عمران خان بمقابلہ خیبرپختونخواہ
(Muhammad Shahid Yousuf Khan, )
خیبرپختونخواہ کے ہونے والے
بلدیاتی انتخابات کا کریڈٹ تحریک انصاف کو ملنے کی بجائے اُلٹا گلے پڑ گیا
ہے۔تحریک انصاف کی اعلانیہ تبدیلی کے باعث سابقہ ہونے والے قومی وبلدیاتی
انتخابات سے حالیہ انتخابات بالکل کچھ مختلف نظر آئے اور تبدیل ہوگا
خیبرپختونخواہ کے نعرے کا ہونے والی ریکارڈ دھاندلی نے پول کھول دیا۔تحریک
انصاف کے بلند وبانگ دعوے ماند پرچکے ہیں۔نگران حکومت کے ہونے والے الیکشن
کو متعدد لوگوں پر خان صاحب کی الزام تراشی اور دشنام طرازی اب اپنی حکومت
کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔صوبے میں متعدد ڈیم بنانے کے دعوے خاکستر ہوئے
اورباقی تعلیم ،صحت کے ہونے والے وعدے اور پھر دعوے روزانہ ذرائع ابلاغ کے
ذریعے سامنے آرہے ہیں۔عمران خان جہاں قومی انتخابات میں ہونے والی دھاندلی
کے خلاف اسلام آباد میں کچھ مہینے دھرنا دیتے رہے اور دوبارہ الیکشن کا
مطالبہ کرتے رہے اب وہی دھرنا ان کی حکومت کے خلاف دینے کی تیاریاں کی
جارہی ہیں۔تمام پارٹیاں ہونے والے حالیہ انتخابات کو دھاندلی زدہ کہہ رہی
ہیں اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت میں ساتھ دینے والی جماعت اسلامی بھی
اس ہونے والی دھاندلی کو قبول کررہی ہے بلکہ تحریک انصاف پر الزام بھی لگا
رہی ہے۔جماعت اسلامی نے الیکشن نتائج کو روکنے کا مطالبہ بھی کردیا
ہے۔دوسری جانب عمران خان صاحب بہت پریشانی میں مبتلا ہیں اور حزب اختلاف کے
لگائے جانے والے الزامات کادفاع کرنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ الیکشن کرانے پر
رضامند ہیں بلکہ خود مطالبہ بھی کررہے ہیں ۔صوبائی حکومت اس ہونے والی
مبینہ دھاندلی جس میں فتح کا سہرا بھی تحریک انصاف کو سجا ہے بالآخر قبول
کرنے کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہے ۔پرویز خٹک
اپنی حکومت بچانے کے لئے اس دھاندلی کا الزام الیکشن کمیشن پر لگا رہے ہیں
اور دوبارہ الیکشن کرانے کو بھی رضامندی ظاہر کرچکے ہیں جبکہ مخالفین
دوبارہ الیکشن کو نہیں مان رہے بلکہ حکومت کو چھٹی دینے کے چکر میں
ہیں۔معذرت کے ساتھ ــ’خان صاحب یہ آپکی اپنی لگائی ہوئی آگ ہے جو آپ نے
وفاق میں لگائی تھی اور یہ اب کسی اور جانب رُخ اختیارکرچکی ہے اس لئے
احتیاط سے کام لینا ہوگا‘‘-
خیبر پختونخواہ حکومت کی ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ الیکشن کے اگلے روز ہی
ایک تحریک انصاف کے کارکن کے قتل میں اے این پی کے بزرگ رہنما میاں افتخار
حسین کو گرفتار کرلیا گیا اور میڈیاپر یہ خبر نشر کی گئی کہ قتل ہونے الے
نوجوان کے لواحقین نے ہی میاں افتخار حسین کو نامزد کیا ہے لیکن اگلے ہی دن
اس نوجوان کے والدین نے تردید کردی کہ انہوں نے میاں افتخار کا نام کسی ایف
آئی آر میں نہیں دیا۔۔پرویز خٹک نے میاں افتخار حسین کی گرفتار ی سے
لاتعلقی کا اظہار کیا ہے اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ میاں افتخار
صاحب کو اس کیس میں ملوث نہیں سمجھتے اس وجہ سے اے این پی کے کارکنان مزید
آگ بگولا ہیں اور وہ کسی مذاکراتی عمل کو ماننے کے لئے بھی تیار نہیں۔میاں
افتخار حسین ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں انہوں نے
صوبائی حکومت کی طرف سے مبینہ دھاندلی پر بلائی جانے والی اے پی سی میں بھی
جانے سے انکار کردیا ہے۔اس کے علاوہ تحریک انصاف کی سب سے بڑی حریف جے
یوآئی نے بھی دوسری حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ شرکت نہ کرنے کا عندیہ
دیا ہے جس سے سیاسی ماہرین کے مطابق حکومت کے خلاف پرزور تحریک کا آغاز کیا
جارہا ہے یہ خیر مشکل لگتا ہے لیکن پرویز خٹک کو چھٹی پر بھیجنے کی تیاریاں
ضرورہورہی ہیں۔
دس جون کو حزب اختلاف کی جماعتوں نے مبینہ دھاندلی پر ہڑتال کا اعلان کردیا
ہے اب ہڑتال کی کامیابی یاناکامی ہی عمران خان کے لئے فیصلہ کن ہوسکتی
ہے۔اگر یہ ہڑتال کامیاب ہوجاتی ہے اور مخالف جماعتیں کوئی مضبوط لائحہ عمل
تیارکرتی ہیں تو پھر عمران خان گرداب میں پھنسیں گے اگر اس کے بعد مذاکرات
کا ذریعہ ہی اس مسئلے کا حل بنے گا تو پھر خان صاحب کو اپنے وزیراعلیٰ
پرویز خٹک کی قربانی دینی ہی ہوگی۔ |
|