حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابو کنانہؒ کہتے
ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ ؓ نے قرآن کے حافظوں کو جمع کیا ان کی تعداد تقریباً
تین سو تھی پھر حضرت موسی ؓ نے قرآن کی عظمت بیان کی اور فرمایا یہ قرآن
تمہارے لیے باعث اجر ہو گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمہارے لیے بوجھ اور
وبال بن جائے لہذا تم قرآن کا اتباع کرو (اپنی خواہشات کو قربان کر کے اس
پر عمل کرو)قرآن کو اپنے تابع نہ کرو کیونکہ جو قرآن کے تابع ہو گا اسے
قرآن جنت کے باغوں میں لے جائے گا اور جو قرآن کو اپنے تابع کرے گا قرآن
اسے گدی کے بل گرا کر آگ میں پھینک دے گا ۔
قارئین کرام آج ایک خوشی کی خبر ہم آپ کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں جس کا تعلق
کشمیر کی دھرتی کے ساتھ ہے ویسے تو ملک میں آج کل کچھ عجیب و غریب قسم کا
کلچر اور موسم دکھائی دیتا ہے اور بہت سی باتوں کے بہت سے مطلب آج کے دور
میں تبدیل ہو چکے ہیں اسے صیہونی میڈیا کی ساز ش کہیے یا ابلیس کی مجلس
شوریٰ کا بھیانک منصوبہ کہ آج بے حیائی اور بے شرمی پر مبنی ننگ دھڑنگ
کلچرکو ’’ لبرل ازم ‘‘ کہا جاتا ہے ،قرآن و سنت کی بات کرنے والے لوگوں
کو’’دقیانوس اور بنیاد پرست ‘‘کی تہمت دے دی جاتی ہے ،ملکی غیرت اور سلامتی
پر سودے بازی کرنے والوں کو ’’ معاملہ فہم ‘‘ کہا جاتا ہے اور قومی وقار
اور دینی حمیت کی بات کرنے والوں کو ’’ جذباتی میڈ ملا ‘‘ کہہ کر ان کا
مذاق اڑایا جاتا ہے بقول شاعر
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
قارئین ہم دل سے یہ یقین رکھتے ہیں کہ قرآن و سنت پر سچے انداز میں عمل
کرنے والے مسلمانوں کے لیے آج کا یہ دور اور آج کا یہ دجالی وقت کٹھن ضرور
ہو سکتا ہے لیکن اﷲ کے فضل و کرم سے اس کے بعد کامیابی ہی کامیابی ہے
مسلمان کے لیے یہ دنیا او ریہ زندگی عمل گاہ ہے اور حق بات کرتے کرتے اگر
موت آجائے تو اسے شہادت کہا جاتا ہے اور اگر اہل حق مشکلات برداشت کرتے
کرتے جہاد زندگانی میں اپنا سفر جاری رکھیں تو ان کی زندگی بلا مبالغہ
غازیوں والی زندگی کہی جا سکتی ہے ۔جبکہ دوسری جانب فرعون ،نمرود ،ہامان
،شداد اور ان جیسے دیگر ابلیسی چیلے چانٹے بے شک دنیا میں بظاہر بڑے بڑے
ناموں اور شان و شوکت والی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن رب کائنات انہیں
دنیا میں بھی رسوا کرتا ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے بہت بڑی ذلت ہے ۔
آج کی خوشی کی خبر یہ ہے کہ دارالعلوم تعلیم القرآن جامعہ صدیقیہ میرپور
آزادکشمیر کے ساڑھے نو سالہ بچے حافظ محمد رضوان نے ’’کمپیو ٹرقرآن ‘‘جسے
عربی اصطلاح میں ’’ غرائب الحفاظ ‘‘ کہا جاتا ہے اس انتہائی کٹھن کورس میں
میں پورے پاکستان میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے فیصل مسجد اسلام آباد میں
ہونے والے قومی نوعیت کے اس مقابلے میں پورے پاکستان کے مدرسوں سے حفاظ
قرآن نے شرکت کی اور اﷲ تعالیٰ نے یہ اعزاز ساڑھے نو سالہ معصوم بچے حافظ
محمد رضوان کی قسمت میں لکھ دیا تھا اور یہ بچہ پورے پاکستان میں پہلے نمبر
پر آ گیا یہاں آپ کی دلچسپی کے لیے آپ کو بتاتے چلیں کہ حافظ محمد رضوان نے
قرآن پاک جامعہ صدیقیہ دارلعلوم تعلیم القرآن میرپور سے حفظ کیا اور اس کا
تعلق آزادکشمیر کے خوبصورت ترین علاقے وادی نیلم سے ہے یہ بچہ انتہائی غریب
گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور اس بابرکت بچے کے والد محترم وادی نیلم میں
مزدوری کرتے ہیں اس بچے کے استاد گرامی حافظ محمد مقبول بٹ کا تعلق بھی
وادی نیلم سے ہی ہے ۔جامعہ صدیقیہ دارلعلوم تعلیم القرآن میرپور کی تاریخ
ایک سو سال سے زائد کا عرصہ رکھتی ہے مدرسے کے موجودہ مہتمم ایک کلاسیفائیڈ
میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر امجد محمود ہیں جو ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور کے علاوہ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر
ہسپتال میرپور میں طبی خدمات انجام دے رہے ہیں ڈاکٹر امجد محمود بذات خود
عالم دین نہیں ہیں لیکن ان کے والد محترم مولانا عبدالشکور دارالعلوم
دیوبند سے فارغ التحصیل عالم ہیں ان کی عمر اﷲ کے فضل و کرم سے 90سال سے
زائد ہے یہی وجہ ہے کہ مدرسے کی خصوصی ذمہ داری انہوں نے اپنے بھائی مولانا
عبدالغفور صدیقی اور تمام اہل خانہ کی مشاورت سے اپنے فرزند ڈاکٹر امجد
محمود کے سپرد کر دی ۔ڈاکٹر امجد محمود کے سگے چچا سابق ڈائریکٹر جنرل
ہیلتھ آزادکشمیر ڈاکٹر عبدالقدوس بھی مدرسے کے مختلف معاملات میں
ریٹائرہونے کے بعد ان کی مدد کر رہے ہیں ڈاکٹر امجد محمود کے دادا مولانا
محمد یوسف کے دادا مولانا شیر محمد نے آج سے 100سال پہلے پرانے میرپور میں
جامعہ صدیقیہ دارالعلوم تعلیم القرآن کی بنیاد رکھی تھی جب منگلا ڈیم بنا
تو نئے میرپور میں 1968میں اس مدرسے نے سیکٹر بی فور میں دوبارہ کام کرنا
شروع کیا یہاں یہ بتاتے چلیں کہ مولانا محمد یوسف بھی دارالعلوم دیوبند سے
فارغ التحصیل تھے اور اس دور کے بریلوی دیوبندی اہل حدیث تمام مکاتب فکر کے
علماء اور عوام ان کی علمیت کے ساتھ ساتھ ان کے زہد و تقویٰ کی وجہ سے ان
کا دل سے احترام کرتے تھے ۔حافظ محمد رضوان کی یہ کامیابی ایسی ہے کہ حکومت
آزادکشمیر کو اسے قومی سطح پر تسلیم کرتے ہوئے ساڑھے نو سالہ معصوم بچے اور
رزق حلال پر یقین رکھنے والے اس کے خاندان اور استاد محترم حافظ محمد مقبول
بٹ کے لیے ایوارڈ اور نقد انعام کا اعلان کرنا چاہیے ہمارے ملک میں یہ عجیب
روایت ہے کہ رقص کی بے ہودگی پھیلانے والوں کو آرٹسٹ کا نام دے کر کروڑوں
روپے ان کی نذ ر کر دیئے جاتے ہیں بشرطیکہ اعضاء کی شاعری کرنے والا آرٹسٹ
صنف ناز ک سے تعلق رکھتا ہواور اسی طرح سفلی جذبات اور شیطانی حرکات کرنے
والے شیطان کے ساتھیوں کو نوازنے کے لیے ریاست اور حکومت ہر وقت ایک ہی پیج
پر رہتے ہیں اس سلسلہ میں ایوان صدر میں مختلف صدور اور ایوان وزیراعظم میں
مختلف وزرائے اعظم کے ادوار حکومت کے ’’ رنگین واقعات ‘‘ ماضی میں بھی
میڈیا کے توسط سے عوام تک پہنچتے رہے اور آج کل بھی ایوان اقتدار میں
بیٹھنے والے مختلف لوگوں کے ’’ سیاہ کارنامے ‘‘ عوام تک پہنچتے رہتے ہیں
فلمی ایکٹرس ترانہ جس طریقے سے ’’ قومی ترانہ ‘‘ بنی تھیں وہ واقعہ بھی
مختلف کتابوں میں موجود ہے ۔جنرل مشرف جب صدر حکومت کی حیثیت سے قوم کو علم
اور تجربے سے مستفید کر رہے تھے تو سینہ گزٹ سے پھیلنے والی خبروں کے مطابق
ان کے ’’ ثقافتی ذوق‘‘کی تسکین کے لیے ایوان صدر سے لیکر پاکستان کے چاروں
صوبوں اور آزادکشمیر میں بھی مختلف ’’ ثقافتی محفلیں ‘‘ ان کے یار بیلی
منعقد کیا کرتے تھے اور وہ داستانیں بھی بعد ازاں میڈیا رپورٹ کرتا رہا ۔ہم
نے آج تک آزادکشمیر کے اس قسم کے واقعات اپنے کالم میں اس لیے تحریر نہیں
کیے کہ آزادکشمیر تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ ہے اور اگر ایسی داستانیں
ہم بیان کرنا شروع کر دیں تو نہ ہمارے کالم میں اتنی تاب ہے کہ وہ ان کی
غلاظت کو افورڈ کر سکے اور نہ ہی ہم لاکھوں مخلص کشمیری شہیدوں کے اہل خانہ
کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا چاہتے ہیں جو کعبہ کے بعد پاکستان کو اپنی امیدوں
کا مرکز و محور قرار دیتے ہیں لیکن اشارتاً اتنا ضرور کہتے چلیں کہ
راولپنڈی میں ہمیں مسلم لیگ ن آزادکشمیر کے نوجوان رہنما محمد عظیم بخش نے
ایک مرتبہ وہ دستاویزات بتائیں تھیں جن کے مطابق موجودہ آزادکشمیر حکومت کے
حکم پر راولپنڈی اور اسلام آباد میں ’’ ثقافتی خدمات ‘‘ انجام دینی والی
بعض معزز خواتین کو ’’ زکواۃ فنڈ‘‘ سے لاکھوں روپے کی رقوم ادا کی گئی تھیں
لیکن ہمیں آج تک حسرت ہی رہی ہے کہ اﷲ اور رسول اﷲ ؐ کا نام لینے والے
مدارس کے طلباء کے لیے حکومت آزادکشمیر نے کسی قسم کی عملی خدمت کی ہو
۔وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے ہمیں امید ہے کہ وہ پورے پاکستان میں کشمیر
کا نام روشن کرنے والے ساڑھے نو سالہ حافظ محمد رضوان کو ایک روشن مثال بنا
کر پوری قوم کے سامنے رکھیں گے ۔بقول چچا غالب یہ کہتے چلیں
گرم ِ فریاد رکھا شکلِ نہالی نے مجھے
تب اماں ہجر میں دی ،بردِلیالی نے مجھے
نسیہ و نقدِ دو عالم کی حقیقت معلوم !
لے لیا مجھ سے مری ہمتِ عالی نے مجھے
کثرت آرائی و حدت ہے پرستاریء وہم
کر دیا کافر ان اصنام خیالی نے مجھے
ہوسِ گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرام دیا ،بے پرو بالی نے مجھے
کمپیوٹر قرآن میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے بچے حافظ محمد رضوان پر اﷲ کا
خصوصی فضل وکرم ہے کہ باوجود شدید ترین غربت اور کٹھن حالات کے یہ بچہ اپنے
سینے میں اﷲ تعالیٰ کا کلام رکھتا ہے سوچنے کا مقام ان کے لیے ہے جو بظاہر
تو دنیاوی دولت پر اتراتے ہیں لیکن ان کے دل کھنڈرات جیسے ویران ہیں ۔
ایک چھوٹی سی بات آخر میں میرپور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے متعلق کرتے چلیں چند
ماہ پہلے خالق آباد کے مقام پر سڑک کا ایک بڑا حصہ اچانک ڈیم برد ہوا
ناقدین نے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور پسر وزیراعظم چوہدری قاسم مجید کے
متعلق بہت سے ’’ توے ‘‘ لگائے کہ انہوں نے مبینہ طور پر ٹھیکیدار کے ساتھ
مل کر کوئی کرپشن کی جس کی وجہ سے سڑک کی کوالٹی درست نہ تھی لیکن کچھ دنوں
بعد انکشاف ہوا کہ یہ سڑک نہیں ٹوٹی بلکہ منگلا ڈیم ٹوٹنے کا بہت بڑا خطرہ
سر پر منڈلا رہا ہے سابق امیدوار قانون ساز اسمبلی اعجاز رضا نے اس حوالے
سے میڈیا کے توسط سے جب قومی سطح پر آواز اٹھائی اور کمشنر میرپور ڈویژن
راجہ امجد پرویز علی خان کے حکم پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ چوہدری طارق نے منگلا
ڈیم میں 1202کی سطح سے زائد پانی بھرنے پر پابندی لگاتے ہوئے دفعہ 144نافذ
کی تو واپڈا کو ہوش آگئی اور اب آج کل ایک ڈائیک خالق آبا دکے مقام پر
تعمیر کرنے کا کام زور و شور سے جاری ہے ۔
یہاں ایم ڈی اے سے متعلق ہم آپ کو دلچسپ خبر دیتے چلیں کہ منگلا ڈیم ریزنگ
کے بعد خالق آباد سے لیکر چونگی نمبر چار تک ایم ڈی اے نے واپڈا سے واگزار
ہونے والی جگہ کو نقشہ بنانے کے بعد شہریوں کو فروخت کرنے کے لیے پیش کیا
اور جب شہری اپنے اپنے پلاٹ پر قابض ہو کر وہاں تعمیرات کر رہے تھے تو خالق
آبا د کے مقام پر منگلا ڈیم سیپیج کا ایشو کھڑا ہوا وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید نے مبینہ طور پر واپڈا کی فرمائش پر 280سے زائد شہریوں کے پلاٹس
کینسل کرنے کا حکم دیا ہے جس پر میرپور ،چکسواری ،ڈڈیال اور تمام علاقے سے
تعلق رکھنے والے شہری شدید ترین تحفظا ت کا شکار ہو چکے ہیں ایک محتاط
اندازے کے مطابق اگر یہ پلاٹ کینسل کیے جاتے ہیں تو ان کی مالیت موجودہ
مارکیٹ ریٹ کے مطابق دو ارب روپے سے زائد ہے شہری یہ پوچھ رہے ہیں کہ مالی
مشکلات سے گزرتی ہوئی معیشت کے اس دور میں شہریوں کو یہ پیسے حکومت
آزادکشمیر ادا کرے گی ،اس کا ذمہ دار واپڈا ہو گا یا ایم ڈی اے اس کا کوئی
اور حل نکالے گی ۔اﷲ سب کے حال پر رحم فرمائے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
بچہ دوڑتا ہوا گھر میں داخل ہوا اور اپنی ماں سے کہنے لگا
’’ امی وہ کل والا فقیر دوبارہ آیا ہے جسے آپ نے باسی کھانا دیا تھا ‘‘
ماں نے پوچھا
’’ بیٹا وہ کیا کہہ رہا ہے ‘‘
بچے نے معصومیت سے جواب دیا
’’ وہ کہہ رہا ہے کل آپ نے باسی کھانا دیا تھا آج اﷲ کے نام پر تھوڑا سا
چورن بھی دے دیں ‘‘
قارئین خالق آباد سکینڈل کے متاثرین ایم ڈی اے سے ’’ باسی اور متنازعہ
پلاٹس‘‘ لینے کے بعد اب چورن یعنی ’’ متبادل جگہوں یا معاوضے ‘‘ کا مطالبہ
کر رہے ہیں دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے ۔ |