اُوہ!!! اُوہ!!! بیٹا ،
مجھے کیا ہُوا؟ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر ماں زمین پر گِر پڑتی ہے۔ بیٹے
اپنی ماں کو دیکھ کر اُس کی طرف تیزی سے لپکتے ہیں ۔ماں بدستوراپنے سینے پر
ہاتھ رکھی ہوتی ہے۔بڑا بیٹا اپنی ماں کا ہاتھ سینے سے ہٹاتی ہے۔تو اندازہ
ہوتا ہے کہ سینے پر ہوائی گولی لگی ہے۔جس کی وجہ سے اُس بچاری کے سینے سے
خون بھی نکلنے لگتی ہے۔گولی کس نے چلائی اور کون اِس کے لپیٹ میں آیا؟ اس
سوال کا جواب گولی اور بندوق نہیں دیتا۔بلکہ اس کیلئے وہ اِنسان جواب دِہ
ہے ۔ جو اس بے جان چیز کو آلہ زخم یا آلہ قتل کا نام دیتے ہیں۔اور اس کے
اندرڈالے گئے بارودی ٹیبلٹ کو ــــہوائی گولی کا نام دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے مزاج کچھ یوں بن گئے ہیں ۔کہ اگر انتخابات میں کامیابی
حاصل ہوتو فائرنگ۔ کرکٹ کے میدان میں کامیابی حاصل ہو تو آسمان کی سمت بے
دھڑک گولیاں برسانا شروع کرتے ہیں۔شادی کا پروگرام ہو تو ساری رات فائرنگ
سے پورا علاقہ گونجتا رہتا ہے۔خوشی کے لمحات میں ہم اِتنے بے قابو ہو جاتے
ہیں ۔ کہ ہم مٹھائی بعد میں تقسیم کرتے ہیں ۔ پہلے ہم فائرنگ کرنا لازم
سمجھتے ہیں ۔یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ میری خوشی کی ایک فائرنگ سے کسی کا گھر
ماتم کدہ بن سکتا ہے۔مادیت پرستی اِتنی غالب آ گئی ۔کہ اپنی خوشی اور
کامیابی دوسرے اِنسان کیلئے وبالِ جان بن گئی۔
بلدیاتی انتخابات نے گھر گھر اور قریہ قریہ نفرتوں اور عدم برداشت کو اِتنی
تقویت دی۔ کہ منتخب نمائندوں کو کامیاب تسلیم کرنا درکنار۔ عوام آپس میں
ایک دوسرے کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔یہ سلسلہ عدم برداشت کا شدید سے
شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔جب تک ہمارے پارٹی رہنما ایک دوسرے پر کیچڑ
اُچھالیں گے۔ایک دوسرے کیخلاف نازیبا الفاظ کَسیں گے۔سیاست سے ہٹ کر ایک
دوسرے کی ذات پر لعن طعن کہیں گے۔آپس میں ایک دوسرے کے خلاف میڈیا میں بے
بنیاد پروپیگنڈہ مہم چلائیں گے۔ تو عین اسی لمحات نفرتو اور کدورتوں کی
زہریلی کونپلیں کھلنی شروع ہو جاتی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے بہت سے
نئے لوگ سامنے آ گئے ہیں۔نئی سیاسی نرسری میدانِ سیاست میں داخل ہو گئی
ہے۔جب سیاست میں پارٹی رہنماؤں کا وطیرہ غیر سیاسی اور غیر مہذب ہو جاتا
ہے۔تو یہ نئی نرسری بھی آپس میں ایک دوسرے کو دیکھنا گوارہ نہیں کرتے۔جو کہ
مستقبل کی نئی لیڈرشپ کیلئے نیک شگون نہیں ہے۔
بلدیاتی اِنتخابات میں چونکہ گاؤں گاؤں اور شہر شہر نمائندوں کا چُناؤں
ہوتا ہے۔اِس مرتبہ اِنتخابات میں سات قسم کی نشستیں شامل تھیں۔پھر ہر یونین
کونسل کے اندر ہر ایک نشست کیلئے تقریباََ پانچ تا دس اُمیدواران مقابلہ
آزما تھے۔تو یوں ویلج، یونین کونسل اور پورے صوبے کی سطح پر اِنتخابات کے
دوران بدامنی، لاقانونیت اور لڑائی جھگڑوں کا ہونا لازمی امر تھا۔اس حوالے
سے ۳۰ مئی سے پہلے بھی میں نے لکھا تھا۔کہ چونکہ عام انتخابات ۲۰۱۳ کے
انعقاد پر سب سے زیادہ شور تحریک انصاف نے ہی مچایا تھا۔بلدیاتی انتخابات
کے فوراََ بعدوہی دھاندلی کا شور اوردھرنوں کا ردِ عمل صوبائی حکومت کی
تھوڑی سی کمزوری پر سامنے آئے گی۔ ساری پارٹیاں بشمول حکمران پارٹی کے کچھ
بِدکے ہوئے گھوڑے اِن لمحات کو کیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔اس غرض
سے ضروری بنتا ہے۔ کہ انتخابات کیلئے پورے صوبے کو کئی زونز میں تقسیم کر
دیا جائے۔ اور مختلف دنوں میں اِنہی زونز کے اندر انتخابات کرائی جائیں۔اس
عمل سے ایک تو الیکشن کمیشن کیلئے نتائج تیار کرنے میں آسانی ہوتی۔اور
بدامنی و لاقانونیت پر کنٹرول میں آسانی ہوتی۔
اب چونکہ وہی پرانے روایتی انداز میں انتخابات ہوئے ۔بدامنی کی تخلیق اور
انتخابی دھاندلی میں سب پارٹیوں اور آزاد اراکین نے اپنی استطاعت کیمطابق
حصہ ڈالاہے۔ اور دھاندلی کا ملبہ صرف پی ٹی آئی پر ڈالا جا رہا ہے۔اگر
مغربی جمہوریت کے تحت بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینا تھے۔ تو اہلِ مغرب کی
ایک چیز میں تقلید تو کرو۔وہ یہ کہ اُن کی طرح ایک دوسرے کو برداشت کرو۔
اور جیت کو تسلیم کرتے ہوئے سڑکیں بند کرنے کی بجائے جیتنے والے کو
مبارکباد دو۔
بلدیاتی انتخابات چونکہ پارٹی بنیادوں پر ہوئے۔ اس کا ایک لحاظ سے میں
مخالف ہوں ۔ وہ یہ کہ ایک یونین کونسل میں ایک ہی پارٹی کے کونسلر زجیت
جائے تو وہ اپنی ہی پارٹی کے کارکنان کی خدمت کرتے ہیں ۔ باقی لوگ پانچ سال
کیلئے اپنی ہی بھاری کا انتظار کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پارٹی کارکنان
انتخابات کے دن لڑائی جھگڑوں پر اُتر آتے ہیں۔ اب تو حال یہ ہے۔ کہ
انتخابات لڑناکسی شریف آدمی کے بس کی بات نہیں رہی۔بلکہ انتخابات کے دوران
جو اُمیدوار زیادہ غُنڈہ گردی کرے۔ زیادہ سے زیادہ ٹپے لگائیں۔ انتخابی
عملہ کے ساتھ گالی گلوچ کرے۔ اور اُس کو یرغمال کرکے مطلوبہ نتائج کیلئے
بیلٹ باکسز لے جائیں ۔وہی کامیاب امیدواربن جاتے ہیں۔
انہی الیکشن میں پارٹیوں کی بھی یہ حال تھی۔ کہ دو ، تین پرانی پارٹیاں
انتہائی دھاندلی اور غُنڈہ گردی کے باوجود بھی مطلوبہ نشستوں کی تعداد حاصل
نہ کر پائے۔ جس کا رونا وہ سڑکوں پر رو رہے ہیں۔ دوسری طرف حکمران پارٹی
تحریک انصاف بھی جو کلین سویپ کے خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ سپنے بھی محض سراب
رہ گئے۔ پہلے بلا شرکتِ غیر ضلعی حکومتیں بنانے کا سوچ رہے تھے۔ اب
بیشتراضلاع میں جوڑ توڑ کیلئے تک و دو میں لگے ہوئے ہیں ۔ وجہ بھی صاف ظاہر
ہے۔وہ یہ کہ صوبائی حکومت میں نو وارد سیاستدانوں کی بیشتر شعبوں میں
کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔ اگر پرویز خٹک اینڈ کمپنی کی کارکردگی کا تسلسل
یوں رہا۔تو پھر اس کا حشر بھی باقی پارٹیوں جیسا ہوگا۔
میرے اپنے سارے پشتون بھائیوں اور بہنوں سے عاجزانہ درخواست ہے۔ کہ
انتخابات گزر گئے ہیں۔جن امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالنے تھے۔وہ کامیاب ہو
گئے یاناکام۔اب لڑائی جھگڑے، احتجاج، دھاندلی کے الزامات، عدالتوں کی رسہ
کشی، ووٹ کی پرچی حمایت میں نہ ڈالنے پر کینہ اور قطعہ تعلق جیسی باتوں کو
جگہ نہ دیں۔ آپس میں پھر سے شیر و شکر ہو جائے۔اور شیطان لعین کو اپنے بیچ
جگہ نہ دیں۔ ساری رنجشیں ختم کر دیں ۔ایک پرچی کے بدلے دوستی اور خون کے
رشتوں کا بائیکاٹ نہ کریں۔کیونکہ اگر یہی حالت رہی۔ تو یہ رنجشیں اور
دوریاں بڑھتی جائیگی۔ جو بڑی نقصان کی بات ہوگی۔ |