(اس مضمون کے واقعات و کردار
حقیقی نہیں بلکہ خیالی ہیں، مماثلت اتفاقی ہے)
جدید ہندوستان کی تاریخ میں ۳۰ مئی ۲۰۱۵ سنہری حروف میں لکھے جانے کا
حقدار ہے اس لئے کہ اس روزوزیراعظم عزت مآب نریندر مودی نے حلف برداری کے
۳۷۰ دنوں کے بعد پہلی مرتبہ سچ کہنے کی جرأت کی ۔ اس دن کی غیر معمولی
اہمیت اس لئے بھی ہے کہ ممکن ہے دوبارہ وہ ایسی غلطی کبھی نہ کریں یہاں تک
کہ ان کی مدت عمل ختم ہو جائے۔ چونکہ وزیراعظم کی کذب بیانیوں کے ٹھاٹیں
مارتے سمندر میں سے سچ کا موتی ڈھونڈ نکالنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں اس
لئے میں خود اس کی جانب اشارہ کئے دیتا ہوں ۔ مودی جی نے کہا ’’جو اچھے دن
آنے والے تھے آچکے‘‘ ۔ یہ مختصر سے کوزے میں سمندر سمایا ہواہے۔ اس کے
ایک معنیٰ تو یہ ہیں کہ مودی جی کے اپنےجو اچھے دن آنے والے تھے آچکے اب
ان کےاس سے بہتر دن نہیں آئیں گے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان کے سب سے
بڑےبھکت گوتم اڈانی کے بھی اچھے دن آچکے ہیں۔ جن کے خزانے میں ایک سال کے
اندر ۴۸ فیصد کا اضافہ ہوا اور جس طرح مودی جی سیاست کے میدان میں اول مقام
پر ہیں اسی طرح وہ بھی دھن دولت کے بازار میں پہلے نمبر پر پہنچ گئے۔تیسرا
اہم ترین مطلب یہ ہے کہ عوام اب اچھے دنوں کی توقع کرنا چھوڑ دیں ۔ فی
الحال جو دگر گوں صورتحال ہے مودی جی کے خیال میں وہی ان کے ’’ اچھے دن‘‘
ہیں ۔ اس سے اچھے دن اب نہیں آئیں گے۔
برے دنوں کے بارے میں مودی جی کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کے برے دن آچکے
ہیں اور وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ عوام کے برے دنوں کی بابت ان کی خاموشی گواہ ہے
کہ اب ان کے برے دن مودی جی کے ساتھ ہی جائیں گے۔ اس لئے کہ پہلے بے موسم
کی برسات نے تباہی مچائی اس کے بعد زلزلہ آ گیا ۔ زمین کے بعد سورج غضب
ناک ہو گیا اور دوہزار سے زیادہ لوگ جان بحق ہوگئے۔ موسم باراں کی آمد
آمد تھی محکمۂ موسمیات نے اعلان کیا کہ اس سال پھر قحط کا امکان ہے۔ مودی
جی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد یکے بعد دیگرے آسمانی آفات کا نزول ہو رہا۔
اس سے گھبرا کر جب حکومت میں ترقی کی شرح کم کی اور مہنگائی میں اضافہ کا
امکان ظاہر کیا تو حصص مارکٹ گرنے لگا۔ یونیٹیک جیسی بڑی کمپنی کے شیئر ۵۰
فیصد نیچے چلے گئے۔ ادھر شیئر بازار نیچے کی جانب اُدھر ڈالر کی قیمت اوپر
کی جانب چل پڑی۔ عالمی بازار میں تیل کی قیمتوں میں کمی پر اپنے آپ کو خوش
قسمت کہنے والے مودی جی بیچارے جائیں تو کہاں جائیں اس لئے اسرائیل کی جانب
چل دئیے۔
وزیراعظم کے اچھے دن والے بیان کو سن کر ماضی قریب کا ایک ایک منظر آنکھوں
میں گھوم گیا۔ وہ دن یاد آگیا جب شہر میں کمل چھاپ زعفرانی چائے کی دوکان
کے جلد ہی کھل جانے کا اعلان ہوا تھا۔ بڑی آب وتاب کے ساتھ قلب شہر میں
ایک بڑا سا بورڈ آویزان کردیا گیا تھا جس میں ایک جانب مرجھایا ہواکمل اور
دوسری جانب مسکراتے ہوئے چائے والے کی تصویر تھی۔ ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی
درج تھی کہ چند ماہ کے اندر جب یہ چائے خانہ کھل جائیگا تو سب مل کر یہاں
چائے پر چرچا کریں گے ۔ چائے مفت ملے گی بسکٹ کفایتی داموں پر فراہم کئے
جائیں گے۔ جن کی غذائیت اور ذائقہ ایسا ہوگا کہ لوگ کھانا بھول جائیں گے ۔
بھوک اور غربت کے مسائل اپنے آپ حل ہوجائیں گے۔ چائے بنانے کیلئے پتی ،
شکر اور ایندھن بیرونِ ملک جمع کالے دھن کی واپسی سے مہیا کی جائیگی۔ چائے
خانے کے باہر لگے لاؤڈ اسپیکر پر صبح کے وقت نمو نمو کےبھجن کیرتن، دوپہر
میں ترقی و خوشحالی کے پر جوش ترانےاور شام میں ڈسکو کے کیف آگیں نغمے
بجتے تھے۔ لوگ اس شور شرابے میں کچھ ایسےمدہوش ہوئے کہ گویا ایک سونامی چل
پڑی جس میں ہاتھ ، گھڑی ،سائیکل اور ہاتھی وغیرہ سب بہہ گئے۔
سونامی کا خمار اترا تو چائے خانے کی تعمیر کا آغاز ہوچکا تھا اور ایک سال
کی مدت کے بعد اس کا افتتاح بھی ہوگیا ۔ مفت چائے کی امید میں جب لوگ جوق
در جوق چائے خانے پر پہنچے تو دروازے پربندوق بردار ارون جیٹلی دربان بنے
کھڑے تھے اور سامنے لگے کاؤنٹر کی جانب اشارہ کرکے کہہ رہے تھے پہلے وہاں
سے کوپن لو پھر اندر جاو۔ لوگوں نے کہا تمہارا دماغ خراب ہے ہمیں توڈیڑھ
سال سےیہ بتایا جارہا ہے کہ یہاں زعفرانی کڑک چائے مفت میں ملے گی ۔ جیٹلی
بولے اس میں کیا شک ہے، چائے تو مفت ہی میں ملے گی مگر یہ تو اندر آنے کی
فیس ہے ۔ تم سے یہ تو نہیں کہا گیا تھا کہ اس چائے خانے میں داخلہ مفت
ہوگا۔ لوگ شش و پنج میں گرفتار ہوگئے ۔ ایک بولا لیکن بھائی کسی چائے خانے
میں داخلے کی فیس تھوڑی نا ہوتی ہے ۔ جیٹلی نے وکیلی انداز میں مسکرا کرکہا
لیکن کسی عام چائے خانے چائے مفت بھی تو نہیں ملتی ؟ دیکھو یہ بہت ہی خاص
چائے کی دوکان ہے ایک زمانے میں ملک کا وزیر اعظم یہاں چائے بنایا کرتا تھا
اور کوئی بعید نہیں کہ یہاں چائے پی کر کل کو تم بھی وزیراعظم بن جاو۔ یہ
سن کر بہت سارے لوگ خوشی خوشی کوپن کےکاؤنٹر کی جانب چل دئیے ۔
ایک بوڑھا کسان بھوپندر سنگھ بولا میں نے سنا ہے آئندہ ۲۵ سال مودی جی
سرکار چلائیں گے ۔ تب تک توہم مر کھپ جائیں گے ۔ جیٹلی نے کہا دیکھو اس قدر
مشکل سوالات کا جواب میں رٹ کر نہیں آیا ویسے چہرے سے تم کسان لگتے ہو؟
بھوپندر سنگھ نے تائید کی تو جیٹلی نے اسے وزیر زراعت رادھا موہن سنگھ کے
کمرے کی جانب کا حکم دیا۔ بھوپندر نے حیرت سے سوال کیا بیک وقت رادھا بھی
اور موہن بھی یہ مرد ہے یا عورت؟ جیٹلی نے چڑ کر کہا دیکھو ان دونوں کے
علاوہ ایک تیسری صنف بھی ہوتی ہےتم ایسا کرو کہ اپنے سوال کا جواب انہیں سے
معلوم کرو۔بھوپندر سنگھ رادھا موہن کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور اپنا پہلے
والا سوال دوہرا دیا۔ رادھا موہن بولےتمہاری دونوں باتیں درست ہیں ۔ مودی
جی نہ آئندہ ۲۵ سالوں تک کرسی چھوڑنے کا اردہ رکھتے ہیں اور نہ تمہارے ۲۵
سالوں تک جینے کا کوئی امکان ہے لیکن تم اپنی اولاد کے بارے میں کیوں نہیں
سوچتے وہ اگر یہاں کی زعفرانی کڑک چائے پئیں گے تو ممکن ہے مودی جی کی طرح
وزیراعظم بن جائیں ۔
بھوپندر نے کہا لیکن اگر وہ وزیراعظم بن جائیں گے کھیت میں ہل کون چلائے گا
اناج کون اگائے گا؟ رادھا موہن بولے ہمارے وزیراعظم بہت تیز آدمی ہیں وہ
ساری دنیا کا دورہ کرکے اناج باہر سے درآمد کرلیں گے ۔ تمہیں اس کیلئے
پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ رادھا موہن کی بات سن کر کسان حیران
رہ گیا وہ بولا جناب اگر ہم لوگ کھیتی نہیں کریں گے تو کیا کریں گے؟ رادھا
موہن بولے تم لوگ بھی عیش کروگے جیسا کہ ہم کررہے ہیں ۔ بھوپندر نے کہا
لیکن وقت گزاری کیلئے کچھ تو۰۰۰۰رادھا موہن بولےبھئی اس چائے خانے میں آکر
چائے پیو، صبح کے وقت بھجن ، دوپہر کو۰۰۰۰۰۰۰۰بھوپندرنے جملہ کاٹ کرکہا
صاحب گزشتہ ڈیڑھ سال سے یہ سب ہم لوگ بغیر اندر آئے باہر ہی باہر سن رہے
ہیں۔ اس کیلئے کوپن لے کر اندر آنے کی کیا ضرورت؟
رادھا موہن بولے چونکہ ہم لوگ پہلے باہر تھے اس لئے آپ لوگوں کا منورنجن
باہر ہی باہر کردیا کرتے تھے لیکن اب ہم اندر آگئے ہیں اس لئے باہر کا
لاؤڈ اسپیکر جلد ہی بند کردیا جائیگا اور ان دلفریب نغموں سے محظوظ ہونے
کی خاطر اندر آنالازمی ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ ان ڈیڑھ سالوں میں جو لت لگ
چکی ہے وہ تمہیں چین سے بیٹھنے نہیں دے گی بلکہ کھیت ، کھلیان اور گھر ہر
جگہ سے یہاں کھینچ کر لے آئیگی ۔ بھوپندر نے کہا وہ ٹھیک ہے مگر یہ ٹکٹ کا
کیا چکر ہے؟ رادھا موہن بولےبھئی دیکھو دنیا میں کوئی چیز مفت میں نہیں
ملتی کیا تم اپنا اناج مفت کے اندر بازارمیں ڈال آتے ہو؟ بھوپندر لاجواب
ہو گیا وہ بولا لیکن جناب ڈیڑھ سال سے تو ۰۰۰۰۰۰۰ رادھا موہن بولے بھائی
نمونے کا وہ مفت اشتہار عارضی تھا لیکن مستقل طور پر بلا قیمت بھلا کیا
ملتا ہے؟
کسان بولا جی سرکار سمجھ گیا لیکن اگر ہم کھیتی نہیں کریں گے تو ہماری زمین
بنجر ہو جائیگی ۔ رادھا موہن نے کہا جی نہیں ایسا نہیں ہوگا ۔ سرکار آپ
لوگوں سے زمین خرید کر صنعتکاروں کو مہیا کردے گی تاکہ وہاں کارخانے لگائے
جا سکیں ۔ کسان بگڑ کر بولاہم اپنے باپ دادا کی زمین سرکار کوکیوں دیں گے
بھلا؟ کیا آپ سمجھتے ہیں ہم یہ سب ہونے دیں گے؟ رادھا موہن مسکرا کر بولے
کیسے نہیںہونے دو گے؟ تم کون ہوتے ہو روکنے والے؟ بھوپندر بولا ہم! اس
دھرتی کے مالک ہیں ۔ سرکار کون ہوتی ہے ہم سے زمین چھین کر صنعتکاروں کو
دینے والی اور ان سرمایہ داروں کی کیا مجال کہ وہ ہماری زمین پر اپنے
کارخانہ لگائیں؟
رادھا موہن نے جب بھوپندر کے یہ تیور دیکھے تو آگ بگولا ہو گئے۔ وہ بولے
تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو اور سرکار کو کیسے روک سکتے ہو؟ ہم اس کیلئے
تحویل اراضی کاقانون بنائیں گے اور اگر آپ لوگوں نے اس قانون کی خلاف ورزی
کی تو پولیس آپ سب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دے گی۔ رادھا موہن نے
دیکھا بھوپندر کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ اس کا کام ہو چکا تھا اب وہ
اپنا لہجہ نرم کرکے بولا اچھا تو بھوپندرسنگھ ذرایہ بتاو کہ کیا کوئی اپنی
زمین جیل میں ساتھ لے کر جاسکتا ہے اور وہاں کھیتی باڑی کرسکتا ہے؟رادھا
موہن کی دھمکی سن کر کسان ترقی و خوشحالی کے سارے ترانے بھول گیا ۔ اس بیچ
رادھا موہن کے ایک دست راست نے آکر بھوپندر کے کان میں کہا چودھری صاحب اس
زعفرانی چائے کا خیال اپنے دل سے نکال دو۔اگر چائے پر یہ چرچا اسی طرح جاری
رہی تو کوئی بعید نہیں کہ رادھا موہن آپ کو ملک بدر کرکےپاکستان روانہ
کردیں ۔ |