لگی تھی
ہیرو، ہیروئن متاثر کرنے لگے تھے ۔ دل کی زمین پر محبت کی رنگ برنگی کھیتی
لہرانے لگی تھی۔ پھرایسی کہانیاں یقینا ہمارے ہی لیے لکھی جاتی تھیں سو پڑھ
کر ان سے بھی پورا انصاف کیا گیا۔۔ یوں مطالعہ اور ہم ہمیشہ لازم و ملزوم
رہے۔۔
جب جرمنی کو روانگی ہوئی تو ہم اپنے پیچھے ڈائجسٹ کا اِک ڈھیرچھوڑ کر آئے
تھے اس خدشے کے ساتھ کہ کہیں ہمارے جانے کے بعد ہمارا اثاثہ ردی کے مول نہ
بک جائے۔۔ گھر والے ہمیں جرمنی میں طریقے، سلیقے سے رہنے کی سیکھ دے رہے
تھے اور ہم گھر والوں سے ہمارے ڈائجسٹس سنبھال کر رکھنے کی وعید لے رہے
تھے۔۔ جبکہ ہمارے سامان میں چند ڈائجسٹ کے ساتھ صرف ایک کتاب بشریٰ رحمٰن
کا ناول۔۔ لگن۔۔ زادراہ بن کر چلی آئی تھی۔۔
کتابوں کی صحیح قدر ہمیں جرمنی آ کر ہوئی۔ پاکستان میں تو سودا سلف بھی
لپٹا اخبارچلا آتا تو ہم اسے بھی پڑھ ڈالتے تھے۔ سو جرمن آ کر بڑی تنگی
ہوئی۔ جرمن زبان، جرمن ٹی وی، جرمن اخبار و میگزین،ہمارا شوق مجبوری بن کر
ختم ہونے کی بجائے تشنگی محسوس کرنے لگا ۔ سو پاکستان کے اگلے چکر میں ہم
پورا ایک بیگ مختلف ڈائجسٹ، میگزین اور کتابوں سے بھر کر ایک دو سال کے
کوٹے کی صورت لے آئے۔ یہ طریقہ بڑا کارگر ثابت ہوا۔۔ پردیس میں دیس بن گیا
تھا۔ ۔ہم اس اثاثے کو سنبھال کر رکھتے۔ سردی کی طویل راتوں اور گرمی کی
لمبی دوپہروں میں ان سے لطف اندوز ہوتے۔ ختم ہو جاتا تو دوبارہ پڑھنے میں
بھی کوئی حرج نہ سمجھتےلیکن آئندہ کے لیے کتابوں کا وطنِ عزیز سے آنا طے
ہو چکا تھا۔ دوست احباب میں ایک ملنے والے صاحب پاکستان سے دس کلو چاول کا
تھیلا بطور ہینڈ کیری لے کر آیا کرتے تھے۔ ہمیں یہ طریقہ بڑا بھایااورہم
دس کلو کتابوں کابیگ ہاتھ میں پکڑ کر ہینڈ کیری کی صورت لانے لگے۔ جسےپورا
کرنے کے لیےفیروز سنز ، انارکلی، الکریم مارکیٹ پر دو تین چکر لگا کر یہ
مقداربآسانی پوری کر لی جاتی۔ اسی دوران پاکستان میں پڑے اپنے پسندیدہ
ڈائجسٹ اور کتابیں بھی ہم نےجرمن منتقل کرنا شروع کر دیں ۔۔
پھرجلد ہی وہ وقت آ گیا۔ جب جرمن پہ اردو لٹریچر کا وزن پڑنا اور بڑھنا
شروع ہوا تو ہم سوچ میں پڑ گئے۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ ہم ان کتابوں
اور ڈائجسٹ کو پڑھ پڑھ کر جرمن کوڑے دان کی نذر کر دیتے۔ جہاں وہ دوبارہ
کاغذی صورت میں کارآمد ہو کر خام مال کی صورت جرمنوں کے ہاتھوں پہنچ
جاتا(اس سے تو اچھا ہوتا ہم سیدھے جرمن لائبریری کو ہی دے دیں، ویسے بھی تو
جرمن لوگ، جرمن زبان میں مختاراں مائی کی کتاب بڑے شوق سے پڑھتے ہیں،سو ان
کا بھی کچھ نہ کچھ کر لیتے ) پَر اب پاکستان سے خریدے گئے ڈائجسٹ، کتابیں
ازخود اپنی اہمیت منواچکی تھیں ۔ ہوائی سفر کے بعد اپنا بھاؤ بھی بڑھا چکی
تھیں۔ پھینکنے کے خیال سے دل مسوس کر رہ گیا۔ کافی سوچ بچار کے بعد ہم نے
اِک فیصلہ لے لیا اور جرمن کےمشہور فرنیچر سٹور۔آئی کے اے ۔۔ پر جا پہنچے۔
دیکھ بھال کر ایک بکس ریک پسند کیا اور اسے خرید کر گھر لے آئے۔۔ ڈرائنگ
روم کے ایک کونےمیں اسے رکھ دیا۔ بڑے شوق سے اس کی تمام شیلف میں اپنی
کتابیں اہتمام سے رکھ دیں۔۔ ایک میں سفر نامے آ گئے، دو میں ناول رکھ لیے
اور اسی طرح باقی میں مختلف اصنافِ ادب کی کتابیں جگہ پا گئیں۔ کچھ بچی ملی
جلی کتابیں ہم نے ایک شیلف میں سمو دیں۔ ایک میں ہم نے جرمنوں پر رعب ڈالنے
کے لیے جرمن کتابیں بھی رکھ دیں جو ہم اردو لٹریچر کی یاد میں اپنی اشک
جوئی کرتے ہوئے خرید کر ان سے دل بہلا نےکی کوشش کیا کرتے تھے۔۔
کام ختم ہوا۔۔ اردگرد از سرِنو نظر ڈالی تو بڑا خوشگوار سا احساس دل پہ
اترا ۔ کتابوں کے آنے سے کمرا ہی بدل گیا تھا۔ آشیانے کے اس گوشے کو۔۔
گھر کی لائبریری ۔۔ کا نام دے دیا گیا۔۔ اب ڈرائنگ روم پڑھے لکھے ماحول کی
عکاسی کر رہا تھا۔ گوشہ جیسےسج گیا تھا۔۔ کتابیں صحیح جگہ پہنچنے پر دل میں
اطمینان کی کیفیت اتری۔ ڈائجسٹ ہم نے کسی اور صورت سنبھال لیے۔ اب جب بھی
ذرا فارغ وقت ملتا ہم بکس ریک کے سامنے جا کھڑے ہوتے۔۔ دیکھتےکہ ریک میں
رکھی ہر کتاب اپنے پیرہن میں نمایاں اپنی پہچان آپ بتا رہی ہے کہ بس ہاتھ
بڑھاؤ اور مجھےہاتھوں میں لے کر اپنا لمس بخش دو۔۔ دو چار صفحات کھول کر
پڑھ لواور مجھے میرا مقصد دے دو۔ اب ہم ایسا ہی کرنے لگے۔ کبھی شاعری کی
کتاب اٹھاتے اور کبھی کوئی سفر نامہ ،کھول کر دو چار پیراگراف اس میں سے
پڑھ لیتے ۔۔
اب ہمیں مزید ایک خوشگوار سی مصروفیت مل گئی تھی۔ جرمنی میں گردو غبار، مٹی
کا سلسلہ تو ہے نہیں لیکن ہم اپنا دل خوش کرنے کے لیے جب وقت ملتا ریک میں
رکھی کتابوں کو نکال کر بڑے پیار سے ان کی جھاڑپونچھ کرتے اور ساتھ ہی ان
کی ترتیب بھی بدل دیتے۔ جس سے اک نئی تبدیلی نمایاں ہو کر ہمیں محظوظ کرنے
لگتی ۔ پھر یہ لائبریری بڑھنے لگی۔ اب پاکستان سے اچھے اچھے نامور شعراء
اور مصنفین کی کتابیں بھی آنے لگیں۔ عمیرا احمد،نمرہ احمد، بشریٰ رحمٰن،
رفعت سراج، ماہا ملک، ثمرہ بخاری، فرحت اشتیاق، اشفاق احمد، مستنصر حسین کے
تمام سفرنامے،ابن انشاء،رضا علی عابدی،اور پروین شاکر، فاخرہ بتول، وصی
شاہ، احمد فراز و دیگر بڑے مصنفین کی کتابیں، اور کچھ انگلش تراجم کی
کتابیں بھی گھر کے اس گوشے میں سما گئیں۔ جو ذرا سی فرصت ہونے پرمجھے اپنی
اور بلایا کرتیں۔ ان کی بدولت میری حسِ لطافت کو بڑی جِلا ملی۔ میری تنہائی
کی ساتھی، میرے وقت کی پاسدار، یہ کتابیں، میری روح کو وہ اَلوہی خوشی دے
رہی تھیں جو شائد کوئی قیمتی سے قیمتی چیز بھی دے پاتی کہ نہیں؟
مستنصر حسین تارڑکے سفرنامے کی کتاب مجھے جرمنی میں بیٹھے بیٹھے شمالی
علاقہ جات میں لے جاتی۔ا ک اَن دیکھی خوبصورتی میری آنکھوں میں سمانے
لگتی۔۔ میں خود کو انھی نظاروں میں پاتی۔
فاخرہ بتول کی شاعری دل پر وجد کے لمحات بن کر اترتی۔۔
پروین شاکر کی کتاب اس کی ناآسودہ خواہشات کی عکاس لگتی اور مجھ پر کچھ
یاسیت، قنوطیت طاری ہو جاتی۔۔
وصی شاہ کی شاعری کی کتاب اپنے ہی جذبات کا اظہار لگتی۔۔
پھرسوچا نہ تھا کہ ان کے درمیان اپنی کتاب۔۔ چاند اور صحرا۔۔ بھی جگہ پا
جائے گی۔۔
ایک دن اسی طرح وقت ملنے پہ گھر کی لائبریری کے آگے کھڑے تھے تو اس شیلف
پہ نگاہ پڑی، جس میں ہم نے کچھ کتابیں ملا جلاکر رکھ دی گئی تھیں ۔اس وقت
جو فرصت سے ان پہ نگاہ پڑی تو واللہ، ان کے نام پڑھ کر مزہ آ گیا۔۔ باہم
پڑی وہ اپنی اہمیت آپ بتا رہی تھیں۔۔،
ملاقاتوں کے بعد۔۔ اللہ میاں تھلے آ۔۔ قاتل غذائیں۔۔ چاند سے نہ کھیلو۔۔
با ادب بانصیب۔۔ دلیپ کمار۔۔ اب بھرے شہر میں مجھے ڈھونڈو۔۔ دور مت نکل
جانا۔۔ آگے موڑ جدائی کا تھا۔۔ آجیل،وغیرہ وغیرہ۔
سو اب کتابیں اور ان کی دنیا کی میں پکی باسی بن چکی تھی۔ ڈائجسٹ بھی اب
کافی پیچھے چلے گئے تھے۔ کیونکہ جو مزہ ایک کتاب پڑھنے میں آنے لگا تھاوہ
کسی دوسری صورت مفقود لگنے لگا ۔۔ا س دوران ایک نئی بات ہوئی، مجھے مستنصر
حسین تارڑ کا سفرنامہ ۔۔ دیوسائی۔۔ کافی عرصےسے پڑھنے کے لیے درکار تھا۔
سوئے اتفاق وہ آن لائن پڑھنے کے لیے مل گیا۔۔ میں نے جیسے تیسےاسے آن
لائن پڑھ لیا۔ لیکن اسے پڑھنے کے بعد ایک بات واضح محسوس کی۔۔ کہ ایک
چیزسامنے تھی بھی اور نہیں بھی۔۔ اگر وہ سفرنامہ، کتاب کی صورت میرے ہاتھوں
سے گزرکر گھر کی لائبریری کی زینت بنتا تو یقینا مجھےزیادہ خوشی محسوس ہوتی
لیکن اب وہ کیفیت مفقود تھی۔کیونکہ کتاب ہاتھ میں لے کر پڑھنا ہمیشہ زیادہ
پسند رہا ہے نسبتا آن لائن ای بک کی صورت۔۔ سو اس کے بعد گھر کی لائبریری
کی اہمیت میری نظر میں اور بھی بڑھ گئی۔ وہ کتابوں سے محبت کی آماجگاہ لگنے
لگی۔۔ علاوہ ازیں میں جو سوچتی تھی۔۔،
میں اور میری تنہائی اکثر یہ باتیں کرتے ہیں۔۔۔۔!
وہ تنہائی تو کب کی ختم ہو چکی تھی۔ اب میں اور میری کتابیں گل و بلبل کی
طرح ایک دوسرے کے روبرو باتیں کرتے تھے۔۔ پھر بڑی دلچسپ بات ہوئی۔ جب گھر
آنے والے مہمانوں اور دوست احباب نے ڈرائنگ روم میں یہ تبدیلی نوٹ کی۔۔
کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کتابوں کے ریکس کی بدولت اور بھی بہت کچھ واضح ہو
گا، لوگوں کےتاثرات، رویے سامنے آنے لگیں گے۔۔ بلکہ اگر پتہ ہوتا تو بہت
پہلے یہ عمل احباب کو جانچنے کا شروع کر دیتی۔۔
کچھ احباب باتیں کرتے ہوئےجب حسب ِمعمول پورے ڈرائنگ روم پر نظر دوڑاتے تو
ان کی نگاہ اس گوشئہ ِخاص پہ جا رکتی۔ ان کے لفظ وہیں زبان پہ رک جاتے لیکن
پھر وہ اپنی نگاہ کو واپس لیتے ہوئے سلسلہِ گفتگو دوبارہ جوڑنے کی کوشش
کرتے جہاں سے منقطع ہوا تھا۔ کچھ دیر بعد دوبارہ پھر ان کی اچٹتی سی نظر اس
گوشے پہ جا ٹکتی۔ ان کی اس کیفیت پر میں دل میں مسکرا دیتی۔ وہ مجھے نہ تین
میں لگے نہ تیرہ میں۔۔ کیونکہ ان کی رائے انھی تک محفوظ رہ جاتی۔۔
دوسری قسم کے لوگوں نے جب کتابوں کا ریک دیکھا تو میں نے ان کی آنکھوں میں
واضح اِک ستائش دیکھی۔ انھوں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کھل کر مبارکباد
دی۔۔
" واہ جی واہ، یہ تو آپ نے کمال کر دیا، بہت اچھا کیا۔ "
اور کچھ مہربان داد دینے کے ساتھ ساتھ اس گوشے میں پہنچ جاتے اور تجسس سے
کتابوں اور مصنفین کے نام پڑھنے لگتے۔ پھر ایک آدھ کتاب نکال کر اس کے
اوراق پلٹنے لگتے۔۔ تب مجھے ڈرائنگ روم میں کتابوں کا اہتمام کرنااِک
ارتقائی عمل لگنے لگا۔۔
ویسے سب سے زیادہ خوشی مجھے اپنی دوست کی رائے سے ہوئی جس نے کہا،
" بہت خوب، ان کتابوں کے آئینے میں آپکی ادبی شخصیت جھلک رہی ہے۔"
دوسروں کے تاثرات دیکھ کر ہمیں بہت مزہ آ رہا تھا۔ جرمن لوگ دیکھتے تو ان
کی سراہتی نظریں تو کسی الفاظ کی محتاج ہی نہ رہتیں کیونکہ جرمن ایک پڑھنے
والی قوم ہے۔ مجھے دیکھ کر بہت اچھا لگتا ہے جب میں جرمن لوگوں کو ٹرین،
بس، ائرپورٹ،ڈاکٹر کی انتظارگاہ میں پڑھتےہوئے دیکھتی ہوں، جیسے وہ اپنا
ایک ایک منٹ قیمتی سمجھتے ہیں۔ پانچ منٹ کا بھی وقت ملے تو فورا جرمن عورت
کے بیگ سے کتاب
باہر اس کے ہاتھوں میں آجاتی ہے اور وہ اردگرد سے بے نیازپڑھنے لگتی ہے۔۔
کسی بھی انتظارگاہ میں بڑوں کے علاوہ بچوں کے کھلونوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی
کتابوں کا اہتمام بھی لازم ہے۔۔ دلچسپ بات کہ بچے بھی بڑوں کی طرح ہی
کتابوں کی طرف لپکتے دیکھے ہیں۔ اکثر انتظار گاہ کی خاموشی میں ماں یا باپ
سرگوشی کے عالم میں آہستہ آہستہ بچے کو کہانی پڑھ کر سناتے ہیں۔
مضمون کا مدعا اس کمنٹ کے بغیر کچھ ادھورا رہے گا جو اپنی ایک ہم وطن خاتون
نے فورا دیا تھا۔ میرے بکس ریک پر نظر پڑتے ہی بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا
،
" ارے، آپ نے اتنے پیسے ان کتابوں پہ خرچ کر دئیے، ان کی مالیت سےتو ایک
گولڈ کا سیٹ بن سکتا تھا۔"
اس کمنٹ پر۔۔!
ہم ہنس دئیے، ہم چپ رہے ، منظور تھا پردہ ان کا،
قصئہ کوتاہ۔۔
گھر کی لائبریری اتنی مشہور ہوئی کہ پھر اُس کی ایک برانچ بیڈ روم میں بھی
کھل گئی۔۔
مصنفہ:
۔۔۔ کائنات بشیر ( جرمنی )۔۔۔
وہ تنہائی تو کب کی ختم ہو چکی تھی۔ اب میں اور میری کتابیں گل و بلبل کی
طرح ایک دوسرے کے روبرو باتیں کرتے تھے۔۔ پھر بڑی |