مسلم امہ کا انتقال…
(شفقت نذیر, Stoke-on-trent)
کسی کے پاؤں کے نیچے سے زمین
کھینچ لی جائے تو اس کا کیا حال ہوتا ہے۔کٹے ہوئے گلے، سوختہ اور بے گور
وکفن لاشیں، بے سروسامانی، انسانی المیے،یہ1982 کی بات ہے جب جنرل نی ون کی
حکومت نے برمیز نیشنلٹی کاقانون نافذ کیا جس کے تحت روہنگیا مسلمانوں کو
برما کی شہریت سے محروم کردیا گیا۔ یعنی ان کے پائوں کے نتیجے سے زمین
کھینچ لی گئی۔ اس وقت سے آج تک بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی
تنظیموں نے روہنگیاں کو دنیا کی سب سےستائی ہوئی مظلوم اقلیت قرار دیا ہے۔
1962 میں جب جنرل نی ون نے برما کی حکومت سنبھالی تو اس نے مسلمانوں کے
خلاف 20 سال کے دوران کئی ملٹری آپریشن کئے جن میں’’ آپریشن کنگ ڈریگن
‘‘بہت مشہور ہوا تھا جو 1978 میں کیا گیا جس کے نتیجے میں20 ہزارسے
زائدروہنگیا مسلمان قاتل ہوئے بہت سے اپنے ہمسائیہ ملک بنگلہ دیش چلے گئے
اور ایک بہت بڑی تعداد اس وقت مہاجرین کی کراچی بھی آگئی تھی۔ شاید یہ بہت
کم لوگوں کو معلوم ہو کہ1948 میں برما کو ملنے والی آزادی سے قبل 1940 میں
تحریک پاکستان کی جدوجہد کے دوران روہنگیا مسلمانوں نے ویسٹرن برما میں
اپنے علاقے کو مشرقی پاکستان میں ضم کرنے کی تحریک کا بھی آغاز کیا تھا۔
اراکان کے مسلمان لیڈروں نے بانی پاکستان محمد علی جناح سے مایا ریجن کو
مذہبی تعلق اور جغرافیائی قربت کے حوالے سے مشرقی پاکستان میں شامل کروانے
کے لئے معاونت کی درخواست کی تھی۔لیکن بانی پاکستان نے شائید کسی سیاسی
مصلیحت کی بنا پر انکی یہ درخواست مسترد کر دی تھی اس کے بعد وہاں 1947 میں
ناردن اراکان میں ایک مجاہد پارٹی تشکیل دے کر ایک الگ مسلم ریاست کے قیام
کی کوشش بھی کی گئی تھی۔ برما کی تاریخ کے مطابق برما اور بنگلہ دیش کی
سرحد پر واقع صوبہ رکھنی جسے تاریخی طورپر اراکان کے نام سے جانا جاتا ہے
میں روہنگیا مسلمان سات صدیوں سے آباد ہیں۔یہ ایک الگ ریاست تھی جسے دوسری
جنگ عظیم کے بعد جاتے جاتے انگریزوں نے برما کے سپرد کردیا۔ لیکن آج تک
میانمار کی حکومت انہیں اپنا شہری تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ دنیا میں
یہ انوکھی مثال موجود ہے کہ کچھ انسان کسی بھی ملک کے شہری تسلیم نہیں کئے
جارہے ۔ یہ ملک 1962 سےجوفوجی آمریت کے زیر تسلط ہےاور 1988 سے یہاں کی
حکومت بغیر کسی قانون سازی اور آئین کے ملک پر مسلط رہی۔ یہاں کسی اقلیت
کو مذہبی آزادی نہیں مذہبی تہواروں کی چھٹی کے لئے بھی اقلیتوں کو درخواست
دینا پڑتی ہے اور اس کی منظوری کے لئے رشوت بھی ۔ روہنگیا مسلمانوں کے لئے
یہ پابندیاں نہ صرف زیادہ بلکہ غیر انسانی ہیں انہیں تعلیم حاصل کرنے کی
اجازت نہیں طبی سہولیات پر ان کا کوئی حق نہیں دوسرے شہر جانے کے لئے پیشگی
اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ شادی کے لئے بھی ان مسلمانوں کو اجازت
لینی پڑتی ہے اور یہ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ شہری تو تسلیم نہیں کرتی
لیکن وہی حکومت شادی کے لئے اجازت دیتی ہے۔یہاں مسلمانوں کی کئی طریقوں سے
نسل کشی کی جارہی ہے۔کبھی مسلمانوں کا قتل عام کرکے کبھی شادی کی اجازت نہ
دے کر کبھی ان کے بچوں کو مار کر۔ یقین کریں کہ ساحل سمندر پر جانے کے لئے
ان مسلمانوں کو حکومت سےاجازت لینا پڑتی ہے۔ اسی حکومت کی ایما پر برمی بدھ،
برمی مسلمانوں کا قتل ثواب سمجھ کر کرتے ہیں۔ یعنی دنیا بھر میں امن پسند
مذہب ہونے کا دعویٰ کرنے والے مسلمانوں کو مارنااپنا مذہبی فریضہ سمجھتے
ہیں۔ اکثر اوقات ان مسلمانوں کا قتل اس بات پر بھی ہوجاتا ہے کہ انہوں نے
کوئی جانور کیوں مارا کیونکہ بدھ مذہبی طورپر جانور یا جاندار کی جان لینا
گناہ سمجھتے ہیں لیکن اس کی سزا قتل کرکے دیتے ہیں۔ حکومت اس سارے کھیل میں
نہ صرف شریک ہے بلکہ اس کی پشت پر ہوتی ہے۔میانمار میں2012 میں ہونے والے
فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل کردیا گیا اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر
96 کے مطابق نسل کشی چاہے جنگ کے دوران ہو یا امن کے دوران سنگین نو
عیت کا جرم ہے۔ جسے روکنے کے لئے اقوام متحدہ اس قرارداد کے تحت پابند ہے
لیکن برما میں نسل کشی پر پوری دنیا خاموش ہے۔ ان فسادات کے دوران مسلمانوں
کو زندہ جلایا گیا ان کی عورتوں اور بچوں کو بے دریغ قتل کیاگیا۔ ان فسادات
کے لئے جس واقعہ کو جواز بنایا گیا وہ ایک بدھ لڑکی کا قبول اسلام تھا جس
کوبعد میںقتل کرکے اس کا الزام بھی مسلمانوں کے سر ڈال دیا گیا۔ تاریخ ایسے
واقعات سے بھری پڑی ہے جب یہاں کے بدھوں نے مسلمانوں کے ساتھ انتہائی
ظالمانہ رویہ اختیار کیا۔ ان مظالم سے تنگ آکر مسلمان جب بنگلہ دیش کا رخ
کرتے ہیں تو وہاں سے بھی انہیں نکال دیا جاتا ہے یا انتہائی نامساعد حالات
میں مہاجر کیمپوں میں رکھا جاتا ہے۔ یایہ مظلوم تھائی لینڈ کے مہاجر کیمپوں
میں انتہائی تکلیف دہ زندگی گزارتے ہیں۔ برما کی سرزمین مسلمانوں کے لئے
تنگ کردی گئی ہے اور برمی مسلمان اپنی زندگیاں بچانے کے لئے انسانی سمگلروں
کے ہتھے چڑھ رہے ہیں جو انہیں کھلے سمندر میں چھوڑ جاتے ہیں ان میں سے کئی
سمندر کی نذر ہوجاتے ہیں اور جو بچ جاتے ہیں وہ قید کرلئے جاتے ہیں۔ امت
مسلمہ کے سوچنے کی بات ہے کہ کیا برمی مسلمانوں کے حق میں کوئی مضبوط آواز
اٹھائے گا۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ داری او آئی سی کی ہے۔ اس وقت
دنیا میں 1.56 بلین مسلمان ہیں جو کہ دنیا کی کل آبادی کا 23 فیصد بنتا ہے۔
کیا اتنی بڑی تعداد 12 لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو ان کا حق نہیں دلواسکتی۔
غیر مسلم دنیا ان کی کیوں مدد کرے گی وہ تو ان کے درپہ ہے۔ مسلمان حکمرانوں
کو اگر ان کے شوق حکمرانی سے کچھ فرصت ملے تو خدارہ اس مسئلہ پر بھی تھوڑی
توجہ دیں۔ایسٹ تیمورکے صرف دس گیارہ لاکھ لوگوں کے لئے ایک الگ ملک بن سکتا
ہے تو آخر برما کے ان مسلمانوں کے لئےاور ان کے حقوق کے لئے کیوں بات نہیں
کی جاتی، ویسے بھی روہنگیا اپنے آپ کو عرب سمندری سیاحوں کی نسل کہتے ہیں۔
اب تک کسی جانب سے بھی کوئی ایسا منصوبہ سامنے نہیں آیا جو کہ ان روہنگیا
مسلمانوں کو ان کے جائزحقوق دلواسکے اور اس قتل عام سےانہیں بچایاجاسکے۔
دنیا بھر کا الیکٹرونک میڈیا مجرمانہ طورپر خاموش ہے اگر وہ اپنا کردار ادا
کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ مسئلہ حل نہ ہوسکے۔ اگر عا لمی ضمیر کو
جھنجوڑنے کے لئے میڈیا زندہ جلتے ہوئے مسلمانوں کے کلپس دکھاتا ان روتے
بلکتے بچوں اور بے آبرو عورتوں کے کرب میں ڈوبے ہوئے چہرے دکھاتاتوشاید یہ
ظلم بند ہوجاتا۔ شاید امن کی نوبل انعام یافتہ برمی آن سان سوچی بھی اپنے
نوبل امن کی کوئی لاج رکھ لیتیں اوران مظلوم روہنگیا مسلمانوں کے لئے بول
پڑتی۔ افسوس جب کسی کے پائوں کے نیچے سے اس کی زمین کھینچ لی جاتی ہے تو
پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ کوئی ہے جو کہ روہنگیا مسلمانوں کو ان کے پائوں کے
نیچے کی زمین واپس دلواسکے مسلم امہ کہاں ہے؟؟؟ |
|