مسائل زِندگی اور غصّہ
(سید جہانزیب عابدی, کراچی)
R E V I S E D
آجکل جب ہم سڑکوں اور شاہراہوں پر ٹیکسی، بس، موٹر سائیکل پر یا پیدل چل
رہے ہوتے ہیں بہت سے ایسے افراد نظر آتے ہیں جو بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پر
ایک دوسرے کے دست و گریبان ہوجاتے ہیں۔
مطلوبہ موضوع پر کچھ عرصے پہلے کسی خبر میں اس کی وجہ معاشی سختیاں بتائی
گئیں تھیں۔ بے روزگاری اور کساد بازاری عوام کو اس کیفیت میں متبلا کرتی
ہے۔
بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اکثر ایک ہارن یا لاشعوری اوور ٹیک گلیوں اور
سڑکوں پر گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے تک لے جاتی ہے جس کا نتیجہ سوائے
پشیمانی اور اور سکون کی رخصتی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔
گھروں کے اندر بھی چھوٹا سا مسئلہ چیخم دھاڑ اور مار دھاڑ میں تبدیل ہوجاتا
ہے ، ہم ان مسئلوں کو یہاں تجزیہ کریں گے اور دیکھیں گے کہ ایک چھوٹاسا غیر
اہم مسئلہ کیوں صبر اور درگذر کو ہاتھ سے گنوا بیٹھتا ہے۔
بجائے اس کے کہ ہم غصہ اور جھگڑے کی جڑ کو رفع کرنے کی کوشش کریں، صرف اور
صرف دوسروں کے کندھوں پر تمام غلطیوں کا بار ڈال دیتے ہیں اور حکومت اور
میڈیا وغیرہ کو اس جھگڑے اور سختیوں کا قصور وار گردانتے ہیں۔یہ نہیں کہتا
کہ یہ ادارے ان سختیوں اور مشکلات میں قصور وار نہیں ہیں، البتہ وہ اگر کچھ
نہیں کررہے اور اپنی ذمہ داری ادا نہیں کررہے تو کیوں ہم خود اپنی زندگی کو
محبتوں اور خوشیوں اور مسکراہٹوں سے محروم کریں اور بجائے پیار اور میٹیر
زبان اور گفتگو کے ننگی گالیاں دے کر، برا بھلا کہہ کراور جھگڑا کرکے اپنی
زندگی کو جہنم بنا لیں؟
جاپانیوں نے پانی پر ایک تجربہ کیا ہے اور دیکھا کہ کس طرح ایک منفی احساس،
ایک برا جملہ یا لفظ، ایک بری نظر پانی کے مولیکیول پر اثر انداز ہوتی ہے
اور اُس مولیکول کو گندا اور بدنما بنا دیتی ہے جبکہ اس کے برعکس میٹھی
زبان، پُر امیدی اور شادابی، روحانیت اور دعا پانی کے مولیکول کو خوبصورتی
میں تبدیل کردیتی ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ہم انسانوں کے جسم میں تقریباََ 70
فیصد پانی ہے، تھوڑا غور کیجیے کہ ہر لفظ، ہمارے کردار اور ہمارے احساسات
پر کیا تاثیر چھوڑتا ہوگا؟
اگر معاشرہ میں پارٹی بازی کی وجہ سے تھک چکے ہیں اور آپ کے اعصاب جواب دے
چکے ہیں تو قرآن کے اس پیغام کو ہر روز دہرایا کیجیے«إِنِّی تَوَکَّلْتُ
عَلَی اللّهِ رَبِّی وَرَبِّکُم مَّا مِن دَآبَّةٍ إِلاَّ هُوَ آخِذٌ
بِنَاصِیَتِهَا إِنَّ رَبِّی عَلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ»(سورہ هود،56)بے
شک میں نے اللہ پر جو میرا اور تمھارا پروردگار ہے پر اعتماد کرلیا ہے۔
کوئی حرکت دینے والا نہیں ہے مگر یہ کہ اُس کی مہار اُس اللہ کے ہاتھ میں
ہے، مجھے یقین ہے کہ میرا پروردگار مدد کرنے والا ہے۔ اس کے علاوہ
حَسْبُنَا اللّهُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ (173 / سورہ آل عمران)بے شک ہمارے
لئے خدا ہی کافی ہے اور وہ سب بڑھ کر ساتھی ہے۔نیز اپنی حق بجانب پارٹی کی
کامیابی کیلئے یہ خوشخبری بھی سنتے جائیں، قرآن مجید کی آیت ہے:
لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ
الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا
أَذًى كَثِيرًا ۚوَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ
الْأُمُورِ ۔مسلمانو! تمہیں مال اور جان دونوں کی آزمائشیں پیش آ کر رہیں
گی، اور تم اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے اگر ان سب
حالات میں تم صبر اور تقوے کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلہ کا کام ہے۔
(سورہ آل عمران/186)نیز امام جعفر صادق فرماتے ہیں:الْمُؤْمِنُ إِذَا
غَضِبَ لَمْ يُخْرِجْهُ غَضَبُهُ مِنْ حَقٍّ وَ إِذَا رَضِيَ لَمْ
يُدْخِلْهُ رِضَاهُ فِي بَاطِلٍ وَ الَّذِي إِذَا قَدَرَ لَمْ يَأْخُذْ
أَكْثَرَ مِمَّا لَهُ.ایمان والا جب بھی(کسی باطل عمل پر) غصہ میں آتا ہے
تو اُس کا غصہ اُسے حق سے باہر نہیں کرتا اور جب وہ کسی بات پر خوش ہوتا ہے
تو اُس کی خوشی اُسے باطل کی طرف کھینچ نہیں لے جاتی اور جب قدرت مند ہوتا
ہے تو اپنے حق سے زیادہ نہیں لیتا۔(بحارالأنوار(ط-بیروت) ج 75 ، ص 209، ح
85)
شاید آپ کہیں: بہت اچھا مگر کبھی ہمارے اعصاب اور غصہ ہمارے کنٹرول میں
نہیں رہتا ، کیا کریں؟ عرض ہے کہ ہم پیدائشی غصہ کرنے والے نہیں ہیں، نہ
ہمارے دوست ایسے ہیں نہ ہی سکون اور آرام ذاتی ہے بلکہ یہ صفات اکتسابی
ہیں، ماحول سے لی جاتی ہیں سیکھی جاتی ہیں۔
ہمیں اپنے اعصاب کو کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ غصہ اور سختی ہم نے
اپنے گھر سے، اپنے ماحول سے سیکھی ہیں اور اُس کو معاشی مشکلات تک لے گئے
ہیں،آپ کے پاس غصہ کے لئے کوئی بھی دلیل ہو مگر یہ صفت قرآنی اخلاق اور ایک
مسلمان کیلئے اچھی نہیں ہے۔
وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ
الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ۔
الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا
إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ۔ أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ
وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ۔اور ہم ضرور تمہیں خوف و
خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے
تمہاری آزمائش کریں گے ۔اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت
پڑے، تو کہیں کہ: "ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا
ہے" ۔انہیں خوش خبری دے دو ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی،
اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں ۔(سورہ بقرہ
/155،156،157)
ہم کو بھولنا نہیں چاہیے ہے کہ بہت سادہ سا گناہ غصہ کرنا ، گالیاں دینا
اور برا بھلا کہنا ہے جو عشق و محبت و مہربانی کے رشتوں کو ایک دوسرے سے
ختم کرکے نفرت اور کینہ میں بدل دیتا ہے، ایسے افراد سے لوگ ملنا بھی پسند
نہیں کرتے جو بات بات پر غصہ کرتا ہو اور چڑچڑاتا ہو۔امام علی علیہ السلام
فرماتے ہیں:جب تم کسی سے دوستی کرنا چاہو تو اُسے تین دفعہ غصہ میں لا کر
دیکھو اگر وہ غصہ میں بد گوئی کرنے لگتا ہے تو اُس سے دوستی کا ارادہ ترک
کردو۔ (غُرر الحکم)
چند آسان حل
اگر ہماری نفرت اور غصہ بے روزگاری کی وجہ سے ہے تو ہم خود سے کام کیوں
نہیں شروع کردیتے اور خود سے کوئی مشغلہ یا کام ایجاد کرلیں، اکثر دیکھنے
میں آتا ہے کہ کام وجود رکھتا ہے مگر ہم کیوں کہ اپنے من پسند کام حاصل
کرنا چاہتے ہیں اور کسی میز کی پشت پر گھومنے والی کرسی اور اے سی کمرے میں
بیٹھ کر کام کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہم بے روزگار رہتے ہیں۔
اگر شادی نہ ہونا اور ہمسفر نہ ملنے کی وجہ سے غصہ ہے تو سب سے پہلے خدا سے
دعا کریں(اس مورد میں بہت دعا اور اذکار موجود ہیں) اور ساتھ ہی ساتھ مناسب
ہمسفر کی تلاش کرتے رہیں۔
کامیابی اور سکون کیلئے ہم کو بھولنا نہیں چاہیے کہ ان زرق و برق زمانے میں
ہم فکر بھی ہیں اور بے دست و پا کردیتے والے بھی، عفت و پاکدامنی کو ہمیں
اپنا معیار قرار دینا چاہیے کیونکہ قرآن مجید کی صریح آیت ہے:
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ
اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ۗ اور جو لوگ نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتے انہیں
چاہیے کہ عفت اور ضبط نفس سے کام لیں یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے
غنی کر دے۔(سورہ نور /33) اگر ہم پاک اور نیک ہمسفر چاہتے ہیں تو قرآن مجید
کے مطابق ہم کو خود بھی پاک اور دیانت دار ہونا چاہیے۔ الْخَبِيثَاتُ
لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ
لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ خبیث عورتیں خبیث مردوں
کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے
لیے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔(سورہ نور/26)
گھر میں بیوی پر غصہ کرنے والے کواپنی بیوی کے کاموں کا اندازہ کرنا چاہیے،
ایک دن اگر بیوی گھر کے کام نہ کرے تو گھر کی حالت قوم ثمود کی طرح عذاب
والی کیفیت میں الٹی ہوئی ہوگی، بیوی کے کاموں اور شوہر اپنے کاموں کی لسٹ
بنائے اور کاموں کی تعداد کے ساتھ نوعیت بھی جانچے۔ نیز میاں بیوی آپسی غصے
کو دور کرنے کیلئے غصہ کی رد میں روزآنہ 1 ،2 صفحہ لکھنا عادت بنالیں اور
اس کے مضر اثرات کو تحریر میں لے کر آئیں نیز آپس میں ان نکات پر تبادلہ
بھی کریں اور ڈسکس کریں۔قرآن مجید کی یہ آیت حقوق پر جھگڑنے والوں کیلئے ہی
ہے: وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ
عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ۔ عورتوں کے لیے بھی
معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں البتہ
مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا
اور حکیم و دانا موجود ہے۔ (سورہ بقرہ/228)
بچوں پر بھی غصہ کرنے سے بچیں کیوں کہ بچے ہمارے پڑھاپے کا سہارا اور آخرت
کیلئے سرمایہ کاری ہیں آج ہم اپنے بچوں کی تربیت بغیر الجھے اور غصہ کے
کریں گے تو ہمیں مستبل میں بھی مثبت نتائج اُن کی زندگی کے کامیاب تجربوں
کی صورت میں نصیب ہوں گے۔ چھوٹے بچوں پر ماہرین نفسیات نے بے شمار تحقیقات
کی ہیں اور ہزاروں کتابیں لکھ ڈالیں ہیں، ہم کو چند اچھی کتب کا مطالعہ
کرنا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ بچہ کیلئے اس نئی جگہ (دنیا) میں اُس کیلئے
کیا کیا چیلنجز ہیں اور وہ اُن کو کیسے پورا کرتا ہے اور کس طرح اس دنیا
میں مرحلہ وار سیکھنے کی کیفیت سے گذرتا ہے اور اُس کے وہ اعمال جس پر ہم
غصہ کھاتے ہیں وہ اُن سے جو کچھ سیکھ رہا ہوتا ہے مگر غصہ کرنے پر اُس کی
خود اعتمادی کو شدید ٹھیس پہنچتی ہے جو بڑے ہونے پر دبّو اور بودے پن کا
باعث ہوتی ہے۔ نیز ہم کو اپنے بچپنے کو بھی تصور کرنا چاہیے کہ اگر ہمارے
والدین نے ہم پر غصہ و برہمی دکھائی ہوتی تو ہمارے کیا جذبات ہوتے؟چھوٹی
چھوٹی باتوں پر غصہ کی چمک پیدا ہوتے ہیں وضو کا سہارا لیجیے۔ حدیث مبارکہ
میں ہے۔رسول اکرم ﷺ إنّ نے فرمایا:الغضب من الشّيطان و إنّ الشّيطان خلق من
النّار و إنّما تطفا النّار بالماء فإذا غضب أحدكم فليتوضّأ. غصہ شیطان کی
طرف سے ہے اور شیطان آگ سے خلق کیا گیا ہے اور آگ پانی سے بجھتی ہے، پس جب
بھی تم میں سے کوئی غصہ میں آیے تو وضو کرلے۔(نهج الفصاحه ص 286 ، ح 660)
کساد بازاری کے دور میں شاید بظاہر ہمار ے ہاتھ بندھے ہوتےہیں اور ملکی سطح
پرحقیقی ذمہ داری معاشی اور اقتصادی ماہروں کی ہو مگر ہم اپنے طرز اور
طریقوں سے اپنی معاشی حالت کو اپنے ہاتھوں درست کرسکتے ہیں اور اپنی زندگی
کو آسان بنا سکتے ہیں۔ کسطرح؟
کفایت شعاری کرنے سے ، ہر خواہش کو پورا کیے جانے سے روک کر، آنکھوں کی ہر
پسند پر مر مٹنا چھوڑ کر اور دوسرے بہت سے راستے کہ جو آپ خود بہتر
جانتےہیں قرآن مجید کی آیت ہے: أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ
وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِكُم ۖ
مَّسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ
الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّـهِ ۗ أَلَا
إِنَّ نَصْرَ اللَّـهِ قَرِيبٌ ۔کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ تم یوں ہی جنت
میں داخل ہو جاؤگے حالانکہ ابھی تک تمہارے سامنے تم سے پہلے گزرے ہوئے (اہل
ایمان) کی سی صورتیں (اور شکلیں) آئی ہی نہیں۔ جنہیں فقر و فاقہ اور سختیوں
نے گھیر لیا تھا۔ اور انہیں (تکلیف و مصائب کے) اس قدر جھٹکے دیئے گئے کہ
خود رسول اور ان پر ایمان لانے والے کہہ اٹھے کہ آخر اللہ کی مدد کب آئے
گی؟ آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ کی مدد یقینا نزدیک ہی ہے۔(سورہ بقرہ/214)
گالیاں منہ سے اُسی وقت نکلتی ہیں جب غصہ کی آگ عروج پر پہنچ چکی ہوتی ہے۔
غصہ اور انسان اپنے غصہ کو روکنے میں کمزوری کی دلیل پر اوچھی حرکت کرتاور
گالیوں میں گرفتار ہوجاتا ہے اور اس عادت کی تکرار سے یہ انسان کی عادت اور
مستقل صفت بن جاتی ہے۔قرآن مجید کی آیت ہے: وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ
وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ۔اور جو
غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ
کو بہت پسند ہیں۔(سورہ آل عمران/134)
ہم کو غصے کی نقصانات کا اندازہ کرنا چاہیے نیز ذہنی سکون، اطمینان کے درہم
برہم ہوجانے پر خوف کھانا چاہیے، غصہ کی چنگاری چمکتے ہی ذہن کو صبر و تحمل
کے فوائد او رغصے کے نقصانات پر غور کرنا شروع کردینا چاہیے۔امام علی
فرماتے ہیں: غضب و غصہ کی شدت انسان کی منطق (صحیح فکر) کو بدل دیتی ہے،
دلیل و حجت کی جڑوں کو کاٹ دیتی ہےاور سوچ پراگندہ کردیتی ہے۔(کنز الفوائد،
ج1، ص319)۔ غصہ کے دستک دیتے ہی خود کو ہشیار کرلینا اور سدباب کی کوشش
شروع کردینا ہی عقلمندی ہے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: سب سے زیادہ
حاضر جواب وہ ہے جو غصہ نہ کرے۔(غُرر الحکم/ج 1، ص 122،184)۔
جس چیز کو ہم تبدیل نہیں کرسکتے ، ہماری توانائی اور طاقت و ہمت سے تبدیلی
لانا محال ہے تو ہم کو اُس چیز کو قبول کرلینا چاہیے اور خداوند تعالیٰ کی
طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے اُس سے دعا و توسل کرتے رہنا چاہیے۔ خدا ہی ہے جو
ابراہیم علیہ السلام کیلئے بھڑکتی آگ کو ٹھنڈا کرسکتا ہے اور وہی ہے جو ہر
اُس معاملے کو پلٹ سکتا ہے جو کسی انسان کے بس میں بھی نہ ہو، اور دعا کو
تو ویسے بھی مومن کا ہتھیار کہا گیا ہے یعنی مومن غصّے و غضب میں بھی دعا و
توسل کو اپنے اسلحہ بنا کر کامیابی حاصل کرتا ہے۔
اگر غصہ دائمی کیفیت اختیار کررہا ہے تو یہ بیماری کی کیفیت ہے اور کوئی
بیماری ایسی نہیں جس کا علاج نہ ہو۔وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ۔اور
جب بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی شفا بھی دیتا ہے۔ (سورہ شعراء/80)، غصہ کی
مستقل کیفیت میں اچھے ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے اور اس دائمی غصہ کی
بیماری کا علاج کرنا ضروری ہے۔بعض دفعہ کچھ غذائیں بھی گرم مزاجی کا باعث
بنتی ہیں یا پیٹ کا خالی رہنا اور نیند کی کمی بھی غصہ میں اضافہ کرتی ہیں،
بغیر تفریح کے صرف کام کام اور انتھک محنت بھی اس مرض کا باعث بنتی ہے، چند
ماہ یا ہفتہ میں ایک دفعہ کسی پُرفضا اور ہرے بھرے قدرتی ماحول میں تفریح
کیلئے جانے سے مزاج اور طبیعت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، ٹی وی پر کسی
تفریحی پروگرام سے لطف اندوز ہوکر بھی یہ کیفیت دور کی جاسکتی ہے۔ ورزش
کریں اور مختلف من پسند آؤٹ ڈور یا اِن ڈور کھیل کھیلنے سی بھی مثبت نتائج
مرتب ہوتےہیں۔اشیا ء اور لوگوں کے مثبت پہلو نظر میں رکھیں اور منفی پہلوؤں
کو نظر انداز کریں، تعمیری پہلوؤں پر غور کریں اور مثبت کاموں اور افکار سے
لذت حاصل کریں۔ مال اور دنیا کی لذتوں کی حرص جو کہ کبھی پوری نہیں ہوتی
نتیجتاََ غصہ کی کیفیت کی پیدا کرتی ہے، کوشش کریں کہ دنیا کو ضرورت کے
مطابق حاصل کریں یا اتنی جدوجہد کریں جو اعتدال کی روش ہو۔ساتھ ہی اپنی
کامیابیوں پر یا غلطیوں پر کبھی افراط و تفریط کا شکار نہ ہوں، یعنی
کامیابی پر مغرور اور ناکامی پر مایوسی سے دور رہیں، کیونکہ یہ دونوں
کیفیات بھی غصہ کا باعث بنتی ہیں۔
بعض دفعہ تنہائی اور مستقل ایک ہر ڈگر پر کام کرتے رہنا بھی اکتاہٹ اور پھر
غصہ کی کیفیت پیدا کرتا ہے،حدیثِ مبارکہ میں ہے :صلہ رحمی میں زندگی ہے عمر
بڑھتی ہے، ہمیں اپنے روزآنہ کے مصروف لمحات میں کچھ وقت گھر والوں ، بچوں،
دوستوں اور رشتوں داروں کے ساتھ ملنے جلنے اور باہمی دلچسپی کے امور پر
تبادلہ خیال کرنے میں صرف کرنا چاہیے ہے ، نماز جماعت میں شرکت کریں ،
محافل اور میلاد کی مجالس میں بھی جذبات اور احساسات معتدل رہتے ہیں نیز
تواہمات سے دور رہ کر انسان خوش باش زندگی میں جیتا ہے۔
اگر ہم اس طرح اپنے اندرونی کیفیات پر نگاہ ڈالیں تو ہم اپنی خوشی اور
کامیابی کو صرف مادیات کے حصول یا مصرف میں ہی نہیں سںھیں گے، خدا کواپنی
زندگی کے ساتھ جانیں ، ہماری کوشش روحانیت کے ساتھ ہو۔ اس طرح ہماری زندگی
میں سکون و آرام زیادہ اور پائیداری کے ساتھ ہوگا، استغفار اور خدا اور
امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) سے توسل کو اپنا معمول بنالیں۔
شاید آپ کہیں: صرف معنویت اور روحانیت کے ساتھ گھر کا راشن اور گھر کا
کرایہ نہیں دے سکتے وغیرہ
میں کہتا ہوں کہ کوشش اور محنت اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں دینی
فرائض/واجبات اور حرام و محرمات اور روحانیت کا بھی خیال رکھیں، تقوے سے
انسان کی عقل میں اضافہ ہوتا ہے اور عقل مسئلوں کے حل کرنے میں مدد گار ہے۔
آج کے زرق برق مادّی دور میں جتنا دین مبین اسلام کے اصول اور معیارات کی
ضرورت ہے اتنا پہلے نہیں تھی، اگر ہم اپنے تمام وجود اور اپنے خلوص دل اور
قلبی عقیدہ کے ساتھ دینی قوانین پر نظر ڈالیں اور دینی ماہرین کی راہنمائی
میں کوشش کریں کہ ان قوانین کو زندگی میں جاری کریں گے تو یقیناََ ہم آرام
و اطمینان کی زندگی شروع کردیں گے، اور یہ تو خدواند تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ
بے شک خدا کی یاد سچے دلوں کے آرام و اطمینان کا باعث ہے۔أَلَا بِذِكْرِ
اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (سورہ رعد/28) |
|