مودی کا اعترافِ جرم

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے، اس نے کبھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ”بغل میں چھری، منہ میں رام رام“ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوکر ہندو بنیے نے ہمیشہ پاکستان کو زخم لگائے ہیں۔ بھارت نے کبھی بھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اورہمیشہ پاکستان کو توڑنے کی سازشوں میں مصروف رہا۔ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ سقوط ڈھاکا کا سانحہ بھارت کی شیطانی چالوں اور سازشوں کے نتیجے میں ہی پیش آیا تھا، تاہم بھارت نے کبھی اس کو تسلیم نہیں کیا، اب ”گجرات کے قصائی“ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بنگلا دیش میں منعقدہ ایک تقریب میں پاکستان توڑنے میں اپنے کردار کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے ”بنگلا دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی۔ ہماری افواج بنگلا دیش کی آزادی کے لیے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر لڑیں اور بنگلا دیش بننے کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اس کی مدد کی۔ “ اس تقریب میں حسینہ واجد کی حکومت نے بنگلادیش کی ”آزادی“ میں فعال کردار ادا کرنے پر سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو ”بنگلا دیش لبریشن وار آنر“ سے نوازا۔ اس سے قبل حسینہ واجد کی حکومت کی جانب سے سابق بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کو بھی اس ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے، جو سونیا گاندھی نے وصول کیا تھا۔

سقوط ڈھاکا کی سازش میں ملوث ہونے کے اعترافی بیان پر پاکستانی راہنماﺅں کا کہنا ہے کہ مودی کے بیانات سے ثابت ہو گیا کہ پاکستان کو توڑنے میں بھارت ملوث تھا اور وہی سانحہ مشرقی پاکستان کا اصل مجرم ہے۔ دوسری جانب اس اعتراف پر خود بھارتی عوام کی جانب سے سوشل میڈیا پر نریندر مودی پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔ یوں تو پاکستان کو دولخت کرنے میں بھارت کے کردار پر پہلے بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں تھی، لیکن اب مودی نے پاکستان توڑنے کا اعتراف کرکے منافقت کی چادر میں لپٹے بھارتی چہرے کو خود ہی بے نقاب کردیا ہے۔

سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ جہاں پاکستانی عوام کے لیے المناک و اندوہناک تھا، وہیں بھارت کی بہت بڑی کامیابی بھی تھا، کیونکہ مشرقی پاکستان کو پاکستان سے جدا کرنے کے لیے بھارت روز اول سے سرگرم عمل تھا۔ بھارتی فوج نے جس طرح بھارت اور مشرقی پاکستان میں قائم تربیت گاہوں میں مکتی باہنی کے غنڈوں کی تربیت کی اور بھارتی ایجنٹ جس طرح مشرقی پاکستان کے عوام کو پاک فوج کے خلاف ابھارنے میں مصروف رہے، وہ بھارت کے چہرے کا سیاہ دھبا ہے، جو کبھی دھل نہیں سکتا۔

اس سچائی سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ بھارتی نیتاؤں کی کوشش اور خواہش تھی کہ پاکستان بھارت کے ساتھ الحاق پر مجبور ہوجائے۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو یہی سمجھتے رہے کہ ”پاکستان کی تخلیق ایک عارضی اقدام ہے اور یہ آخرکار متحدہ ہندوستان پر منتج ہوگی۔ ایک وقت آئے گا کہ بھارت کے ساتھ اِس کا الحاق ضروری ہو جائے گا۔“ بھارتی راہنماؤں کے نزدیک پاکستان کو سلامت رہنے کا کوئی حق نہیں تھا، اسی لیے انہوں نے اس نوزائیدہ ریاست کا گلا گھونٹنے کے لیے ہر وہ قدم اٹھایا، جو ان کے اختیار میں تھا۔ اندرا گاندھی 1965ءکی جنگی ہزیمت کا بدلہ لینا چاہتی تھی، چنانچہ اس نے شیخ مجیب الرحمن سے تعلقات استوار کیے، مکتی باہنی (نجات فورس) کے قیام کے لیے اسلحہ اور رقم فراہم کی اور پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال بننا شروع کر دیا۔ جب 1970ءکے انتخابات کے بعد بھارت کو روسی امدا د میسر آئی تو اس نے پاکستان پر وار کرنے میں دیر نہیں لگائی۔

1971ءمیں مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے تو بھارت نے باقاعدہ فوج کشی کرکے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ بھارتی وزیر اعظم نے 31 مارچ 1971ءکو پارلیمنٹ میں ایک قرارداد کے ذریعے مشرقی پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات پر شدید غم وغصہ اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بنگالی باغیوں کی بھر پور مدد کی پیش کش کی، دوسری طرف مشرقی پاکستان کے جو باشندے مغربی بنگال (بھارت) اور آسام پہنچے، بھارتی فوج نے انہیں پاک فوج کے خلاف لڑنے کی تربیت بھی دی۔ اس کے ساتھ بھارتی پروپیگنڈا مشینری منظم طریقے سے پاکستان کو بدنام کرتی رہی، جس سے دنیا میں پاکستان کاتشخص مجروح ہوا۔ اِس طرح بھارت نے بنگلا دیش کاز کے لیے دنیا بھر کی ہمدردیاں حاصل کر لیں۔

یہ صورت حال بھارت کے تخریبی عزائم اور اس کے مطلوبہ ہداف کے لیے کارآمد ثابت ہوئی اور پاکستان کو دو لخت کرنے کے لیے 3 دسمبر 1971ءکو باقاعدہ پاک سرحدوں پر حملہ کر دیا گیا اور پاکستان کا دایاں بازو کاٹ کر الگ کردیا گیا۔ سقوط ڈھاکا کے روز بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے بڑی رعونت کے ساتھ کہا تھا: ”یہ ہماری افواج کی فتح نہیں، بلکہ ہمارے نظریے کی فتح ہے، ہم نے نظریہ پاکستان کو آج خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔“

بھارت پاکستان کو کسی صورت پھلتا پھولتا دیکھنا نہیں چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ”را“ کے ذریعے پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے اور حال ہی میں پاکستان اور چین کے درمیان طے پانے والے اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہا ہے، جبکہ مشرقی پاکستان کے بعد بلوچستان کو بھی (خاکم بدہن) پاکستان سے جدا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔اس مذموم مقصد کے لیے را کے ایجنٹ بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ اور اغوا کی وارداتوں سے لے کر بم دھماکے اور علیحدگی پسندوں میں رقوم کی تقسیم تک ہر ہتھکنڈا بروئے کار لا کر بلوچ عوام کے دلوں میں پاکستان کے خلاف نفرت کے بیج بونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملک کے اندر تخربی کارروائیوں میں ”را“ اور اس کے ایجنٹوں کے ملوث ہونے کے شواہد کئی بار منظر عام پر لائے جاچکے ہیں۔ ان حالات میں بھارت سے پیار کی پینگیں بڑھانے کی بجائے اپنے اس ازلی دشمن کے طریقہ ہائے واردات سے نمٹنے کی تدابیر کی جانی چاہئیں۔ خدا پاکستان کی حفاظت فرمائے، آمین۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632906 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.