تحریر: عنبرین میغیث سروری قادری
ایم۔اے (ابلاغیات)
ایثار اخلاقِ حسنہ کی اعلیٰ ترین صفات میں سے ایک صفت ہے۔ ایثار سخاوت سے
بلند تر نیکی ہے کیونکہ سخاوت سے مراد یہ ہے کہ اپنی ضرورت سے زائد شے اللہ
کی راہ میں دے دی جائے جبکہ ایثار سے مراد یہ ہے کہ جس شے کی انسان کو خود
سخت ضرورت ہے وہ اسے اللہ کی رضا کی خاطر اللہ کی راہ میں کسی دوسرے ضرورت
مند کو دے دے اور اپنی خواہش و ضرورت کو قربان کر دے۔ ایثار خالصتاً انسان
کی صفت ہے اور اللہ کی صفات میں سے نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے لیکن
ایثار نہیں کرتا کیونکہ ایثار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دینے والا خود بھی
حاجتمند ہو اور اپنی حاجت کو نظر انداز کر کے دوسرے کی مدد کرے جبکہ اللہ
تعالیٰ خود حاجتمند نہیں ہے۔ وہ ’جواد‘ ہے جو مانگے بغیر ‘ اپنے پرائے کے
فرق کے بغیر جودوسخا کرتا ہے۔ اللہ کے ہاں ایثار کو سخاوت سے بھی بلند درجہ
حاصل ہے کیونکہ اس میں سخاوت کے ساتھ ساتھ قربانی کا جذبہ بھی شامل ہوتا
ہے۔ قربانی کا جذبہ اللہ نے اپنی مخلوق میں سے صرف انسانوں کو عطا کیا اور
اسی جذبے کی بنا پر وہ انسان کو اور اس کے اعمال کو پسندیدگی کی نگاہ سے
دیکھتا ہے۔ انسان اللہ کا محبوب ہے۔ محبوب میں ضرور کچھ ایسی خاص خوبیاں
ہوتی ہیں جن کی بنا پر محب اسے پسند کرتا ہے۔ اللہ تو خود ہر خوبی‘ ہر
بھلائی‘ ہر بہترین صفت کا منبع ہے۔ انسان کے لیے انتہائی مشکل ہے کہ وہ
اللہ کی تمام صفات سے متصف ہو کر اللہ کا محبوب بن سکے البتہ ایثار ایک
ایسی صفت ہے جسے اپنا کر انسان اللہ کی نظر میں پسندیدہ بن سکتا ہے اگرچہ
وہ اللہ کی بہت سی دوسری صفات کونہ اپنا سکے۔
ایثار انسانی معاشرے میں فلاح و بہبود کی بنیاد ہے۔ جب انسان اپنی ضرورتوں
کو محدود کر کے دوسروں کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں تو معاشرے میں بہت کم لوگ
رہ جاتے ہیں جو ضرورت مند ہوں۔ جب سب کی ضرورتیں پوری ہو رہی ہوں تو بہت سے
لوگ رزق کمانے کے غلط طریقوں کی طرف مائل نہیں ہوتے اور اس طرح دوسرے لوگ
ان کے شر سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ جب معاشرے سے ایثار کی روایت ختم ہو جاتی
ہے اور لوگ صرف اپنی ہی ضرورتیں پوری کرتے ہیں‘ اپنی ہی بھوک مٹانے کی فکر
میں لگے رہتے ہیں تو ان کے لالچ اور ہوس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اپنی خود
غرضی میں انہیں اپنے بھوک سے بے حال بہن بھائی نظر نہیں آتے۔ یہ ضرورت مند
لوگ جن کے پاس کمانے کے بہت کم ذرائع ہوتے ہیں جب اپنے ہی جیسے دوسرے
انسانوں کو عیش و عشرت میں زندگی بسر کرتے دیکھتے ہیں اور ان اشیاء کو بے
دریغ ضائع کرتے دیکھتے ہیں جن کے لیے وہ خود ترس رہے ہوتے ہیں‘ تو ان میں
نفرت کا رحجان جنم لیتا ہے اور وہ ان عیش پرستوں سے وہ سب چھین لینا چاہتے
ہیں۔ اس طرح معاشرے میں چوری‘ ڈاکے‘ رشوت جیسے جرائم جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ
اللہ تعالیٰ نے ایثار کا جذبہ انسانوں کو دے کر پوری انسانیت کی بھلائی کا
بندوبست کر دیا۔ اسی لیے یہ اللہ کے ہاں بہت پسندیدہ صفت ہے کہ اس میں اس
کے تمام بندوں کی فلاح مضمر ہے۔
ایثار انسانی نفس کی بھی بہت سی بیماریوں کا قلع قمع کرتا ہے۔ جب انسان
اپنے کسی ضرورت مند بھائی کی خواہش اپنی ضرورت کے بدلے پوری کرتا ہے تو
اپنے نفس کی بہت سی خواہشوں کا گلا گھونٹتا ہے۔ یوں اگر ظاہری طور پر وہ
اپنے بھائی کا بھلا کرتا ہے تو درحقیقت باطنی طور پر اس کا اپنا بھلا ہو
رہا ہوتا ہے۔ اللہ اور بندے کے درمیان نفس کا سخت ترین حجاب ایثار سے
پگھلتا ہے۔ لالچ‘ ہوس اور حبِ دنیا کی لعنت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ دردمندی‘
قربانی کا جذبہ پرورش پاتا ہے جس کے لیے اللہ نے انسان کو پیدا کیا۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لیے کم نہ تھے کروبیاں
آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان کے اہلِ بیت کی زندگی کا ایک ایک لمحہ
ایثار سے آراستہ ہے۔ اصحاب پاک رضی اللہ عنہم نے بھی ایثار کے ذریعے ہی
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نظر میں بلند درجات پائے۔
مدینہ کے انصار مکہ میں اسلام لانے والے صحابہ کرامؓ سے تیرہ سال بعد ایمان
لائے‘ ان کو وہ تکالیف و اذیتیں بھی نہ اٹھانی پڑیں جو مہاجرین نے مکہ میں
اٹھائیں تھیں‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قرب بھی مہاجرین سے کم پایا۔
ہجرت کا شرف بھی حاصل نہ کر پائے‘ لیکن ان سب سعادتوں کی کمی صرف ان کے
ایثار سے پوری ہوگئی۔ اللہ نے ان کے درجات مہاجرین کے برابر قرار دیے۔
* وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھَاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ
وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْآ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ
حَقًّاط لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ (الانفال: 74)
ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں
جہاد کیا اور جن لوگوں نے (ان ہجرت کرنے والوں کو) جگہ دی اور (ان کی) مدد
کی‘ وہی لوگ حقیقت میں سچے مومن ہیں۔ ان ہی کے لیے بخشش اور عزت کی روزی
ہے۔
اللہ کے ہاں شہید کا رتبہ بھی اسی لیے بہت بلند ہے کہ وہ اپنی جان کا ایثار
کرتا ہے۔ وہ زندگی جو اس کی اور اس کے اہل و عیال کی سخت ضرورت ہوتی ہے‘ وہ
اسے اپنے وطن اور اپنے دین کی خاطر قربان کر دیتا ہے۔ یوں وہ اعلیٰ ترین
درجہ کا ایثار کرتا ہے۔ ایثار کرنے والوں کی شان میں حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے فرمایا:
* جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی مدد اور فائدہ میں چلا تو اس کے لیے اللہ
تعالیٰ کی راہ میں مجاہدین کا ثواب ہے۔
* اللہ تعالیٰ کی ایسی مخلوق ہے جن کو اس نے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے
لیے پیدا فرمایا ہے۔ اس نے اپنی قسم کھائی کہ انہیں آگ کا عذاب نہیں دے گا۔
جب قیامت برپا ہوگی تو ان کے لیے نور کے منبر لگادیئے جائیں گے‘ وہ اللہ سے
ہمکلام ہوں گے جبکہ دوسرے لوگوں کا حساب ہو رہاہوگا۔
* جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے کی کوشش کرے‘ چاہے وہ کام پورا ہو یا نہ
ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ اور بعد والے گناہ معاف کر دے گا او ر اس کے
لیے دو برأتیں لکھ دے گا۔ (1) آگ سے بری (2) نفاق سے بری۔
ہمارے سلف صالحین بزرگ اولیاء کرام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایثار
جیسی حقیقی سنتوں پر عمل کرتے اور صحابہ کرامؓ کی ایسے نیک اعمال میں پیروی
کرتے تھے نہ کہ ہماری طرح ان بے کار بحثوں میں الجھتے تھے کہ حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام دوران نماز پیر جوڑتے تھے یا دور رکھتے تھے‘ رفع یدین کرتے
تھے یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔ ایثار اور اخلاقِ حسنہ ہی وہ اصل سنتیں ہیں جن کی
پیروی سے ایک صحیح مسلم معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ ایسا انسانی معاشرہ جس کی
تشکیل کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مبعوث ہوئے۔ آقا پاک علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے سکھائے ہوئے ان اصولوں سے روگردانی کے باعث ہم ذلت و
بربادی کے گڑھے میں گر چکے ہیں جن کو سکھانے میں ان کی تمام زندگی بسر
ہوئی۔ ہمارے اسلاف نے انہی اصولوں پر عمل کر کے دنیا اور آخرت میں فلاح
پائی۔
روایت میں ہے کہ شیخ ابوالحسن انطاکی کے پاس ایک بار تیس آدمی جمع ہوگئے۔
لیکن اس وقت ان کے پاس صرف چند روٹیاں تھیں۔ ان روٹیوں سے چار پانچ آدمیوں
کا بھی پیٹ نہیں بھر سکتا تھا۔ لہٰذا انہوں نے سب روٹیوں کے ٹکڑے کیے اور
جب سب کھانے کے لیے بیٹھے تو چراغ گل کر دیا۔ جب کافی دیر بعد چراغ روشن
کیا گیا تو دیکھا کہ کھانا جوں کا توں رکھا ہے اور ایک دوسرے پر ایثار کی
خاطر اس جماعت میں سے کسی نے بھی نہ کھایاکہ میرے باقی بھائی کھالیں۔
حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کشف المحجوب میں ایک روایت بیان کرتے
ہیں کہ دس درویش جنگل میں سفر کرتے ہوئے راستہ بھول گئے انہیں شدت کی پیاس
محسوس ہوئی ان کے پاس پانی کا ایک ہی پیالہ تھا۔ وہ سب ایک دوسرے پر ایثار
کرتے رہے اور کسی نے بھی پانی نہ پیا حتیٰ کہ ایک کے سوا باقی سب دنیا سے
رخصت ہوگئے۔ وہ ایک بچ جانے والا درویش کہتا ہے کہ جب میں نے دیکھا کہ میں
اکیلا ہی بچ گیا ہوں تب میں نے وہ پانی پی لیا اور اسی کی قوت سے راستے پر
واپس آگیا۔ اگر میں وہ پانی نہ پیتا تو شریعت کے مطابق اپنی جان کا قاتل
ہوتا۔ کسی نے پوچھا کہ کیا وہ باقی نو درویش اپنی جانوں کے قاتل قرار پائیں
گے؟ درویش نے جواب دیا کہ ’’نہیں! کیونکہ ان میں سے ہر ایک نے اس لیے پانی
نہ پیا تاکہ دوسر اپی لے اور اسی حالتِ ایثار میں فوت ہوگئے اور صرف میں
باقی رہ گیا تو لامحالہ شریعت کے حکم کے مطابق مجھ پر واجب ہوگیا کہ وہ
پانی میں پی لوں۔‘‘
شیخ یوسف بن حسن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص خود کو کسی چیز کا
مالک سمجھے وہ صحیح طور پر ایثار نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اپنی ملکیت کا
خیال کر کے اس چیز کا حقدار خود کو زیادہ سمجھے گا۔ ایثار وہی شخص کر سکتا
ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور جس کے پاس
جو کچھ ہے بس اتنے کا ہی وہ حقدار ہے‘ پس اگر کسی کو کوئی چیز مل جائے تو
وہ اس کے پاس امانت ہے۔ چاہیے کہ وہ اس امانت کو اس کے ضرورت مند کے پاس
پہنچا دے۔‘‘
ایثار انسان کی روحانی ترقی میں انتہائی مددگار ہے۔ جب انسان دنیاوی اشیاء
کے ذریعے اپنے بہن بھائیوں پر ایثار کرتے ہوئے روحانی ترقی کرتا ہے تو
ایثار کی اعلیٰ صورت اور درجے پر پہنچتا ہے یعنی آخرت کا ایثار۔ اس سے مراد
یہ ہے کہ بندہ اپنے آخرت کے حصے میں بھی اپنے بہن بھائیوں کو شریک کرے۔
کیونکہ دنیاوی مال کی حیثیت آخرت کے حصے سے کمتر ہے اسی لیے آخرت کے ایثار
کی اہمیت دنیاوی مال و جاہ کے ایثار سے بڑھ کر ہے۔ ایک بزرگ کا ارشا دہے کہ
اگر تم اپنے آخرت کے حصے کو اپنے بھائیوں پر قربان کر دو تو وہ حقیقی ایثار
ہوگا کیونکہ دنیا تو ایک بہت ہی معمولی سی چیز ہے‘ وہ اس لائق کب ہے کہ وہ
ایثار کے شایانِ شان بن سکے۔‘‘
حضرت جعفری فلامی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے حضرت ابوالحسن
نوری رحمتہ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے سنا وہ کہہ رہے تھے
’’یا اللہ! آپ دوزخ والوں کو عذاب دیں گے حالانکہ وہ سب علم‘ قدرت اور آپ
کے قدیم ارادے سے آپ کے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں اور اگر آپ دوزخ کو ضرور
انسانوں سے بھرنا ہی چاہتے ہیں تو آپ اس پر قادر ہیں کہ دوزخ اور اس کے
تمام طبقات کو صرف میرے ہی وجود سے پُر کردیں اور ان کو جنت میں بھیج
دیں۔‘‘ حضرت جعفررحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں ان کے معاملے میں بڑا
حیران ہوا۔ کچھ روز بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی آنے والا آیا اور
کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ابوالحسن کوکہہ دو کہ میں نے
تمہیں اس شفقت اور تعظیم کی بدولت بخش دیا ہے‘ جو تجھے میرے اور میرے بندوں
کے ساتھ ہے۔‘‘ (کشف المحجوب)
حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا بھی اللہ تعالیٰ سے دعا فرماتی تھیں کہ
’’اے اللہ میرے حصہ کی دنیا اہلِ دنیا کو دے دے اور میرے حصے کی آخرت اپنے
دوستوں کو دے دے۔ مجھے بس تُو ہی چاہیے۔‘‘
آخرت کا ایثار یہ ہے کہ اپنے روحانی بھائیوں کو نیکی کے کاموں کی رغبت
دلائی جائے اور انہیں اس میں شریک کیا جائے بلکہ انہیں ایسے کاموں میں
زیادہ حصہ دیا جائے جو اللہ کی رضا کا باعث ہیں۔ خود کسی جزا یا بدلے کی
تمنا نہ رکھی جائے۔ البتہ نیکی کے کاموں میں شریک کرتے ہوئے نیت خالصتاً
ایثار کی ہو نہ کہ کام سے جان چھڑانے کی کیونکہ اللہ کی نظر صرف نیتوں پر
ہے اور وہ قلوب کے احوال سے اچھی طرح واقف ہے۔
بہترین اور اصل ایثار وہ ہے جو ذاتِ الٰہی کے ساتھ کیا جائے۔ اگرچہ اللہ
ایثار کا حاجتمند نہیں لیکن جس طرح وہ انسانوں سے کسی قرض کا بھی حاجتمند
نہیں لیکن پھر بھی مطالبہ کرتا ہے کہ ’’کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ
دے۔‘‘ اسی طرح وہ بندوں کے ایثار کا بھی محتاج نہیں لیکن پھر بھی چاہتا ہے
کہ جو اس کے بندے ہیں وہ ہر نیکی صرف اور صرف اسی کی خاطر کریں دوسرے بندوں
کی خاطر نہیں۔ ایثار بھی اسی کے لیے کریں، نہ اپنی فلاح کے لیے نہ دوسروں
کی فلاح کے لیے۔اور اپنی اور دوسروں کی فلاح کے لیے اللہ پر توکل کریں۔
ایک عاجز بندہ اللہ کے ساتھ ایثار یوں کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جو
ہمت و توفیق عطا کی وہ اسے اللہ کی راہ میں ہی خرچ کر دے۔ یعنی اپنی تمام
ہمت کو اپنی ذات سے منسوب کرنے کی بجائے اللہ کی نعمت جان کر اسے اللہ ہی
کے کاموں پر صرف کردے۔ جس آرام و سکون کی اسے خود حاجت ہے اسے اللہ کے دین
کی فلاح کے لیے استعمال کرے‘ جس ہنر سے وہ اپنی ذات کے لیے کماسکتا ہے اسے
اللہ کے کاموں کے لیے استعمال میں لائے اور کسی جزا یا بدلے کا طالب نہ
رہے۔ اپنا وقت‘ اپنا سرمایہ‘ اپنی خوشی‘ اپنا سکون‘ اپنے رشتوں کی محبت
یہاں تک کہ اپنی جان بھی صرف اللہ کا مال سمجھ کر اسی کی راہ میں قربان کر
ڈالے کہ
جان دی‘ دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
پھر وہ حقیقی ایثار اور حقیقی نیکی کو پہنچ پائے گا جیسا کہ اللہ نے
فرمایا:
لَنْ تَنَالُوْ الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ترجمہ:’’تم
اس وقت تک نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیزوں میں سے راہِ
حق میں خرچ نہ کرو۔ ‘‘یہی حقیقی ایثار ہے کہ جو چیز ہمیں خود سب سے زیادہ
محبوب ہے اسے ہم اللہ کی راہ میں دے دیں۔
حقیقی ایثار کی نیکی تک پہنچنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اللہ کے بندوں سے
ایثار کریں پھر درجہ بدرجہ منازل طے کر کے ایثارِ الٰہی کی منزل تک پہنچا
جاسکتا ہے۔ اللہ جب مخلوق کے کسی ایک حصے پر غضب کر کے کسی آفت (زلزلہ
سیلاب وغیرہ) کے ذریعے اسے محتاجی میں مبتلا کر دیتا ہے تو اس میں اللہ کے
ان بندوں کے لیے رحمت چھپی ہوتی ہے جو ان محتاجوں کی مدد کرنے کی طاقت
رکھتے ہیں۔ ایسے میں وہ ایثار کر کے ان مبتلائے بلا لوگوں کی مشکل بھی آسان
کرتے ہیں اور خود بھی اللہ کی رحمتیں سمیٹتے ہیں۔ اللہ ان سے راضی ہو کر
اپنی غضب شدہ مخلوق پر بھی مہربان ہو جاتا ہے۔ |