روہنگیا مسلمانوں کا پھرسے قتل عام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عالمی رہنماوں اور میڈیا کی وہی بے حسی

بدھ مذہب کے بانی گوتم بدھ نے ہمیشہ عدم تشدد کی تعلیم دی وہ انسانوں کے ساتھ ساتھ حیوانوں کو مارنا بھی گناہ سمجھتے تھے ۔ان کا مشہور قول کہ کسی کی جان نہ لی جا ئےخواہ وہ انسان ہو یا حیوان دنیا میں اس وقت تک امن قائم نہیں رہ سکتا جب کسی معاشرے افراد یا قوم وملک کو دوسروں کے ہاتھوں اپنی زںدگی خطرہ میں نظر آئے ان واضع تعلیمات کے باوجود بدھ مذہب کے پیروکار وں کیطرف سے برما کے روہنگیا مسلمانوں کے خون سے جسطرح ہولی کھیلی جا رہی ہے اور نے گناہ مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا جارہا ہے وہ انسانیت اور اس مذہب کے پیروکاروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔اور اس مذہب کی تعلیمات کے بارے میں شکوک وشبہات حقیقت بن گے ہیں۔

برما میں مسلم اکثریت علاقہ اراکان ہےاور یہاں بسنے والے مسلمانوں کو روہنگیا کہا جاتا ہے ۔برما میں مسلمانوں کی کل اآبادی 24لاکھ کے قریب ہے۔اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ برما میں اقتدارمیں فوج کے قبضہ سے پہلے یہ علاقہ مسلمانوں کی الگ ریاست تھی جس میں مسلمانوکی حکومت تھی اور یہاں کے باسی ایک خوشحال اور آزاد زندگی گزارتے تھے۔اپنی محنت سے اس دھرتی کی مٹی کو سونے میں بدل رہے تھے پھر برما کی فوجی حکومت نے اراکان پر قبضہ کر کے اسے صوبہ کادرجا دے دیا۔اور یہاں سے ان پر مظالم کا آغاز بھی ہوا ۔اس ملک میں مسلمانوں کی کئی نسلیں پروان چرھی لیکن اس کے باوجود بھی آج تک انہیں اپنے ملک کے اندر رہتے ہوئے بھی ملک کے شہری کا درجہ حاصل نہیں ہے ۔یہاں کے مسلمان قبضہ کے بعد سے انتہا ئی کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں وہ اآج بھی بنیادی انسانی حقوق سے محرومں یہاں انہیں کئی طرح کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اآج بھی برما کے روہنگیا مسلمان اپنی مرضی سے سفر کرنے پر پابندی ہے بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کے لیے بھی حکومت سے اجازت لینا پڑتی ہے ۔شادی کرنے کے لیے حکومت سے اجازت لینا ضروری ہے دو سے زاءد بچے پیدا کرنے پر بھاری جرمانہ اور سخت سزاوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اظہار رائےاور ملازمتوں کے دزوازے مسلمانوں کے لیے بند ہیں۔بلکہ ان سے فوجی کیمپوں میں بیگار لی جاتی ہے مسجدوں اور مذہبی مقا مات کو آئے روز مسمار کر دیا جاتا ہے ۔

برما میں مسلمانوں پر مظالم اور انکی نسل کشی کی تاریخ بھی پرانی اور دکھوں سے بھری ہوئی ہے۔لیکن نسل کشی کے ان واقعات کو عروج1978ء میں ملا جب ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔اور ہزاروں روہنگیا کو انکی جاءیدادوں سمیت جلادیا گیا۔اقوام متحدہ کی ایک رپوٹ کے مطابق ان مسلم کش فسادات کے دوران 1لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمانوں نے پڑوسی ممالک ملاءشیا اور بنگلہ دیش میں ہجرت کی۔جہا آج بھی وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔بنیادی انسانی ضرورتوں اور خوراک کی کمی کے باوجود بھی زندگی کی گاڑی کو کھچنے پر مجبور ہیں۔اقوام متحدہ کا ادارہ برائے پناہ گزین یا کسی این جی او کا وہاں کوئی وجود نہین ہے۔2013ء میں مسلم نسل کشی میں ایک بار پھر خطرناک حد تک اضافہ ہو اور مذہبی فسادات کے نام پر ایک بار پھر ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں کو بے گناہ قتل کر دیا گیا۔اس با 2000سے زیادہ خاندانوں کو زندہ جلادیااور جان بچانے کے لیے ہجرت کرنے والوں کو بنگلہ دیش کی بھارت نواز حکومت اپنے ملک میں داخل ہونے سے روک دیا اور انہیں دریا ناب کی بر رحم موجوں کے حوالے کردیا ۔عینی شاہدوں کے مطابق دریائے ناب میں انسانی لاشے مچھلیوں کی طرح تیر رہی تھی۔سوشل میڈیا پر ان مظالم کی داستانین ویڈوز اور تصویروں کی صورت میں آج بھی موجود ہیں۔زندہ جلاے جانے والے میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے ۔زندہ جلائےجانے اور قتل کے ان لرزہ خیز واقعات سے ہلاکو خان اور ہٹلر کی روحیں کانپ رہی ہو ں گی۔گذشتہ ایک ماہ سے ان انسان سوز اور مسل کشی کے واقعات مین ایک بار پھر سے تیزی آ ئی ہے لیکن اس بار طریقہ وارداد ایسا کہ انسانی روح کانپ جائے چند دنوں سے سوشل میڈیا میں میں ان بدھ بھشکو کی طرف سے ڈھاے جانے والے مظالم کی تصویریں سینہ میں دل رکھنے والے انسان کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہیں۔اس بار ان درندوں نے زندہ انسانوں کو زبح کرنا شروع کردیا ہے۔نوجوان خواتین کو برہنہ کر کے ہاتھ پاوں باندھ کر انکے گلے کاٹ کر اپنی خبثیت کو مٹا رہے ہیں۔انکے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنی بھوک مٹا رہے ہیں آج برما میں جا بجا ان مسلمان بہنوں اور بچوں اور نوجوانوں کی ٹکڑے ٹکڑے کیے ہوے اور جلے ہوے لاشے جن میں سے کسی کا سر غاءب اور کسی معصوم کے دیگر اعنضا غاءب اور ہر طرف پھیلی ہو ئی جلتے انسانی جسم کی بو عالمی امن کے ٹھیکداوں کے منہ چڑھا رہی ہے اور ان سے سوال کرتی ہے کہ تمارا ضمیر کب گاگے گا؟

مظالم کی ان داستانوں کے باوجود عالمی رہنماوں انسانی حقوق کی تنطیموں اور عالمی میڈیا کی خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے داعش کی طرف سے ایک پائلٹ کو زندہ جلا ئے جانے کی واقعے نے عالمی میڈیا کو ہلا کر رکھ دیا لیکن آج ہزاروں کی تعداد جلاے جانے والی یہ خواتین بچوں اورنوجوانوں کے جلے ہو ئے جسم اس نام نہاد میڈیا کو نظر کیوں نہیں آتے ۔یہ این جی اوز جو انسانی حقوق کے نام پر لاکھوں ڈالر بٹور رہے ہیں واہ خاموش تماشاءی کیوں بنے ہوئے ہیں؟دنیا اپنے اس دوہرے معیار کو کب تک جاری رکھے گی ؟ مسلمان کا خون اتنا سستا کیوں ہو گیا ہے؟کیا یہ روہنگیا مسلمان انسان نہیں ہیں؟سب سے افسوسناک بات یہ کہ دنیا کے نقشے میں موجود 57سے زیادہ اسلامی ممالک ٹک ٹک بے اختیار دیدم دم کشیدم کے مصداق خاموش تماشاءی بنے ہو ئےہیں کسی کو بھی ان مظلوموں کے حق میں بات کرنے کی جرات نہیں ہے۔ہمارا نام نہاد میڈیا جسے فلمی ایکٹروں کی شادیوں کی کوریج کے لیے بہت وقت ہے لیکن ان مظلوموں کی آواز کو دنیا کے سامنے لانے میں ہچکچاٹ کیوں ہے؟اس سارے معاملے پر عالمی رہنماوں کی اور عالمی میڈیا اور انسانی حقق کی تنطیموں کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے (اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو)
راجہ محمد عثمان سلیمان
About the Author: راجہ محمد عثمان سلیمان Read More Articles by راجہ محمد عثمان سلیمان: 2 Articles with 1825 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.