ایشیا ہو شیار!اسرائیلی مصنوعات میں زہر ہے!!

۱۹۴۸ء میں اپنے ناجائز وجود کے بعد سے اسرائیل دنیا کا امن غارت کر نے پر کمربستہ ہے اس نے جہاں ممکن ہوا ہتھیاروں سے دنیا میں بد امنی پھیلائی اورانسانیت دشمن عناصر کی پرورش کر کے انسانوں کا جینا مشکل کیا ۔ جہاں ممکن ہوا اپنے ناپاک ارادوں اور زہریلے کھانوں کے ذریعے دنیائے انسانیت کے خلاف گہری،گھناؤنی اور دردناک سازش رچی۔اس حقیقت سے کسے انکار ہو سکتا ہے کہ اپنے غیر مناسب قیام کے وقت سے ہی اسرائیل کی یہ کوشش رہی ہے کہ دنیا پر اس کا مکمل قبضہ ہو جائے اور دنیا اس کے ریموٹ سے چلے۔ہنسے تو اس سے پوچھ کر ۔روئے تو اس کی مرضی سے۔جینے کے لیے اس کی اجازت چاہیے اور مرنا اس سے بغیر پوچھے ممکن ہی نہیں ۔کس ملک کی ترقی کے منصوبے کیا ہوں ،معاشی لین دین،سماجی ، سیاسی و ثقافتی پلاننگس کیسے طے کی جائیں ان میں اسرائیل کی منظوری ضروروہو گی۔دنیا کیا دیکھے گی اور کیسے یہ اسرائیل کی منشا سے طے ہو گا۔پھر دنیا نے بھی اسے مانا اوراسرائیل کے سامنے سر جھکا دیا ۔ جب تمام دنیا اس کا کھلونا بن گئی اور ان کی خودی و خود مختاری و آزادی سلب ہو گئی تو پھر اسرائیل کیوں پیچھے رہتا اس نے اس موقع کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے مذموم سے مذموم اور گری سے گری حر کتیں کیں ۔اس نے بڑی چالاکی سے دنیا کو اپنا گرویدہ کر نے کے لیے ٹیکنا لوجی سے لے کرتفریح،کھیل کود،مشروبات اور کھانے پینے کی چیزیں اورعوامی دلچسپی کے تمام اسباب تک اسرائیل نے زندگی کے تمام شعبوں سے جڑی مصنوعات دنیا کو دی اور ان کی آڑ میں اپنی مذموم اور گھناؤنی سازش رچی اور ناپاک مقصد گڑھایعنی انسانیت کی تباہی کا خطرنا ک منصوبہ ان کے پیچھے بنایا تھا جس میں اسے کامیابی بھی ملی اور وہ آج اپنی اس کامیابی پر تالیاں بجا رہا ہے۔کتنا بے شرم اور بے حیا ہے اسرائیل !نہ اسے اپنے کیے پر ملال ہے او ر نہ ہی اس کی مغرور پیشانی پر بل آئے ہیں۔
جس وقت میں یہ تحریر سپرد قرطاس کر رہا ہوں پوری دنیا میں اسرائیلی ادارے ’’نیسلے انڈیا/ایشیا‘‘Nestle India/ Asia کی سب سے پسندیدہ اور مشہور صنعت میگی میں پائے جانے والے زہیریلے اور قاتل مادوں کا معاملہ سرخیوں میں ہے ۔ہر اخبار اسے اپنی پہلی خبر بنا رہا ہے اور قلم کار اس پر رائے زنی کر رہے ہیں ۔اس کا سبب یہ ہے کہ میگی پر یکے بعد دیگرے ہندوستان کی ریاستوں میں پابندیاں لگتی جارہی ہیں اور ان کے مشتہرین ’’امیتابھ بچن،مادھوری دیکشت اور پرینکا چوپڑا وغیرہ پر مقدمے درج ہو چکے ہیں ۔

کہنے کو یہ تو معمولی سا واقعہ ہے مگر اس پرگویا پورے ملک میں بوال مچا ہوا ہے ۔فاسٹ فوڈ کے رسیا لوگ آج میگی سے اس طرح بھاگ رہے ہیں جیسے موت سے بھاگتے ہیں۔انھیں ’’دومنٹ‘‘کسی کھانے اور بات کے لیے رکنے کے لیے کہنے پر لگتا ہے کہ کہیں میگی تو نہیں تیار ہو رہی ہے۔اسرائیل کی یہ مذموم حرکت آج سب کے سامنے ہے اس لیے میگی سمیت اسرائیل کی دیگر مصنوعات سے بھی کنارہ کشی کی جارہی ہے اور ان پر پابندیوں کا مطالبہ کر نے کے لیے منصوبے بن رہے ہیں ۔ مگریہ آج کا ہی المیہ نہیں ہے بلکہ اسرائیل تو روز اول سے ہی ایسے خطرناک منصوبے لے کر پنپتا رہا ہے اور اس نے نہ معلوم کتنے معصوموں کی جان لی ہے جس کا اسے افسوس تک بھی نہیں ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ بالخصوص ہندوستان ایشیا کو تو اسرائیل کی تمام مصنوعات سے نہ صرف ہو شیار ہو نا ہے بلکہ کلّی طور پر بائیکاٹ کر دینا ہے ۔اس لیے کہ اسرئیل کی فطرت میں ہمیشہ سے ہی دھوکہ بازی ہے،وہ چند روز کے لیے اپنے خطرناک منصوبے روک سکتا ہے اس کے بعد وہی دن ہو ں گے اور وہی راتیں اور وہی اسرائیلی مصنوعات کی آڑ میں معصوموں کا قتل عام و خونریزی ۔ان معصوموں کی تباہی کا خون کسی کی گر دن پر نہیں ہو گا نہ کوئی عدالت ان کے قتل ناحق کی تفتیش کر ے گی اور نہ کسی پر مقدمہ چلے گا اور اسرائیل کا ازلی مقصد حاصل ہو جائے گا۔ایشیا سے میں خصوصی طور پر اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہماری نس نس میں یورپی اور اسرائیلی تقلید اور معاشرت و فیشن اسی طرح و تہذیب و تمدن کاخون سرایت کر چکا ہے۔جو کچھ وہاں ہو رہا ہے اسے اپنائے بغیر ہمارا اسٹیٹس خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔اسے اپنانے اور اختیار کر نے کے لیے ہم اپنی روایات کا بھی گلا مروڑ دیتے ہیں اور اپنی اقدار کی دھجیاں بڑی بے رحمی سے بکھیر دیتے ہیں ۔کتنی افسوس ناک بات ہے کہ یورپ و اسرائیل تو ہماری ایک چیز بھی نہیں اپنا تا اور ہم ہیں کہ کوئی تل نہیں چھوڑتے ۔

خیر اس وقت یہ ضروری نہیں کہگلے شکوئے کر یں اپنے کارواں کے لٹنے پر روئیں ،ہاں! احساس زیاں توباقی رکھنا ہے۔!!آج ضروری تو یہ ہے کہ ہم اسرائیل کے ظالم ارادوں سے محفوظ رہنے کی تدبیر کریں اور اس کی مصنوعات سے بالکلیہ طور پر بائیکاٹ کر یں۔کوکا کولا ۔اسپرائیٹ۔میگی۔لیوی۔کس کس کا نام لیا جائے ۔لا تعداد اسرائیل کی زہریلی مصنوعات گاؤں گاؤں کی تک پھیلی ہو ئی ہیں ۔جن کے ذریعے اسرائیل نے ایشیائی قوم کے بچوں ،بڑوں ،نوجوانوں اور عمر درازوں سب کوجکڑنے کی کوشش کی ہے۔اس کا مقصد بھی برآیا ۔آج کے بچے چاؤ مین،میگی،نوڈلس وغیرہ کے بغیر بے کار زندگی تصور کر تے ہیں ۔بعینہٖ یہی حال بڑوں اور نوجوانوں کا بھی ہے ،ان کے کھانے کی ٹیبل پر اگر یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔

قدامت کے پرستارو ں نے جدید یت کو اسی لیے خطرناک کہا تھا کہ اس کی آڑ میں دنیا کی فسادی اقوام گھناؤنا کھیل کھیلیں گی مگر اس وقت اس کے علمبرداروں کو ان بزرگوں کی باتیں ازکار رفتہ اور کوڑے دان میں ڈالنے کے لائق ہی لگیں،انھوں نے ایسا ہی کیا اوربزرگ ناخلف نسل کی ضد اور ہٹ دھرمی کے صدمے سے ہی دم توڑ گئے۔ آج جدید یت والے جب خود بھی بوڑھے ہو چکے ہیں اور ا ن کی نسل ان کا سرپھوڑے دے رہی ہے تو یہ افسوس سے ہاتھ ملتے ہیں ۔بزرگوں کی صورتیں یا د کر کے ان کی قبروں سے معافی مانگتے پھرتے ہیں ۔

ایشیا کے لیے اب ہو شیار ہو نے کا وقت آگیا ہے ورنہ اس کا بھی عربوں کے جیسے ہو گا ۔عرب آج اپنا دفاع بھی کر نے کی حالت میں نہیں ہے یہ سب اسرائیل کا کیا دھرا ہے اور اسی کا کالی کرتوت کا نتیجہ ہے۔ورنہ عربوں کا ماضی جفاکشی ،محنت ،ہمت ،خودداری اور شجاعت و بہادری کا عنوان تھا ۔ اگر ایشیا چاہتا ہے کہ اس کی بچی کھچی روایات سلامت رہیں تو اسے اولین فرصت میں ہی آگاہ ہو نا ہو گا اور اسرائیلی مصنوعات کو نہ صرف سے گھروں سے بلکہ دیس سے ہی نکالا دینا ہو گا ورنہ ان کی قسمت اور تقدیر کوئی نہیں بد ل سکتا۔یہی وقت ہے جاگنے اور خبر دار ہو نے کا ورنہ یہ نیند بس صور اسرافیل سے ہی ٹوٹے گی او راس وقت ایشیا کھنڈر بن چکا ہوگا۔ اسرائیلی شیطان قہقہے لگا رہا ہو گا۔

احساس
اب وقت آگیا ہے کہ بالخصوص ہندوستان ایشیا کو تو اسرائیل کی تمام مصنوعات سے نہ صرف ہو شیار ہو نا ہے بلکہ کلّی طور پر بائیکاٹ کر دینا ہے ۔اس لیے کہ اسرئیل کی فطرت میں ہمیشہ سے ہی دھوکہ بازی ہے،وہ چند روز کے لیے اپنے خطرناک منصوبے روک سکتا ہے اس کے بعد وہی دن ہو ں گے اور وہی راتیں اور وہی اسرائیلی مصنوعات کی آڑ میں معصوموں کا قتل عام و خونریزی ۔ان معصوموں کی تباہی کا خون کسی کی گر دن پر نہیں ہو گا نہ کوئی عدالت ان کے قتل ناحق کی تفتیش کر ے گی اور نہ کسی پر مقدمہ چلے گا اور اسرائیل کا ازلی مقصد حاصل ہو جائے گا۔ایشیا سے میں خصوصی طور پر اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہماری نس نس میں یورپی اور اسرائیلی تقلید اور معاشرت و فیشن اسی طرح و تہذیب و تمدن کاخون سرایت کر چکا ہے۔جو کچھ وہاں ہو رہا ہے اسے اپنائے بغیر ہمارا اسٹیٹس خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔اسے اپنانے اور اختیار کر نے کے لیے ہم اپنی روایات کا بھی گلا مروڑ دیتے ہیں اور اپنی اقدار کی دھجیاں بڑی بے رحمی سے بکھیر دیتے ہیں ۔کتنی افسوس ناک بات ہے کہ یورپ و اسرائیل تو ہماری ایک چیز بھی نہیں اپنا تا اور ہم ہیں کہ کوئی تل نہیں چھوڑتے ۔
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62253 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More