بسم اﷲ الرحمن الرحیم
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے دورہ بنگلہ دیش کے د وران بالآخر اس بات
کا اعتراف کر لیا ہے کہ 1971ء میں بھارت سرکار نے ہی پاکستان کو دولخت کرنے
کی سازش کی اور اس حوالہ سے مکتی باہنی کی بھرپور مدد کی گئی تھی۔ان کے اس
دورہ کے موقع پر ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں سابق بھارتی وزیر اعظم
اٹل بہاری واجپائی کو بنگلہ دیش کے قیام میں ’فعال کردار‘ ادا کرنے اور
دونوں ممالک کے تعلقات مضبوط بنانے پر ’بنگلہ دیش لبریشن وار آنر‘ سے نوازا
گیا۔ نریندر مودی نے واجپائی کیلئے یہ اعزاز بنگلہ دیشی صدر عبدالحمید کے
ہاتھوں وصول کیا۔بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جب بنگلہ دیش کے قیام
کیلئے بنگلہ دیشی اپنا خون بہا رہے تھے تو بھارتیوں نے بھی انکے ساتھ کندھے
سے کندھا ملا کر ان کا خواب پورا کرنے میں مدد کی۔
سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جس پر44برس گزرنے کے بعد آج
بھی ہر درد دل رکھنے والا مسلمان اپنے سینے میں درد محسوس کرتا ہے۔ بھارت
سرکار نے کس طرح منظم سازشوں ومنصوبہ بندی کے تحت نفرتوں کے بیج بوئے‘مشرقی
پاکستان کی یونیورسٹیوں میں ہندو اساتذہ تعینات کر کے نظریہ پاکستان کی
جڑیں کھوکھلی کی گئیں اور پھر تسلیم شدہ بین الاقوامی بارڈرکراس کر کے
باقاعدہ فوج کشی کر کے مشرقی پاکستان کو الگ کر دیا ‘ یہ سب حقائق دنیا کے
سامنے ہیں اور یہ باتیں ایک ایسی زندہ حقیقت ہیں کہ جن کا کسی صورت انکار
نہیں کیاجاسکتا۔ بھارت نے پاکستان کے وجود کو شروع دن سے تسلیم نہیں کیا اس
لئے ہندو بنئے کو جب یہ یقین ہو چکا تھا کہ پاکستان کے قیام کو روکنااب
ممکن نہیں ہے تو اس نے انگریز کے ساتھ مل کر اسی وقت سے سازشوں کے بیج بونے
شروع کر دیے تھے۔ سب سے پہلے کلکتہ، حیدرآباد دکن، احمد آباد گجرات،
مناوادرجونا گڑھ اور دیگر مسلم اکثریتی علاقے جنہوں نے پاکستان کے ساتھ
الحاق کا اعلان کیا تھا انہیں زبردستی ہندوستان میں شامل کیا گیا اورپھر
کشمیر جسے قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا
تھا29اکتوبر 1947ء کو وہاں فوج داخل کر کے قبضہ کر لیا اور پھر 6نومبر 47ء
میں ہی جموں کے چھ اضلاع جو مسلم اکثریتی علاقے تھے وہاں ڈیڑھ لاکھ سے زائد
کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کیا اور بھارت سے ہندوؤں کو لاکر آبادی کے
تناسب کو تبدیل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اصل سازش کا آغاز
یہیں سے ہوا تھا اس کے بعد انہی سازشوں کو آگے بڑھاتے ہوئے16دسمبر 1971ء
کومشرقی پاکستان میں فوج داخل کر دی گئی۔یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا تھا
بھارت کئی برسوں سے یہ کھیل کھیل رہا تھا۔ 1969ء میں جماعت اسلامی بنگلہ
دیش کے مرکزی قائد پروفیسر غلام اعظم جنہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی اور وہ
جیل میں ہی وفات پاچکے ہیں‘ انہیں پاکستان آنے کی دعوت دی گئی جس پروہ
سرگودھا کالج کی ایک تقریب میں شرکت کیلئے تشریف لائے۔اس موقع پرانہوں نے
جو خطاب کیاوہ بہت فکر انگیز تھا۔ انکا کہنا تھا کہ میں مشرقی پاکستان کو
اس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ وہاں بھارتی سازشیں عروج پر ہیں۔ اگرچہ ہم
ان کا بھرپور مقابلہ کر رہے ہیں لیکن میں یہ نصیحت کرتاہوں کہ ہمارے ساتھ
جو کچھ بھی ہو آپ نے پاکستان کو بچا کر رکھنا ہے۔اسی طرح مطیع الرحمن نظامی
و دیگر لیڈروں کا بھی یہی کہنا تھا کہ بھارت مشرقی پاکستان کو الگ کرنا
چاہتا ہے لیکن افسوس کہ اس وقت کے حکمرانوں نے غاصب بھارت کی ان سازشوں کے
توڑ کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا اورپھر پاکستان دولخت ہو کر رہ گیا۔ یہ
ہماری غلطیاں ہیں جن سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت کے
کشمیر پرفوجی قبضہ کے بعدہندو بنئے کو اس کی فطرت کے مطابق جواب دیا جاتا
تو سقوط ڈھاکہ کا سانحہ نہ ہوتا۔ پاکستان کے وجود کا دشمن انڈیا اب بھی وطن
عزیز کے خلاف گھناؤنی سازشیں کر رہا ہے اور بلوچستان میں مشرقی پاکستان
والی کیفیت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ بھی ان کا
خصوصی ہدف ہے جسے سبوتاژ کرنے کیلئے بھارت سرکار نے بہت بڑا بجٹ مختص کیا
ہے اور باقاعدہ ایک سیل بنا کراس کے ذمہ یہ کام لگایا گیا ہے۔یہ وہ سازشیں
ہیں جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں۔بھارتی وزراء کے بیانات سب کے سامنے
ہیں۔ ہندوستانی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے تو صاف طور پرپاکستان میں قتل و
غارت گری کیلئے دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے کی دھمکی دی ہے۔اس سے مودی
سرکار کے پاکستان کے خلاف مذموم عزائم کابخوبی انداز کیا جاسکتا ہے۔
ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ٹویٹر پر لکھا کہ ہر بھارتی چاہتا تھا
کہ آزاد بنگلہ دیش کا خواب حقیقت بنے۔یہی وجہ ہے کہ جب بنگلہ دیش کے قیام
کی حمایت میں دہلی میں ستیہ گرہ تحریک چلی تو نوجوان رضاکار کے طور پروہ
بھی اس میں شامل ہونے کیلئے آئے تھے۔اپنے دورہ بنگلہ دیش کے دوران نریندر
مودی نے بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کو 6 دسمبر 1971ء کو پارلیمنٹ میں
کی جانے والی اٹل بہاری واجپائی کی تقریر یاد دلائی جس میں انہوں نے بھارتی
حکومت سے بنگلہ دیش تسلیم کرنے کی درخواست کی تھی۔حسینہ واجدنے بھی واجپائی
کو انتہائی قابل احترام سیاستدان قرار دیا اور نہ صرف بنگلہ دیش کی جنگ میں
انکے ’فعال کردار‘ کا ذکر کیابلکہ پاکستان توڑنے اور غیرمستحکم کرنے کے
اعتراف میں واجپائی کو فرینڈز آف بنگلہ دیش لبریشن وار ایوارڈ دیا گیا جو
نریندر مودی نے وصول کیا۔ اس سے قبل 2012ء میں اندراگاندھی کو بھی اسی
ایوارڈ سے نوازا گیا جسے کانگریس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی نے وصول کیا
تھا۔بھارتی وزیر اعظم نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران کم از کم
4 مرتبہ پاکستان کا نام لیا اور دہشت گردی کے حوالہ سے بے بنیاد الزام
تراشیاں کی گئیں۔پاکستان کاکوئی صوبہ اور شہر بھارتی تخریب کاری اور دہشت
گردی سے محفوظ نہیں رہاتاہم دہشت گردی کا پروپیگنڈا پاکستان کے خلاف
کیاجارہا ہے۔ یہ ڈھٹائی کی انتہا ہے۔ حکومت پاکستان کو نریندر مودی کے
حالیہ اعتراف پر کسی صورت خاموش نہیں رہناچاہیے بلکہ انڈیا کے دہشت گردانہ
کردار کوبے نقاب کرنے کیلئے سفارتی سطح پربھرپور مہم چلانی چاہیے۔افسوسناک
امر یہ ہے کہ دنیا میں نام نہاد امن کے ٹھیکیداروں کا ضمیر سویا ہوا ہے اور
پاکستان کے ایک مسلم ملک ہونے کی بنا پران کا واضح جھکاؤبھارت کی جانب ہے
وگرنہ اب اس امر کے تسلیم کرنے میں کیا شک و شبہ رہ جاتا ہے کہ ہندوستان
ہمسایہ ممالک کو غیر مستحکم کرنے اور اندرونی خلفشار میں مبتلا کرنے کیلئے
سرکاری سطح پر سازشیں کر تا آیاہے اورکر رہا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھی اس کے
مظالم دن بدن بڑھتے جارہے ہیں۔ آٹھ لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں کشمیری
مسلمان سبز ہلالی پرچم لہرا رہے ہیں اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے
ہیں جس پر بھارتی حکمرانوں کو پوری دنیا پر سخت خفت اٹھانا پڑ رہی ہے اور
خود اپنے ملک میں ان کی مقبولیت کا گراف مسلسل نیچے گر رہا ہے۔نریندر مودی
اب سانحہ مشرقی پاکستان میں کردار ادا کرنے اور اسلام و پاکستان دشمنی کی
باتیں کر کے اپنے اس گرتے گراف کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس مقصد
میں کامیا ب نہیں ہوں گے۔ اپنے ایک سالہ دور اقتدار میں سوائے مسلم ہندو
فسادات، غربت ، کسانوں کی خودکشیوں اور دنگا فساد کے انہوں نے بھارتی عوام
کو کچھ نہیں دیااس لئے آئندہ انہیں اقتدار ملنا دکھائی نہیں دیتا۔ ہندو
انتہاپسند تنظیم بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان کے خلاف سازشیں
بہت بڑھ گئی ہیں۔ جب مودی سرکار وطن عزیز پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار
کرنے کے ایجنڈے پر عمل درآمد کیلئے یکسو ہے تووزیر اعظم نوازشریف کو بھی
قومی معاملات، مسئلہ کشمیر ، بھارت سے تعلقات اور ملکی مفادات کے تحفظ کے
حوالہ سے کسی قسم کی مصلحت پسندی سے کام نہیں لینا چاہیے۔ پاکستان اس وقت
حالت جنگ میں ہے۔ بھارت، امریکہ اور ان کے اتحادی چاروں اطراف سے وطن عزیز
پاکستان کاگھیراؤ کر رہے ہیں اور اسے ایک بار پھر مشرقی پاکستان والی
صورتحال سے دوچار کرنا چاہتے ہیں ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ یہاں بھی بعض لوگ
ایسے موجود ہیں جو عملی طور پر دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ جب مشرقی
پاکستان میں پاکستانی فوج اور ریاست کے خلاف جنگ لڑی جارہی تھی تو اس وقت
بھی مسلمانوں کے گلے کاٹنے والے بعض لوگ خود کو حق پر سمجھتے تھے مگر تاریخ
نے ثابت کیاکہ جسے وہ اپنی جنگ سمجھ رہے تھے وہ درحقیقت انڈیا کی تھی۔ہم
سمجھتے ہیں کہ آج بھی ایسے لوگوں کو پاکستان دشمن قوتوں کے عزائم کو بخوبی
سمجھنا اورکلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کئے گئے ملک کے خلاف سازشوں کا
شکارنہیں ہونا چاہیے۔ |