سوشل میڈیا کی اس دنیا میں وارد
ہوئے مجھے چھ سال اورکچھ ما ہ ہوچکے ہیں.یہ دنیا کافی عجیب وغریب ہے یہاں
ایک ہی شخص اپنے جتنےمرضی نام ، کام اورمقام لکھ سکتا ہے کوئی قدغن نہیں!
اورتواورآپ بغیرکسی تگ ودو کےاپنی جنس بھی تبدیل کرسکتے ہیں!خاص طورپر جب
آپ نےپاکستان کےبا اختیارحلقوں کی حمایت کرنی ہوتوپھر سب سے بہتر صنف نازک
کا استعما ل ہے یاد رہے کہ ہر کومنٹ کے آخر میں "پاکستان زندہ با د " کا
نعرہ درج ہو پروفائیل پکچر بھلے سے کترینہ کیف کی ہو کیونکہ " فن کی
سرحدیں" نہیں ہوتیں !
مزید افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہود ونصاری کی ایجادات یعنی سمارٹ فون کے
ذریعے چھپ چھپا کر بازاروں ، کالجوں اور تفریحی مقامات پر ٹہلتی بچیوں کی
تصاویر لے کر انہی یہود و نصاری کے ایجاد کردہ کمپیوٹر پر دستیاب فیس بک کی
پروفا ئیل پکچرز بنا کراسلام ، امت اور پاکستان کی محبت کا درس دیا جاتا ہے
! ہر پندرہ دن کے بعد " محترمہ " کی پروفایل تصویرتبدیل ہوجاتی ہے اور ساتھ
ساتھ "relationship" کا نیا کھاتہ بھی کھل جاتا ہے. اس قسم کے فیس بک
پروفائل کو آپ بڑی آسانی سے پہچان سکتے ہیں کیونکہ ان میں چارچیزیں مشترک
ہوتی ہیں ایک ہر پندرہ دن بعد بدلتی پروفائل تصویر، دوسری انڈیا اورمغربی
ممالک کی مختصرلباس پہنے خواتین دوست، تیسرے احادیث اورآیات کے سٹیٹس
اپڈیٹس اورچوتھی پاکستان کے جھنڈے کی تصویر جوعموما header / cover کے
طورپراستعمال کی جاتی ہے ! ایسے پروفایل کے حامل افراد آپ کو کبھی بھی
فرینڈز ریکویسٹ نہیں بھیجتے مگر ہرسیاسی و مذہبی فورم پر آپکا پیچھا کرتے
ہیں خاص طورپرجب آپکی راۓ ان سے مختلف ہو! فیس بک پریہ افراد کم ہی اپنی
مختصرراۓ کا اظہار کرتے ہیں عموما انکے کومنٹس لبمی چوڑی تقریریں ہوتی ہیں
جن میں لنکس بھی دیۓ جاتے ہیں بالکل ایسے لگتا ہے جیسے یہ افراد تنخواہ دار
ملازم ہیں نہ کہ فیس بک پراپنی راۓ دینے والے عام لوگ. وقت کی فراوانی اور
وقت بے وقت حب الوطنی میں ڈوبے نعرے انکے دیہا ڑی دار مزدورہونے کو ثابت
کردیتے ہیں!
البتہ ٹوٹیر پرایک بڑی مجبوری جو تقریر کرنے کے آڑے آتی ہے وہ ہے 140 حروف
کی پابندی ! ایسے میں یہ "تنخواہ دار " افراد راۓپہنچانے کی بجاۓ گا لی
گلوچ پر اکتفا کرتے ہیں. بلوچ جبری گمشدہ افراد کی ہمدردی کا ایک جملہ ہمیں
" را " کا ایجنٹ ثابت کر دیتا ہے ، احمدیوں پرمظالم کا ذکر "کافر، قادیانی
،یہود ی " اور ہزارہ کے قتل عام پرایک کمنٹ "کافر کافر شیعہ کافر ، جو نہ
مانے وہ بھی کافر " کے نعروں کا ایک سلسلہ شرو ع کردیتا ہے جس میں ہر آنے
جانے والا حسب تو فیق اپنا "اسلامی چندہ " ڈالتا جاتا ہے .
اور پھر ان سوشل" جانوروں" کا کیا کہنا ٹویٹر پرتو بڑے بڑے گھاگ قسم کے
صحافیوں اور راۓعامہ کو بیدار کرنے والے ماہرین کو میں نے ایسی ٹویٹس پر
ایک دوسرے سے جھگڑتے اور الفاظ کی بری مار مارتے دیکھا ہے جن میں وہ ایک ہی
بات پر متفق ہوتے ہیں مگر 140 حروف کے قید خانے میں بیٹھ کر ایک دوسرے پر
چیختے بھی ہیں اور پتھر بھی ما رتے ہیں . آپ خاموشی سے ان ماہرین کی ٹویٹس
( جواب الجواب ) پڑھیں دونوں طرف پڑھےلکھے، عقلمند ، باشعورافراد ہیں دونوں
اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی پر نالاں ہیں مگر متفق ہوتے ہوۓ بھی
ایک دوسرے کو "کم علم " " دونمبر ترقی پسند "، " جہالت کی پیداوار" ہونے کے
طعنوں سے لبریز ٹوٹیس بھیجتے ہیں کیوں ؟ اسلیے کہ 140 کی پابندی کے باعث
مختصرترین لکھنے نے ایک کو دوسرے کے بارے میں یہ تاثر دیا کہ تمہاری
معلومات مجھ سے کم ہیں ! بس جی یہ تاثر تو ہمارے پاکستانی" حالات حاضرہ کے
ماہرین" پر ڈرون بن کر گرتا ہے ایسے میں وہ اپنا نام نامی بھی ایک طرف رکھ
دیتے ہیں اور اپنی ٹائم لائین پر ہر آنے جانے والے کو بھون ڈالتے ہیں !
سوشل میڈیا اس وقت نیوز میڈیا سے بازی لے جاتا ہے جب کوئی " واردات "
بریکنگ نیوز بن جاۓ یعنی ہر قسم کا "جانور " اپنی صحافیانہ جبلت سے مجبور
ہو کر جو دماغ میں آتا ہے یا یوں کہیے جو کچھ دماغ " بنا تا " ہے اسکو بے
دھڑک دنیا کے کونوں کھدروں تک پہنچا دیتا ہے اب چاہے ان ٹویٹس سے دنیا کے
دوسرے کونے میں رہنے والے کے ہاتھ پاؤں پھول جائیں بس انکی ریٹویٹس کی واہ
واہ ہونی چاہیے .
پاکستان کی د نیائےٹویٹس میں سب سے دلچسپ رویہ قلم کا رمرد صحافیوں کا ہوتا
ہے اگر انکے کالم پر تعریفی ٹویٹس "مردانہ " ہوں توپلک جھپکتے میں RTs بن
جاتی ہیں اگر"زنانہ"ہوں تومحترم کالم نگارساتھ میں Favorite کا تڑکہ لگانا
نہیں بھولتے لیکن حد یہ ہے کہ تنقیدی کومنٹس پر بھی جنسی امتیاز برتا جاتا
ہے . پروفائل پکچر"خوبصورت" ہوتوتنقید کا بھی جواب آجاتا ہے لیکن جہاں
انہیں تنقید کرنے والے پر شک ہوا کہ وہ اپنی بے لاگ تنقید کی وجہ سے " مرد
مرد"سا محسوس ہورہا ہے وہاں Follower کی کہانی ختم ایسی فلم کا اختتام
Block پر ہوتا ہے -
میرا ذاتی تجربہ بھی اس میں شامل ہے کہ 4 پاکستانی ایف ایم ریڈیوز،3 نیوز
چینلز،4 "ہیرو ٹائپ" اینکرز ، دو کالم نگاروں کے فیس بک اور ٹویٹرپیجیز پر
میں " مردانہ تنقید" کی وجہ سے Blocked ہو چکی ہوں. حد تو یہ ہے کہ فیس بک
پیجیز پر حکمرانی کرتے ہوۓ ہمارے فنکار بھی بھول جاتے ہیں کہ انکی توسانس
لینے کی ہوا بھی ہم FANS کی بدولت ہے ادھر آپ نے انپر معمولی مگرڈائریکٹ
تنقید کی ادھر آپکو دھکے دے کر پیج سے باہرنکا ل دیا جاتا ہے .
فیس بک کےایسے پیج جو اوپن فورم ہیں وہاں پاکستان کی ہراکائی موجودہے
مگرحصہ بقدر جثہ کے مصداق! پنجابی بھائی معمول کے مطابق اپنی اکثریت کے
ساتھ ہردوسندھیوں،ایک پشتون اور" آدھے" بلوچ کے سامنے اپنی راۓ کا ھتوڑا
لیے کھڑے ہوتے ہیں! آپ انکی بات ے متفق ہیں تو ٹھیک وگرنہ اسی ھتوڑے سے
آپکا سرکچل دیا جاتا ہے!
یہی حال سیاسی پارٹیوں کا ہے لیکن اس فرق کےساتھ کہ یہاں راۓ کی طاقت نہ
افراد کی کثرت چاہتی ہے نہ دلیل کی مضبوطی یہاں تو بس زبان کی لمبائی ہے جو
انگلیوں کو جنبش دیتی ہے اوربلا سوچے سمجھے جھوٹ، افواہ، الزام اور گالیوں
کا ایک نہ ختم ہونے والا طوفان ہے جو کچھ منٹ میں ہی سوشل اینیمل کوصرف
اینیمل بنا دیتا ہے! یہاں یہ بتانےکی ضرورت نہیں کہ کونسی سیاسی پارٹی کس"
قسم" کے خیالات کا اظہار کرتی ہے آپ بھی اگر اس سوشل میڈیا کی دنیا میں
رہنے والے سوشل اینیمل ہیں تو یہ بات بڑی اچھی طرح جانتے ہونگے! نہیں جانتے
تو جان لیں گے کیونکہ میں کسی پارٹی کا نام لے کر اپنی زندگی میں کوئی
سونامی برپا نہیں کرنا چاہتی !
ہاں مگر اسپر بھی بحث براۓ بحث ہوسکتی ہے. ایسا کریں کہ وہیں page پرملیں
تاکہ جو بات بھی ہو " سب کے سامنے ہو " اورکھری کھری سنانے کو صرف 140 حرف
ہی ملیں
( یہ میرے اپنے مشاہدات ہیں آپ ان سے مکمل اختلاف کریں مجھے خوشی ہوگی ) |