دن دیہاڑے

میں جرمن ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھ رہی تھی۔۔

ہٹلر کا ملک، جرمن ویسے بھی اپنے قوانین کے معاملے میں کافی سخت ہیں۔ یورپ کےدیگر ملکوں کی طرح یہاں بھی شراب پی کر گاڑی چلانے پر ممانعت ہے۔ شہر کے اندر ہو یا ہائی وے پر، اس کی سخت مناعی ہے۔ ان کے قوانین بھی اس رول کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ پولیس کو اکثر ایسے لوگوں سے نپٹنا پڑتا ہے۔ چاہے شک کی بنا پر ہی کیوں نہ انھیں روک لیا جائے۔ ابھی پچھلے دنوں ہی گردو نواح میں ایک واقعہ ہوا کہ ایک چالیس، بیالیس سالہ عورت روڈ پر سائیکل چلاتے ہوئے اس جگہ (زیبرا کراسنگ ) سے کراس کر رہی تھی جہاں واقعی اسی کا حق تھااور باقی ٹریفک کو ہر صورت وہاں رکنا تھا۔ لیکن اسی اطمینان میں وہ بچاری ماری گئی کیونکہ ایک شرابی نے تیزی سے آتے ہوئے گاڑی اس پر چڑھا دی تھی۔۔

یہاں جب گاڑی چلانی سکھائی جاتی ہے تو گاڑی انسٹرکٹر یہ بات بھی گاڑی چلانے والے کو سکھلاتا ہے کہ نہ صرف تمھارے پاس اپنی گاڑی کا کنٹرول ہے بلکہ تم نے اگلی گاڑی پر بھی نظر رکھنی ہے کہ اس کا ڈرائیور کیا کرنے والا ہے۔ وہ بے چاری لیڈی صرف اپنے حق سے ہی آگاہ رہی اور یہ حق ہی اسے لے ڈوبا۔ اسے یہ اندازہ نہیں ہوا کہ سڑک اس کے علاوہ شرابی کی بھی تھی جو اس وقت کسی پب بار، یا پیدل کی بجائے گاڑی میں دندنا رہا تھا۔ سو یہ واقعہ کافی عبرت ناک بنا۔

جرمن میں ان قوانین کے بننے کے باوجود لوگ اس کی خلاف ورزی کرتے پائے جاتے ہیں جن کی زیادہ تعداد ان کے اپنے ہی جرمنوں کی ہوتی ہے۔ باقی اقلیتوں کے لوگ تو اکا دکا، منظر بدلنے کے لیے کبھی کبھار پولیس کے ہاتھ لگتے ہیں۔۔

ہائی وے پر جگہ جگہ کیمرے اور گشت کرتی پولیس کے ہاتھوں ایسے لوگ جلد شکنجے میں آ جاتے ہیں۔ مزے کی بات تب ہوتی ہے۔ جب پولیس محض شک کی بنا پر کسی ایسی گاڑی کو روکتی ہے اور اس کے ڈرائیور سے پوچھ پرسید کرنے لگتی ہے۔ تو ان کا اس شخص سے پہلا سوال ہی یہ ہوتا ہے،
“کیا تم نے الکوحل پی رکھی ہے ؟”

تو وہ آدمی بڑی دیدہ دلیری سے پولیس والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مکر جاتا ہے کہ اس نے نہیں پی۔ حتٰی کہ اس کی آنکھیں نشے سے نشیلی ہو رہی ہوں، قدم لڑکھڑا رہے ہوں۔ نشے میں سارا جہاں جھوم رہا ہوں لیکن وہ جوتیوں سمیت پولیس والے کی آنکھوں میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے۔۔ اس بے دریغ جھوٹ پہ کئی پولیس والے مسکرانے لگتے ہیں اور چند ایک کا مزاج برہم ہونے لگتا ہے۔ تب وہ اگلی جسمانی کاروائی ڈال کر اس کے جسم میں الکوحل ہونے کا پتہ چلا لیتے ہیں اور شرابی کو ثبوت کے ساتھ بتانے لگتے ہیں کہ دیکھو ۔۔ مانو یا نہ مانو۔ لیکن تم نے پی رکھی ہے۔ تب شرابی اپنے گزشتہ بیان سے بالکل معمولی سا انحراف کرنے لگتا ہے اور انگوٹھے انگلی کے درمیان رتی بھر کا فاصلہ پولیس والے کو دکھا کر کہتا ہے کہ،
” بس اتنی سی پی ہے “
( ہنگامہ ہے کیا برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے )

لیکن اتنی سی پینے پر بھی وہ ٹریفک قوانین کی زد سے نہیں بچ پاتا اور اس پر لازمی کوئی نہ کوئی ایکشن، دفعہ ضرور لگتی ہے۔

شرابی کا مست جہاں میں جانے کا کوئی وقت نہیں۔۔ دن دیکھے نہ رات، نہ صبح دیکھے نہ شام، الف لیوی دنیا میں جا کر پریوں کا رقص دیکھنے کو ہر وقت تیار ۔۔

کل جرمن ٹی وی پر ایک ایسا ہی پروگرام دیکھ رہی تھی کہ۔۔!

دن دیہاڑے پولیس نے ایک جرمن شخص کو ہائی وے پر روکا جس نے پی رکھی تھی اور پینے سے صاف انکاری تھا۔ خیر پولیس والوں نے اپنی کاروائی ڈال دی اور اس کے سچ جھوٹ کا پتہ چلا لیا۔ اب وہ اسے اس حالت میں مزید گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دے سکتے تھے۔ سو انھوں نے اس آدمی کے گھر فون کر دیا اور اس کی بیوی سے کہا کہ وہ وہاں موقع پر آئے اور اپنے خاوند کو گاڑی سمیت لے جائے ۔۔
تقریبا آدھے گھنٹے بعد وہ جرمن عورت ان کے پاس پہنچ گئی۔ پولیس والے نے اس کے خاوند سے متعلق پوری کہانی اور اپنی کاروائی اسے بتائی اور اسے وہاں سے لے جانے کے لیے کہا۔ پولیس والا جب یہ سب اسے بتا رہا تھا تو وہ عورت بظاہر بغور سن رہی تھی لیکن نہ جانے کیوں پولیس والے کی چھٹی حِس تھی یا اس عورت میں اسے کوئی ایسی بات نظر آئی کہ اسے ایک بار پھر کاروائی ڈالنی پڑی۔۔۔

بات تو سچ تھی پر تھی ڈبل رسوائی کی۔۔
فرق صرف اتنا تھا کہ،
عورت نے ایک پیگ پی تھی اور مرد نے کئی پیگ چڑھا رکھے تھے۔۔۔۔
Kainat Bashir
About the Author: Kainat Bashir Read More Articles by Kainat Bashir: 27 Articles with 53248 views میرا نام کائنات بشیر ہے۔ میں کالم، انشائیہ، آرٹیکل، مزاح نگاری، افسانہ اور ہلکے پھلکے مضامین لکھتی ہوں۔ اس کے علاوہ وجد کے کچھ لمحات شاعری کی نذر کرنا.. View More