تیس اکتوبر دوہزار گیارہ کو
لاہور سے اُٹھنے والی سونامی بڑی تیزی سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے۔
2013 کے عام انتخابات میں کئی سیاسی جماعتیں اس کی زد میں آچکی ہیں اور یہ
سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ابتدائی طور پر سونامی کے نام پر بڑی تنقید کی گئی۔
کہا گیاکہ یہ بہت ہی بُرا نام ہے۔ جن ملکوں میں سونامی نے تباہی مچائی وہاں
کے عوام آج بھی یہ نام سن کر کانپ اُٹھتے ہیں، لیکن یہ تنقید اُن طبقوں کی
طرف سے کی جا رہی تھی جنہیں واقعی پاکستانی سیاست میں اُٹھنے والے اس طوفان
کا خطرا تھا، عوام تو بے چارے پہلے ہی لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور بدامنی جیسے
عذاب میں مبتلا ء تھے، اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے ایک ایسی مخالفانہ مہم
شروع ہوئی کہ ہرکالم نویس اور ٹی وی پر بیٹھا تجزیہ کار اور اینکر لوگوں کو
یہ سمجھاتا دکھائی دیا کہ جیسے اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہی تحریک انصاف
ہو۔ ہر دوسرا کالم اور پروگرام پی ٹی آئی کی مخالفت میں ہونے لگا اور یہ
سلسلہ اب بھی کسی حد تک جاری ہے لیکن کوئی بھی حربہ نوجوان طبقے کے دل سے
پی ٹی آئی کی محبت نکالنے میں ناکام رہا۔ خود حریف جماعتوں کے بڑے بڑے لیڈر
بھی یہ کہتے دکھائی دیے کہ اُن کی بیویاں اور بچے اُن کے نظریات کے برعکس
تحریک انصاف کے حامی ہیں۔ حال ہی میں تجزیہ کار نجم سیٹھی کا یہ بیان کہ وہ
جو مرضی کہہ لیں نوجوان اُنہیں جھوٹا اور تحریک انصاف کو سچا سمجھتے ہیں۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے۔
عمران خان نے سونامی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ طوفان اُن
سیاستدانوں کے لیے ہے جو کئی عشروں سے پاکستانی سیاست پر مسلط ہیں، جنہوں
نے چھ چھ باریاں لینے کے باوجود سوائے اپنی جیبیں بھرنے اور عوام کو بھوک
ننگ دینے کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ 67 سال بعد بھی عوام معیاری علاج، تعلیم،
بجلی اور امن وامان جیسی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ عوام کایہی غصہ حال
ہی میں ہونے والے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں بھی نظر آیا، جہاں
نتائج کے بعد پاکستانی سیاست کے بڑے بڑے بُت لرزتے دکھائی دیے۔ وہ لوگ جن
کا عوام سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں، جو پیسے اور کرپٹ انتخابی نظام کے
ذریعے عشروں سے اس ملک کے اقتدار پر قابض ہیں، جن کے خلاف ہمیشہ کمزور
سیاسی جماعتیں دھاندلی کے الزامات لگاتی رہی ہیں ، لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے
کہ عوام نے اُن مضبوط سیاستدانوں کو دھاندلی کا شور مچاتے دیکھا۔ وہ
جماعتیں جنہوں نے اپنے طویل دور اقتدار میں کبھی انتخابی نظام میں اصلاحات
نہیں آنے دیں، کبھی عوام کو اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ اُن تک اقتدار منتقل
کیا جائے، وہ عوام کے بنیادی حقوق کا رونا روتی دکھائی دے رہی ہیں۔ صرف
خیبرپختونخوا ہی کیا پورے ملک سے ایک محاذ تحریک انصاف کے خلاف کھڑا ہوگیا
ہے، اور کونے کونے سے یہ آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ پی ٹی آئی نے اُن کے ساتھ
زیادتی کرلی ۔ جس سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ تحریک انصاف نہ صرف خیبرپختونخوا
بلکہ پورے ملک کی روایتی سیاست کے لیے سونامی ثابت ہو رہی ہے۔ کراچی کے
حلقہ دوسوچھیالیس کی بات ہو یا پھر کنٹونمنٹ انتخابات۔ ضمنی الیکشن کا
معرکہ ہو یا بلدیاتی انتخابات۔ ایک طرف تحریک انصاف ہے اور دوسری طرف پرانی
پارٹیوں کا جم گٹھا۔ اپنی نالا ئقیوں کی وجہ سے پی ٹی آئی کو کئی محاذوں پر
شکست بھی ہوئی ہے لیکن ہر ہار کے بعد ایک جیت ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم
بھی مسلسل ہارنے کے بعد بالاخر پاکستان کو وائٹ واش کر گئی۔ اگر یہی تسلسل
جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں جب یہ سونامی پورے ملک میں روایتی سیاست کو خس
وخاشاک کی طرح بہا لے جائے گی۔ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات ہوچکے
ہیں اب اگلہ معرکہ گلگت بلتستان کا ہے جس کے بعد پنجاب اور پھر سندھ۔
جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے تو یہاں تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا سے قدرے
زیادہ محنت کرنا ہوگی کیوں کہ گاؤں دیہات کی سطح پر مسلم لیگ ن کی جڑیں
کافی مضبوط ہیں۔ حکمراں جماعت کا مضبوط تنظیمی ڈھانچہ اور میاں برادران کی
پنجاب پر پوری توجہ ، ساتھ ہی ساتھ صوبے میں ن لیگ کا اقتدار ، ایسے عوامل
ہیں جو تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ حال ہی میں ہونے والے کنٹونمنٹ
انتخابات میں یہ واضع ہوچکا ہے۔ تحریک انصاف پنجاب میں اگر حریف جماعتوں کا
ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہتی ہے تو اسے بھی اتحاد کے لیے ہاتھ بڑھانا ہوگا۔
پنجاب کی سطح پر ڈاکٹرطاہرالقادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک کا تنظیمی
نیٹ ورک انتہائی مضبوط ہے۔ ان کے کارکنوں نے جس طرح دھرنوں کے مشکل دنوں
میں تحریک انصاف کا ساتھ دیاوہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔خود عمران خان بھی اس
بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ تیس اور اکتیس اکتوبر کی رات عوامی تحریک کے
کارکنوں نے جس بہادری سے پولیس کا مقابلہ کیااُس پر وہ تعریف کے مستحق ہیں۔
اس سے پہلے ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھی پاکستان عوامی تحریک کا
ریکارڈ کافی اچھا رہا ہے۔ دھرنوں کے بعد دونوں جماعتوں کے کارکنوں میں بھی
کافی یارانہ ہوچکا ہے۔اگر دونوں جماعتیں مل جاتی ہیں تو یہ حریف جماعتوں کے
لیے اچھا شگون نہیں ہوگا۔
تحریک انصاف پر یہ الزام بہت پُرانا ہے کہ اس جماعت میں بھی روایتی
سیاستدانوں نے اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں۔ عمران خان کے اردگرد جو سیاستدان
نظر آتے ہیں اُن میں سوائے چند ایک کے تمام ہی پرانے چہرے ہیں۔ ایسی صورت
میں نوجوان جس تبدیلی کا خواب دیکھ رہے ہیں کیا وہ شرمندہ تعبیر ہوپائے گا؟
اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نئے
پاکستان کا خواب دیکھنا والا نوجوان کسی صورت پرانے ڈگر پر چلنے کو تیار
نہیں۔ یہ روایتی سیاستدانوں کے خلاف نفرت ہی ہے جو سوشل میڈیا سے نکل کر
کپتان کے جلسوں تک جاپہنتی ہے۔ تحریک انصاف کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو
اس ڈگر سے دور رکھے اور قدم اُٹھانا ہے پھونک پھونک کر اُٹھائے۔ وقت کم اور
مقابلہ بہت سخت ہے۔ کوئی ایک بھی غلطی تحریک انصاف کے لیے سخت مشکلات کا
سبب بن سکتی ہے- |