اردو:ہمارے علمی اور سماجی رویے

معروف ماہر لسانیات ، محقق ، نقاد اور ادبی تاریخ دان ڈاکٹر گیان چند جین نے کہا تھا کہ زبان کا مسئلہ واشگاف ہو کر دو میدانوں میں سامنے آتا ہے: سرکاری دفاتر کی زبا ن اور تعلیمی اداروں کی زبان۔اردو کبھی پاکستان کی سرکاری زبان تھی ، اب نہیں:صرف قومی زبان ہے اور وہ بھی اس سوال کے ساتھ کہ یہ کس کی مادری زبان ہے۔پاکستان کے سرکاری دفاتر میں بھی خط و کتابت انگریزی میں ہوتی ہے ، نجی کو کیا کہیں۔فوج کے اداروں ، عدلیہ اور اعلیٰ اشرافیہ کے اداروں میں اس کا داخلہ ممنوع ہے۔ مقابلے کے امتحان میں اب اس کی حدود محدود کر دی گی ہیں یعنی اس کو اوقات میں لایاجا چکا ہے۔آزادکشمیر میں یہ دفتری زبان بھی تھی اور محدود حد تک اب بھی ہے۔۲۰۰۲ء کے ایک بیوروکریٹک حکم نے انگریزی کو دفتری زبان کے طور پر ایک بار پھر برتری عطا کر دی ہے۔یہاں بھی نجی شعبہ میں انگریزی کی حکمرانی مسلم ہو چکی۔ مہنگے تعلیمی اداروں میں انگریزی مقدس گائے ہے۔اس کے خلاف کچھ کہنا گستاخی ہے۔حکومتی دفاتر میں اب نام کی تختیاں ، خط و کتابت ، گاڑیوں کی نام کی تختیاں ، اے سی آر فارم ، پی ایس سی میں امیدواران کے فارم ، بینک میں چالان فارم ، بجلی اور ٹیلی فون کے بلات ، عدالتوں(عدالت العالیہ اور عدالت العظمیٰ) کے فیصلے ، بیوروکریٹ کی گفتگو میں کوڈ سوچنگ، سکولوں اور کالجوں کے بورڈ، کلاس روم کے باہر ناموں کی تختیاں ، رجسٹر : سب کچھ انگریزی میں ہے اور اس کو پڑھنے والے سب اردو سمجھنے والے۔ آزادکشمیر یونی ورسٹی میں اردو کے شعبے نے ۳۵ سال کے بعد کام کرنا شروع کیا ہے اور داغ کے اس شعر کی تفہیم آسان ہوگئی کہ
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

اس شعبے کے لیے گزشتہ دس سالوں میں بے شمار افراد نے کام کیا اور کچھ اب دنیا میں نہیں رہے۔اردو جامعہ میں فی الحال صرف ایک شعبے کی زبان ہے کیونکہ یہاں سماجی علوم کی تمام شاخیں انگریزی میں پڑھائی جا رہی ہیں۔نفسیات ، قانون ، تعلیم ، سماجیات ، فلسفہ ، کشمیریات : یہ سب انگریزی میں پڑھائے جا رہے ہیں(عجیب بات ہے کہ ان کو پڑھانے والے کلاس اردو میں لیتے ہیں اور کہیں کہیں کوڈ سوچنگ کرتے ہیں)۔بہر حال حالات کچھ بھی ہوں ، جامعہ میں اردو کے ساتھ یہ سلوک قابل قبول نہیں۔انتظامی مسائل کچھ بھی ہوں اردو کے ساتھ یہ سلوک برداشت نہیں کیا جاسکتا۔اردو سے اسی طرح پیسے نہیں کمائے جانے چاہیے جس طرح باقی شعبوں سے کمائے جا رہے ہیں۔اس کی فیس بھی باقی شعبوں سے کم ہونی چاہیے۔مسئلہ رویوں کا ہے۔شعبہ اردو کو ایک آزاد و خود مختار سربراہ کی ضرورت ہے اور رابطہ کاروں کے بس کی بات یہ نہیں۔اسے ایسا سربراہ چاہیے جو اس شعبے کو ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح تک لے کر جائے۔اردو کے شعبے کے ساتھ اور اردو زبان کے ساتھ جامعہ کے رویے کتنے سنجیدہ ہیں اس کے لیے دو مثالیں کافی ہوں گی۔جامعہ میں بین الاقوامی لسانی کانفرنس کروائی گئی۔۱۵۱ مقالات پڑھے گئے۔درجنوں سیشن ہوئے۔ایک مشاعرہ بھی ہوا، جس میں پاکستان سے بیوروکریٹ شعراء کو مدعوکیا گیا اور ان کی خدمت کے لیے یہاں کی انجمن ستائش باہمی پیش پیش رہی۔شعبہ اردو کے فرشتوں کو خبر نہیں۔نہ طلبہ کو دعوت دی گئی اور نہ اساتذہ کو۔

ہم اپنے طور پر سننے کے لیے گئے تو دربانوں نے یہ کہہ کر دھتکار دیا کہ صرف کارڈ والے اندر جاسکتے ہیں اور اے سی صاحب ناراض ہوتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا اردو لسانی کانفرنس کا حصہ نہیں تھی۔ سنا کہ تمام مقالات انگریزی میں پڑھوائے گئے(غیر ملکی آقاؤں کو رخصت ہوئے ۶۸ سال گزر چکے ہیں۔کالے انگریز باقی ہیں)۔دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اردو اب صرف مشاعروں کی زبان ہے۔تو کچھ لوگوں نے اسے واقعی مشاعروں کی زبان بنا دیا ہے۔دوسرا مسئلہ شعبہ اردو کے طلبہ کے لیے کتابوں کی فراہمی کا ہے جس کے لیے کوئی سنجیدہ کوششیں نظر نہیں آتیں۔ایک تیسرا مسئلہ بھی ہے جو گھمبیر ہے۔جامعہ میں بے شمار سکالرز اور دیہاڑداری پر پڑھانے والے اساتذہ ہیں جو بڑی محنت اور لگن سے مختلف شعبہ جات میں پڑھا رہے ہیں اور ان کو اجرت مہینوں اور سالوں کے بعد کہیں ملتی اور کہیں نہیں ملتی۔حدیث ہے کہ ’مزدور کو مزدوری اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو‘ لیکن یہاں تو مزدور کا خون خشک ہوجاتا ہے اور مزدوری ندارد۔

ڈاکٹر گیان چند نے ہی کہا تھا کہ جامعات میں اردو مر رہی ہے اور اس کی ایک مثال جامعہ آزادکشمیر بھی ہے۔سب کچھ انگریزی میں۔سائن بورڈ ، ناموں کی تختیاں ، خط و کتابت ، کورس ، نصاب ، فارم ، چالان فارم ، وظیفے کے فارم ، نتائج ، ایوارڈ لسٹ سب کچھ انگریزی میں۔حالانکہ یہ سب تو ایک انتظامی حکم سے اردو میں کیے جا سکتے ہیں۔اس رویے کا اثر سماج پر دیکھ لیں۔شادی کارڈ سے لے کر دکانوں کے ناموں کی تختیاں ، اشتہارات سے لے کر گاڑیوں کے ناموں کی تختیاں اور سب سے بڑھ کر ان کے سوچنے کا انداز۔عوام کا مذہب حکمرانوں کے مذہب پر ہوتا ہے۔اس کا تجربہ خوب ہوا۔لوگ اب سرکاری تعلیمی اداروں نہیں ، انگریزی میڈیم کی تختی والے اداروں کی طرف جاتے ہیں۔ٹیوشن ایک فیشن ہے اور وبا ہے۔اب تو یہ گھروں میں بھی داخل ہوچکی۔کہاں گئے وہ دن جب اس کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔اب صرف قبر کے کتنے انگریزی میں لکھے دیکھنے کی حسرت رہ گئی ہے۔جامعہ کی بیوروکریسی سے سنا کہ ہماری خواہش ہے کہ یہاں چینی، ترکی، فارسی اور عربی کے شعبے بھی کھلیں۔ضرور کھولیں لیکن یاد رکھیں کہ بقول قائد اعظم ہماری زبان صرف اور صرف اردو ہے۔یہی اب رابطے اور محبتوں کی زبان ہے ، یہی پاکستان کی اکائیوں کو ایک لڑی میں پرو سکتی ہے: یہی اس ریاست کے سدھنوں ، چودھریوں ، ملکوں ، مغلوں ، راجاؤں اور سرداروں کو ایک سوچ دے سکتی ہے۔ورنہ برادری ازم ، علاقائیت اور فرقہ پرستی کی لعنت تو جامعات میں سب سے زیادہ نظر آتی ہے اور یہ جامعہ بھی اس سے محفوظ نہیں۔اگر یہ حقیقت ہے کہ اس ریاست اور ملک پاکستان کی بنیاد اسلام اور اردو زبان تھے تو اس کو اپنا فرض سمجھیے کہ اردو اور یہ ریاست یک جان دو قالب بنیں۔قومی اور ریاستی وحدت کا تقاضا ہے کہ ہم وہی زبان استعمال کریں جو سب جانتے ہوں اور جس میں وہ ایک دوسرے کی زبان سمجھ سکیں۔لیکن زبان کو روزگار کے ساتھ جب تک نتھی نہ کیا جائے گا اس وقت تک وہ یتیم ہی رہے گی اور اردو کے ساتھ یہی سلوک نظر آرہا ہے۔انگریزی روزگار کی زبان ہے اور اس ملک کے اشرافیہ کی زبان ہے۔اردو کو جب تک مقابلے کی زبان تسلیم نہیں کیا جاتا اور اس کے راستے اشرافیہ کے اداروں میں داخل ہونے کے کھولے نہیں جاتے، قائد کا ایک قوم کا خواب ادھورا ہے۔ایک سوال کے ساتھ بات کو سمیٹ لیتا ہوں کہ ’کیا اردو روزگار کی زبان ہے‘۔
abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 56953 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More