مردانہ جعلی دوائیں بیچنے کے طریقے اور انکے اثرات

آجکل جگہ جگہ دیواروں پر اور اخباروں میں لگے مردانہ دواؤں کے مختلف قسم کے اشتہائی اشتہارات اور کمزوری کی وجوہات دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہر بندہ ہی خدا نخواستہ اس بیماری کا شکار ہو گیا ہے یا ہونے والا ہے۔حال ہی میں استادِ محترم جناب عطاء الحق قاسمی صاحب نے اسی طرح کا ایک آرٹیکل لکھا ہے جس میں کہ ایک بندہ یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ مجھ میں ہر مریض کی سی خوبیاں یا علامتیں پائی جاتی ہیں تو لہذا میں بھی ہمہ قسمی مریض ہوں۔ اسی طرح جو بکواس اور گھٹیا لفاظی ان مذکورہ اشتہارات میں بیان کی جاتی ہے تو انہیں پڑھ کر لگتا ہے کہ واقعی ہر بندہ اس مرض کا مریض ہے۔ اکثر ٹی وی چینل پر تو ان دواؤں کے نازیبا قسم کے پریکٹکل اشتہارات بھی چل رہے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر بندہ شرم سے ۔۔۔۔ ہو جائے۔

بہرحال ! ان دواؤں کو بیچنے کے لیے مختلف قسم کے طریقے آزمائے جارہے ہیں۔ مثلا: اشتہارات کے ذریعے لوگوں کو قائل کرنا ، بینڈ بل، پمفلٹ کے ذریعے، ٹی وی اشتہارات کے ذریعے، اخبارات کے ذریعے، درو دیوار کالے کرکے یا مداریوں کے ذریعے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ اب ان اشتہارات کی ورڈنگ دیکھیے کہ ۔ پہلے حکماء حضرات مہینوں مرض کا علاج کرتے تھے پھر کہیں جا کر بندہ ٹھیک ہو تا تھا۔ پر اب کے نام نہاد حکیم اور ڈاکٹر حضرات اتنے ایڈوانس ہو چلے کہ ایک رات میں ہی یہ قوت بحال کرنے کی دوائیں شد و مد کے ساتھ بیچ رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ ایک جن بھی ساتھ دیتے ہیں جو یہ کام اتنی جلد کر دیتا ہے۔ اور ساتھ میں عجیب و غریب قسم کی گارنٹیاں بھی دیتے ہیں کہ، مرض دوبارہ نہ ہونے کی گارنٹی، دوبارہ دوائی نہ کھانے کی گارنٹی، منی بیک گارنٹی ، شرطیہ گارنٹی وغیرہ وغیرہ ۔جیسے کہ پرانے زمانے میں انجمن کی فلموں کے ساتھ لکھا ہوتا تھا کہ شرطیہ نئے پرنٹ کے ساتھ۔ مزید لکھتے ہیں کہ: فلاں حکیم صاحب فلاں والے۔ فلاں حکیم صاحب ماہر امراضِ مخصوصہ اور جنسی مسائل، ماہر فلاں فلاں۔۔۔۔۔۔۔۔ گولڈ میڈلسٹ (جیسے کہ گولڈ میڈل اسکے ابا بانٹتے ہوں) ۔ ڈاکٹر فلاں فلاں ممبر آف بورڈ آف سیکسولوجی، یو ایس اے، ڈاکٹر فلاں، فلاں ، ڈپلومیٹ یا ممبر امر یکن ایسوسی ایشن آف سیکسولوجی وغیرہ ۔ ممبر تو ایسے لکھتے ہیں کہ جیسے ایک زمانے میں ہمارے ہاں بھی بی ڈی ممبر ہوا کرتے تھے۔شاید ایوب خان کے زمانے میں ؟ کئی حکما ء اور ڈاکٹر حضرات کی تو اتنی ڈگریاں لکھی ہوتی ہیں کہ شک ہوتا ہے کہ واقعی انہوں نے بھی یہ ایگزیکٹ axact والوں سے ہی نہ خریدی ہوں۔ آجکل ہر اتوار کے اخبارات میں ایک اشتہار بڑی باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے کہ : ڈاکٹر ۔۔۔۔۔ فلاں رام۔۔۔۔ ماہر امراضِ گردہ اور جگر فرام ممبئی یا دلی ہسپتال مریضوں کا معائنہ کر کے ٹرانسپلانٹ کے لیے انڈیا لے جائیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ کیونکہ جعلی ادویات سے گردے اور جگر جلد ناکارہ ہوجاتے ہیں تو یہ ہمارے پاکستانی جعلی حکیم اور ڈاکٹر حضرات ان انڈین بنیوں کی مدد کر رہے ہیں۔کیا خیال ہے آپکا۔

ہمارے للو میاں کے با رے میں تو آپ سب جانتے ہی ہیں اور ان کے کارناموں سے بھی واقف ہیں کہ جنہیں ہر کام میں پنگا لینے کی عادت ہے، تو وہ بھی آئے روز کی ان مشہوریوں سے متا ثر ہو کرایک روز ایک نیم فاقہ کش، دھان پان سے حکیم صاحب کے کلینک پر پہنچ ہی گئے اور پھر کیا ہوا، آئیں دیکھیں:

للو میاں: حکیم جی! مجھ سے غلطی ہوگئی ہے کہ میں نے شادی کر لی ہے۔مگر اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
حکیم جی: کوئی بات نہیں بیٹا! یہ غلطی میں نے بھی کی تھی اور قسمت نے مجھے حکیم بنا دیا۔شاید آپ جیسوں کی خدمت کے لیے ہی!

بہرحال! لاؤ ذار نبض چیک کراؤ۔ حکیم صاحب نے کافی دیر تک للو میاں کی نبض کو مختلف زاویوں سے ایسے ٹٹول ٹٹول کر چیک کیا جیسے قصائی جانور دیکھتاہے اور بتایا کہ اصل میں آپ کی فلاں۔۔۔۔؟ رگ دب گئی ہے جسکی وجہ سے آپ فلاں بیماری کا شکار ہیں ۔ اسکے علاوہ آپ کا جگر ٹھیک کام نہیں کر رہا، آپ کی تلی بڑھی ہوئی ہے، معدے میں گرمی ہے۔جگر پر چربی ہے، بھوک نہی لگتی ، آپ سوچتے بہت ہیں۔ فکر اور پریشانیاں بہت زیادہ ہیں، نیند نہیں آتی، کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اسی لے آپ جسمانی طور پر کچھ کمزور بھی ہیں اور قوتِ مدافعت کی بھی کمی ہے۔ للو میاں نے اپنے بارے میں اتنی بہت سی بیماریاں سنیں تو سنکر چکرا سے گئے اور سوچنے لگے کہ یار میں اتنی بیماریوں کے باوجود اتنے عرصے سے جی رہا ہوں تو مزید ایسے جینے میں کیا حرج ہے؟؟۔ خیر !حکیم صاحب مزید گویا ہوئے کہ میاں گھبرانے کی کوئی بات نہیں ، سب کچھ ٹھیک ہو جائیگا۔ یقین نہ آئے تو میرے مطمئن کسٹمرز کی لسٹ دیکھ لو یا پھر یہاں لگا رش دیکھ لو۔

خیر جناب! کافی بحث و مباحثے اور اطمینان دلانے کے بعد للو میاں کو حکیم صاحب نے ایک ڈبی معجون، ایک ڈبی پھکی، ایک ڈبی کیپسول، ایک بوتل شربت، اور ایک چٹنی ٹائپ کی چیز دی اور اسکی تراکیب ِ استعمال اور اوقاتِ کار بھی گوش گزارکر دیے کہ کیسے کیسے کب کب کیا استعمال کرنا ہے۔ للو میاں نے انتہائی پریشانی کے عالم میں یہ آدھا درجن دوائیں لیں اور گھر کی تیز تیز راہ لی کہ کہیں راستے میں اندھیرا ہوجائے اور کتے پیچھے نہ لگ جائیں۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ یہ اتنی بہت سی دوائیں رکھی کہاں جائیں اور کھائی کیسے جائیں کہ بیگم کو بھی پتہ نہ چلے کہ وہ انکوائری کرنے بیٹھ جائے کہ تو کس مرض کی دوا کھا رہا ہے ؟۔ انتہائی سوچ بچار کے بعد یہ طے پایاکہ بیگم کو یہ بتا یا جائے گا کہ یہ معدے کی کمزوری کی دوا ہے۔ لو جناب ! بیچارے للو میاں نے ابھی پہلی ہی خوراک داخلِ معدہ کی تو انہیں رات میں سورج اور دن میں چاند نظر آنے لگا ۔ منہ خشک ، گلا خشک ، ناک بند ، سانس لینا مشکل وغیرہ وغیرہ۔ کئی کلو دودھ چڑھاگئے پر دواؤں کی خشکی ختم نہ ہوئی، کئی جگ پانی پیا پر کوئی افاقہ نہ ہوا۔اوردیگر بہت سے ٹوٹکے کیے پر منہ کی خشکی ختم نہ ہوئی۔ جیسے حرام خوروں کی حرام خوری کبھی ختم نہیں ہوتی۔ خیر جناب ! للو میاں نے بتایا تو کسی کو کچھ نہیں اور بر داشت کر گئے۔ اگلی خوراک پر پھر وہی حال ہوا تو پھر بھا گم بھاگ اسی نیم حکیم کے پاس پہنچے اور اسے اپنی کہانی گوش گزار کی۔ حکیم صاحب نے کہانی سن کر مزید تسلی دی کہ بس ایک ہفتہ مزید دوا کھاؤ پھر آنا، تاکہ دوا کے اثرات بہتر پتہ چل سکیں ۔ لیں جناب !للو میاں نے دوبارہ دوا استعمال شروع کی تو اب کی بار جسم پر چھالے بننے شروع ہو گئے۔ پھر بھاگم بھاگ پریشانی کے عالم میں شکایت لیکر حکیم صاحب کے پاس پہنچے۔ حکیم صاحب نے پھر تسلی دے دی کی میاں کوئی فکر کی بات نہیں جلد ٹھیک ہو جاؤ گے۔ دوا ٹھیک کام کر رہی ہے اور پہلے گند نکال رہی ہے، پھر ٹھیک کرے گی، لہذا اسی دوا کو جاری رکھو۔ لو جناب دوائی نے ایسا گند نکالا کہ پورے جسم پر چھالے بننے اور پھوٹنے لگے جیسے کہ کڑاھی میں پکوڑے پکائے جارہے ہوں اور للو میاں کی حالت ایسی ہو چلی کہ قمیض، شلوار بھی نہ پہن سکتے تھے اور بیچارے شلوار سے دھوتی پر آگئے کہ شلوار میں چھالے تنگ کر تے تھے۔بیچارے پھر پہنچے شکایت لے کر حکیم صاحب کے پاس محتسب کی طرح ۔ حکیم صاحب نے حالت بگڑتی دیکھی تو ایک ملم لگانے کو اور ایک اور دوا مزیدپینے کو دے دی۔ للو میاں نے کچھ روز مزید دوا استعمال کی تو پتہ چلا کہ انکا تو پیشاب بند ہو گیا، گرم دواؤں کی وجہ سے۔تنگ آکر ایک بار پھر پہنچے حکیم صاحب کے پاس۔ بیچار ے حکیم صاحب نے اس بارللو میاں کو گھوٹا بادام اور عرق گلاب پینے کے لیے دے دیا کہ معدہ ہیٹ کر گیا ہے، ٹھنڈا کر نا ہوگا۔ للو میاں جناب صبح دوپہر شام گھوٹا پینے لگے اور پھر کچھ روز بعد دوبارہ دوائیں شروع کیں تو معلوم ہو اکہ اب کی بار انکا پاخانہ بند ہوگیا۔ پھر دوڑے حکیم صاحب کے پاس۔ اس بار حکیم صاحب نے پھر تسلی دی اور قبض کا علاج شروع ہوگیا اور مزید تین قسم کی دوائیں عنایت فرما دیں۔ اس فرمان کے ساتھ کہ میاں گھبرانا نہیں ایک دن بلکل ٹھیک ہو جاؤگے۔اس دوران دواؤں کی تعداد بڑھ کر ایک درجن تک پہنچ چکی تھی۔ لو جناب ، للو میاں کا معدہ تو سیٹ نہ ہوا البتہ اب پاخانے میں خون آنے لگا، طبیعت میں بے چینی، گھبراہٹ، متلی، دل ڈوبے، ٹانگوں سے کھڑا نہ ہو جائے، تو بیچارے گھبرائے دوڑے پھر حکیم صاحب کی طرف اور پھر حکیم صاحب نے بواسیر کا علاج شروع کر دیا۔ یو ں کرتے کرتے ایک ماہ گزر گیا پر للو میاں کو اس بیماری سے تو آرام کوئی نہ آیا البتہ مزید چھ قسم کی بیماریاں لگ گئیں۔ للو میاں کی خطر ناک حالت دیکھ کر حکیم صاحب انجیکشن پر آگئے اور لگے صبح ، دوپہر ، شام انجکشن لگانے کہ انجکشن فوری اثر کرتے ہیں، اور جسم کو سوئیوں سے داغنا شروع کر دیا۔

للو میاں بیچارے سے اپنی یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی اور اسوقت کو کوسنے لگے جب انہیں ان نام نہاد حکیموں کا خیال آیا تھا۔ پھر آخر کا ر تنگ آکر حکیم صا حب کے پاس پھر حاضر ہوئے اور انکے پاؤں کو ہاتھ اور ٹھوڑی کو چھو کر ، اور انکے بچوں کا واسطہ دیکر ، گڑ گڑا کر گذارش کی کہ حکیم صاحب برائے مہربانی ہمیں پہلے جیسا ہی کردیں اور ان تمام دواؤں سے چھٹکارا دلا دیجئے۔ یہ سنکر حکیم صاحب بولے کہ میاں اسکے لیے تو تمہیں بہت سا خرچہ کرنا پڑیگا ، کیونکہ تمہارے خمیر میں اسوقت بہت سے کشتہ جات اور معجونات کا مجمو عہ شامل ہو چکا ہے اور انہیں نکالنے میں ٹائم اور پیسے دونوں مزید لگیں گے۔ مزید خرچے کا سن کر للو میاں نے پھر سر پکڑ لیا کہ پہلے ہی اس چکر میں ہزاروں لٹا چکے تو اب مزید کیسا خرچہ ؟ یہ سن کر بیچارے للو میں نے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔ کہ جاکر کسی اور اچھے سے حکیم سے علاج کراتے ہیں کہ چلیں دوبارہ پہلے جیسا ہی ہو جاؤں!۔

لو جناب! للو میاں پہنچے اب ایک اور حکیم صاحب کی دکان پر اور وہاں پر باہر کچھ پوسٹر اس طرح لگے تھے: کہ : مردانہ قوت کا شرطیہ علاج، ایک دن میں مریض صحت یاب۔ روتے آئیں ہنستے جائیں۔ انتہائی قابل، ایماندار، اعلیٰ تعلیم یافتہ، گولڈ میڈلسٹ، طب کی دنیا کے شہنشاہ، نسخہ اکسیر، نوابوں، شہزادوں، بادشاہوں اور شیخوں کے دور کے مانے تانے حکیم صاحب، ہر مرض کا علاج دیسی جڑی بوٹیوں سے گارنٹی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جیسے رائل فین کی گارنٹی ہو۔ ساتھ میں کچھ ٹیڑھے میڑھے سے نقشے اور لکیریں ۔ نقشوں پر یاد آیا کہ آجکل اکنامک کاریڈور کے نقشوں پر بڑی ہا ہا کار مچی ہوئی ہے۔ ویسے یہ اس وقت کا موضوع تو نہیں پر میرا دل کرتا ہے کہ اس پر لکھا جائے: مثلا: دل کرتا ہے کہ اس منصوبے کی مخالفت کرنے والوں کو ہٹلر کی طرح سرِ عام گولیاں ما ر دینی چا ہییں۔جیسے کہ سب کو معلو م ہے کہ ہمارے ازلی دشمن نے اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے اربوں ڈالر مختص کر دیے ہیں، اور کھلم کھلا اعلان فرما دیا ہے کہ انڈیا کو یہ منصوبہ بلکل منظور نہیں۔ پر لگتا ہے کہ یہ کام ہمارے نام نہاد مشہور صحافی، سیاستدان اور دوسرے تلنگے بغیر پیسوں کے ہی کر دیں گے۔یہ نام نہاد صحافی اور سیاستدان حضرات اپنے آپ کو ملک اور صوبوں کے وفادار ثابت کر نے کے لیے روزانہ رات کو ٹی وی پر مداری لگا کر جھوٹ بول بول کر عوام کو بے وقوف بناتے ہیں اور دوسروں کو را کا ایجنٹ اور اپنے آپ کو محب وطن گردانتے ہیں۔ اﷲ پاک انہیں ہدایت دے ۔ آمین۔مداری سے ہمیں ایک اور واقعہ یاد آیا کہ ہمارے ایک دوست کشمیر، جنت نظیر کے شہر راولا کوٹ سیر کے لیے گئے تو بازار میں پھرتے ایک دوائیاں بیچنے والے مداری نے اسے اپنے علاقے میں نیا سمجھ کر بلا لیا اور پھر چکنی چپڑی باتوں سے بہلانے کے بعد اسے ثابت کر دیا کہ وہ مردانہ کمزوری کا مریض ہے، پر ہمارا کایاں دوست اسکے قابو نہ آیا اور دوا خریدے بغیر ہی جان چھڑا آیا۔ لہذا آپ بھی ان ٹھگوں اور مداریوں سے ذرا بچ بچ کر رہاکریں کہ کہتے کچھ ہیں اور ہوتا کچھ ہے جیسے کراچی کے علاقے صدر میں اکثر ٹھیلے پر جوس بیچنے والے آوازیں لگارہے ہوتے کہ ــ: آ ٹھنے (ٹھنڈے) پی۔ سننے والا سمجھتا ہے کہ شاید آٹھ آنے میں جوس کا گلاس پی۔ پھر جب وہ جوس کا گلاس پی چکتا ہے تو پتہ لگتا ہے کہ وہ آٹھ آنے کا نہیں بلکہ بیس روپے کا ہے اور اکثر لوگوں کا پھڈا ہو رہا ہوتا ہے۔ویسے انڈین را والوں سے گذارش ہے کہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے پیسہ اور ٹائم نہ بر باد کریں کیونکہ انشاء اﷲ ہم سب نے اسے کامیاب بنانے کے لیے ایکا کر لیا ہے۔اور ایکا کرنے کے بعد جو مکا بنتا ہے اس سے جبڑے سمیت پورا منہ باہر نکل آتا ہے، ہیں نہ بنیو!

بہرحال! للو میاں نے ان حکیم صاحب کا حدود اربع پڑھا مگر ا ن کے کلینک میں اندر جانے کے بجائے کچھ سوچ کر باہر کو چل پڑے۔ کہ اب یہ حکیم صاحب بھی نہ کچھ اور پھسوڑی ڈال دیں کہ مردانہ قوت بحال کرتے کرتے موجودہ قوت کو ہی مٹوا بیٹھوں۔ یکا یک ا نہیں یاد آیا کہ آجکل اخبارات میں عطائیوں اور دو نمبر ڈاکٹر، حکیم حضرات کے خلاف ایکشن ہو رہاہے ، کیوں نہ اس حکیم کے خلاف ریڈ کر وا کر اسے بھی اندر کر وا دیا جائے۔ اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے للو میاں پہنچے اپنے ایک دوست کے پاس اور انہیں اپنا پلان نمبر دو بتا یا اور مشورہ چاہا۔ دوست کچھ سمجھدار تھا اور گویا ہوا کہ میاں تھا نے، کچہری کے چکر میں پڑو گے تو ا نہیں اندرونی اور بیرونی، پوشیدہ اور غیر پوشیدہ تمام امراض کی لسٹ دینی پڑ جائیگی۔ ساتھ میں ثبوت بھی مانگیں گے کہ کتنے روز دوا کھائی، کتنے کی ملی، کیا اثرات مرتب ہوئے، حکیم صاحب کا حدود اربعہ کیا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور مزید کہ کچھ ممنوعہ قسم کے سوالات بھی ہو سکتے ہیں۔؟؟

حکیموں اور پولیس والوں کے تنگ آئے للو میاں کو اسی غمخوار دوست نے سمجھایا کہ میاں تمہیں بیماری ویماری کچھ نہیں، صرف وہم کی بیماری ہے اور اسکے بنیادی اسباب میں ذہنی ٹینشن سر فہرست ہے اور یہ حکیم ڈاکٹر لوگ ، مریضوں کی نفسیات سے کھیلتے ہوئے انہیں گھیر گھار کر زبردستی مریض بنا کر اپنی دوائیاں بیچتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ذہنی ٹینشن کو دور کر لو تو تمہیں کو ئی بیماری ہی نہیں۔ للو میاں بولے کہ لیکن سوال یہ ہے کہ اس بیماری سے بچا کیسے جائے؟؟۔ تو سمجھدار دوست بولے کہ میاں اس کے لیے ظاہر ہے کہ ہر کسی کو اﷲ سے لو لگانی پڑتی ہے۔ نماز ، روزہ، ذکر اذکار اور صدقہ خیرات ہی تما م ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا آسان اور واحد علاج ہے ! کیوں ٹھیک ہے نہ؟۔ للو میاں نے دوست کی بات توجہ سے سنی اور امراضِ پوشیدہ کے لیے ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس جانے سے توبہ کر لی۔

تو کیا اب آپ بھی حکیموں یا ڈاکٹروں کے چکر میں پڑیں گے یا اسلامی طور طریقوں پر زندگی بسر کریں گے۔؟؟
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247430 views self motivated, self made persons.. View More