عشق اور عاشقی
(سید جہانزیب عابدی, کراچی)
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ
لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ
بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ
يَتَفَكَّرُونَ
اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری
ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔ اور تمہارے درمیان
محبت اور رحمت (نرم دلی و ہمدردی) پیدا کر دی۔ بے شک اس میں غور و فکر کرنے
والوں کیلئے بہت نشانیاں ہیں۔(سورہ روم/21)
خود کو پسند کیے جانے اور دوسروں کو پسند کرنے کی حِس تمام انسانوں میں
پائی جاتی ہے۔ ظاہری و جسمانی وضع قطع، ذاتی یا خاندانی کردار و اطوار،
فردی مہارتیں اور ہنر مندیاں اس پسند کا محور ہوتی ہیں۔
شادی عشق کرنے کے بعد ہونی چاہیے یا شادی کے بعد عشق ہونا چاہیے نیز عشق کی
سائنس کیا ہے؟
پہلے ہم عشق کے لفظ پر تھوڑی نظر ڈالتے ہیں۔
لوگوں کی نظر میں اس لفظ کے بہت سے مختلف معنیٰ ہیں، کہتےہیں کہ عشق کے
معنیٰ چاہنا کے ہیں، لیکن عربی زبان میں ایک پیچ دار صحرائی بیل یا نیلوفر
کو "عشقہ" کہتے ہیں، یہ بیل جس درخت پر چڑھتی ہے اور جتنا اوپر جاتی رہتی
ہے حتیٰ اس قدر اوپر چلی جاتی ہے کہ پھر خود خشک ہوجاتی ہے اور اپنی
توانائیاں اُس پودے کو بخش دیتی ہے۔
ہم عشق کے لفظ کو سادہ سی زبان میں 'پسند کرنا' تعریف کرسکتے ہیں یا دوسری
تعریف میں اس جذبے کو شدید محبت اور حتیٰ گہرا جذبہ سمجھ سکتے ہیں ۔
عشق صرف شادی کیلئے ہوتا ہے ، شدید ترین عشق شادی کے بعد خوشحالی اور ایک
دوسرے کی رضایت کے ساتھ اس شادی شدہ جوڑے کے تعلق کو پائیدار رکھنے کیلئے
بہت ضروری ہے۔
مغربی مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ وہ شادی سے پہلے کے عشق اور شادی کے بعد
کے عشق کو الگ الگ تصور کرتے ہیں، نیز جنس مخالف کےساتھ عشق کے لفظ کو
زیادہ تر جنسی تسکین کیلئے استعمال کرتےہیں۔
البتہ ممکن ہے کہ افرد جتنا زیادہ عشق کا تجربہ کریں، خوشی اور نشاط کا
احساس کریں، مگر عاشق ہونا اور عاشقانہ زندگی گذارنے کا مطلوب اثر شادی کے
ساتھ ہی ممکن ہے۔
امریکی ماہر نفسیات اپنے ایک مشہور نظریہ جو کہ عشق کے مثلث کے نام سے
مشہور ہے کہتا ہے کہ عشق تین بنیادوں پر مکمل ہوتا ہے۔ دل کی پاکیزگی، جنسی
کشش، اور ذمہ داری ۔
ہم ایسے رابطے و تعلق کو جس میں دل کی پاکیزگی ہو (نہ جنسی کشش ،نہ ذمہ
داری) سادہ دوستی کے نام سے جانتے ہیں، جنسی کشش ایک ایسے قسم کے عشق کو
پیدا کرتی ہے جس کے امتیازات میں بے عقلی گھٹیا پن ہے اور فقط ذمہ داری کی
بنیاد پرتعلق ایک باطل عشق ہے۔
پس شادی کیلے جو کہ ایک طولانی رابطہ ہوتا ہے؛ ایک یا دو جز سے زیادہ کی
ضرورت ہے۔ رومینٹک اور شہوانی عشق جو ذمہ داری سے دور ہوتا ہے اکثر دوام
پذیر نہیں ہوتا۔ ترحم آمیز عشق جس میں کہ شھوت نہیں ہوتی اور جو ممکن ہے کہ
آیندہ بعض وجوہات کی بنا پر شادی کو طول نہ دے سکے۔ جھوٹا عشق جس میں بظاہر
دل کی پاکیزگی ہوتی ہے مگر ذمہ داری نہیں ہوتی اور جس میں جلد بازی ہوتی ہے
۔
دوسری طرف شور شرابے سے بھرپور عشق شادی سے پہلے ممکن ہے بجائے اس کے کہ
ایک پاکیزہ تعلق کو ظاہر کرے اور مستبقل کی ذمہ داری کا آئینہ دار ہو ،
نفسیاتی گڑبڑ کا شاخسانہ ہوتا ہے، جس میں کردار کی بد خلقی بھی شامل ہے اور
جس میں فکر و غور کے بجائے جلد بازی ہوتی ہے۔ ایسا عاشق معشوق کو بے نقص
اور کامل سمجھ بیٹھتا ہے اور صرف اپنے معشوق کو سمجھتا ہے کہ جو اُس کو
بدبختیوں اور احساساتِ محرومی سے نکال کر سعادت اور اطمینان کی طرف لے
جاسکتا ہے۔ہوتا یہ ہے کہ جب عاشق معشوق کو ایسا مقدس اور معصوم مقام پر فرض
کرتا ہے اور وہ اُس پر پورا نہیں اترتا تو عاشق معشوق کو بھیڑیا سمجھنے
لگتا ہے جو بھیڑ کے لباس میں ہے۔ اسی لئے شدید ترین عاشقوں کو شادی سے پہلے
کافی غور و خوص اور تدبر کرلینا چاہیے۔ اور ایسے شدید قسم کے جذبات میں
فیصلے سے پہلے کسی اچھے ماہرنفیسات سے رجوع کرنا چاہیے۔
شادی سے پہلے عشق ،ضروری نہیں ہمیشہ شادی کی کامیابی کی ضمانت ہو لیکن اسی
کے ساتھ آنکھوں کی اور کانوں کی بندش سے بچنا چاہیے۔
یہ بھی جان لینا چاہیے کہ کامیاب شادی کیلئے صرف عشق ہی کافی نہیں ہے بلکہ
دوسری خصوصیات جیسے کہ ایک دوسرے کی ہم فکری، جسمانی، نفسیاتی، عقلی، مالی
طاقت و توانائی ہو جو کہ ثقافت اور تعلیم اور ان دونوں کے معاشرتی طبقے کی
ضرورتوں اور مشترک اہداف پر مبنی ہوں، مشترک تفریحات ہوں جس پر دونوں متفق
ہوں۔ وغیرہ
آج کی نسل قدیم زندگی اور ماڈرن دنیا میں بیچ کی راہ دیکھ رہی ہے اور اس کا
حصول کافی مشکل ہے۔ والدین کو چاہیے کہ ایک مشترک زندگی کی راہ ہموار کریں
جس میں اطاعت اور خوشی و اطمینان اور رضایت ہو۔ جوان حضرات بھی جان لیں کہ
والدین کے تجربے اور صلاحیتوں سے بے نیاز نہیں ہوسکتے اور صرف ایک ہیجانی
اور شھوانی رابطےکی خاطر تمام اقدار کو پس پشت نہیں ڈال سکتے۔
کیوں بہت سے شادی شدہ جوڑے عشق و محبت کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں
اور پھر اچانک بند گلی میں پہنچ جاتے ہیں کیا یہ غلط راستہ بعد میں ان کو
ملا یا شروع سے ہی غلط راستے کا انتخاب کیا ہے؟ کس طرح جلد ختم ہوجانے والے
عشق اور عشق واقعی میں فرق کریں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے اوپر نیلوفر
بیل کی جو مثال دی تھی وہ ایک اچھی مثال ہے جس میں عاشق معشوق کی خاطر اپنی
توانائیاں خرچ کرتا ہے اور مشقتیں کرتا ہے۔
افسانوی عشق صرف کتابوں میں ہوتے ہیں!
بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری زبان کے ادب میں بہت سے ایسےعشق
مشابہ الفاظ سے استفادہ کیا جاتا ہے ۔ ایسے عاشقی افسانہ جو عشق کے عنوان
سے ہمارے ادب میں موجود ہے اس کا حقیقت کی دنیا سے بہت کم ہی واسطہ ہوتا
ہے۔ حتیٰ ایک شخص جب دعویٰ کرتا ہے کہ وہ فلاں کو بے انتہا پسند کرتا ہے
اور چاہتا ہے کہ اُس کیلے آسمان سے تارے توڑ لائے تاکہ اُسے حاصل کرلے، اور
اس کیلئے طرف مقابل سے ہر طرح کے بحث و مباحثہ کیلئے تیار رہتا ہے کیا
واقعی ایسا ممکن ہے یا نہیں کہ جیسا وہ سمجھ رہا ہے ویسا ہی ہے۔ انسانی
رابطوں میں ایسے رابطے بعید ہیں لیکن ناممکن نہیں ہیں؛ مثلا ایسا عشق انسان
اور خداوند متعال کے درمیان امکان پذیر ہے۔ ہم جب کسی شخص کی طرف ملتفت
ہوتے ہیں، اُسے پسند کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُس کی تمام تر توجہ ہماری
طرف رہے اور اگر وہ کسی دوسرے کی طرف توجہ کرے تو ہم کو اذیت ہوتی ہے۔ صرف
خداتعالٰی ہے کہ جو ہمارا دوست ہے اور جس وقت وہ دوسروں کی طرف توجہ کرتا
ہے ہم کو اذیت نہیں ہوتی بلکہ ہم خوش ہوتےہیں۔ یہ ایک واحد مثال ہے جو عشق
حضوری اور عشقِ حقیقی کی ہے۔ایسے ہی عشق ہمیشہ پائدار رہتے ہیں جو خدواند
متعال کے عشق کے پرتو میں پروان چڑھتے ہیں۔ اور جس کا مقصد خدا تعالیٰ کی
خوشنودی اور رضایت ہوتا ہے۔ ایسے عشق خواہ مساجد کی نورانی فضاء سے ،
زیارتگاہوں پر مومنین و مومنات کے مجمع سے یا پھر فیملی اجتماعات سے ارتقاء
کریں۔۔۔ عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی کی راہ دریافت کرنا ہی دراصل عشق مجازی
کا کارنامہ ہے۔دنیا کے لوگوں سے محبت میں مشقت کرنا، اذیتیں اٹھانا ،
زحمتیں برداشت کرنا ، صعوبتیں جھیلنا تاکہ اپنے معشوق کی رضا حاصل کی جائے
دراصل انسان میں خدا کے عشق (عشق حقیقی) کے اصول و قوانین کو واضح کردیتا
ہے کہ جب ایک بندہ سے
عشق کے تقاضے ایسے ہیں تو خالق سے عشق کے تقاضے یقیناََ زیادہ ہی ہوں گے۔
عامل محرکہ کو پہچانیں!
جس وقت دو مخالف جنس مثلا ایک دفتر میں یونیورسٹی میں یا منگنی کے وقت ایک
دوسرے کو دیکھتے ہیں یا کہیں بھی معاشرتی رابطہ برقرار کرتےہیں اور دونوں
ایک دوسرے میں الفت کا احساس کرتے ہیں، یہ احساس ان میں ہر روز زیادہ ہوتا
جاتا ہے یہاں تک کہ یہ رابطہ نزدیک ترین رابطہ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور پھر
متوجہ ہوتے ہیں کہ ہم دونوں تو ایک دوسرے سے وابستہ ہوگئے ہیں اور ایک
دوسرے کے بغیر رہ نہیں سکتے۔پہلا سوال جو ایسے افراد کو خود سے کرنا چاہیے
وہ یہ کہ یہ پسندیدگی جو وہ ایک دوسرے کیلئے محسوس کررہے ہیں اور جو ساتھ
مرنے اور جینے تک پہنچ گئی ہے، کہاں سے شروع ہوئی تھی؟ یعنی اس حرکت کی
بنیاد کیا ہے؟ اُس کی ظاہری حالت کا اثر ہے یا اُس کے اچھے اطوار ہیں یا
اُس کے سماجی نظریات ہیں جس نے ہماری توجہ کو اُس کی طرف کھینچ لیا ہے یا
حتیٰ ممکن ہے کہ اُس کی معاشی اور اقتصادی حالت یا معاشرے میں اونچا مقام
اس بات کا سبب بنا ہے کہ ہم اُس کی طرف جذب ہوجائیں۔ پس پہلے مرحلے میں ہم
کو سچے تحقیقی انداز میں اس عامل کو مشخص کرنا چاہیے جو کہ آئدسہ ہمارے
رابطے اور وابستگی میں بہت کلیدی کردار ادا کرے گا۔
ایسا عشق جو بہت جلد نفرت میں تبدیل ہوجاتا ہے!
جوانوں کو انسانی رابطوں پر بہت دقت سے غور کرنا چاہیے ، شاید ہم کسی فرد
کو بہت زیادہ پسند کرتے ہوں اور غلطی سے عشق کے الفاظ اس رابطہ پر منطبق
کردیں، لیکن ضروری یہ ہے کہ ہم جس فرد کو چاہتے ہیں اُس کو اس قدر عزیز
رکھتے ہیں کہ اگر وہ ہماری درخواست رد کردے یا کسی دوسرے کو ہم پر ترجیح دے
دے تو ہم اسی دل و جان سے عزیزشخص کیلئے آرزو مند ہوتے ہیں کہ وہ اس دنیا
میں نہ رہے! اسی وجہ سے ہم کو عشق کالفظ استعمال کرنے میں بہت احتیاط کرنا
چاہیے۔سیرت اور صورت کی مثال دی جاتی ہے جس کے باعث عشق و محبت پروان بھی
چڑھتے ہیں اور زوال بھی پاتے ہیں۔امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: جس کے
پاس یہ تین چیزیں ہوں گی وہ پشیمان نہیں ہوگا: عجلت نہ کرنا، مشورہ کرنا
اور ارادہ کرتے وقت اللہ پر بھروسہ و توکل کرنا۔(مستدرک نہج البلاغہ: 187)
ناپائیدار ہیجان انگیز یا جلد گذر جانے والے عاشقی بادل
اکثر بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ وہ پہلی کیفیت یا احساس جو میں نے فلاں کیلئے
محسوس کی تھی اُس کو بہت عزیز رکھتا ہوں۔۔۔ یہ حالت ہیجانی کیفیت کو بتاتی
ہے جو کہ جلدی گذر جانے والے عشق کی عامل محرکہ ہے۔ کیونکہ تمام ہیجانات کی
ایک عمر ہوتی ہے جو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ناپید ہوجاتےہیں۔ پس جھٹ منگنی
پٹ بیاہ والی کیفیت ہیجانی ہوتی ہے اور اس کو نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ
ناپائیدار ہوتی ہے۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: جو کاموں کو وقت سے پہلے جلد بازی کی نظر
کرتا ہے وہ جلد ہی اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔مختلف انسانوں کی مختلف
ضرورتوں کی بنیاد پر ممکن ہے ایک ہیجان کبھی ہو اور پھر گذر جائے، پس اگر
ہم چاہتے ہیں کہ گہرے اور عمیق احساس کو پیدا کریں جو شادی پر ختم ہو تو ہم
کو اپنے احساسات کو آگے بڑھانے کیلئے ان کی جانچ(Scrutiny) کرتے رہنا
چاہیے۔ اگر اس طرح ہم اپنے احساسات کو مراقبہ کی کیفیت سے گذارتے رہیں تو
ہم ایک ایسی حالت کو پالیں گے جو کہ ٹھوس ہو اور حقیقی ہو تو ہماری پسند
مستحکم ہوگی۔نیک کرداری ہر ایک کی پسند کا باعث کا بنتی ہے اور ایسا شخص
لوگوں کا محبوب قرار پاتا ہے۔إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا
الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَـٰنُ وُدًّا۔بےشک جو لوگ ایمان
لائے اور نیک عمل بجا لائے۔ ان کیلئے عنقریب خدائے رحمن (لوگوں کے دلوں
میں) محبت قرار دے گا۔(سورہ مریم/96)۔ اپنی عاشقی لہروں کو کنٹرول کرنا بہت
عظیم ہنر مندی اور بہادری ہے، نہ تو ہر ایک پر مرمٹیں نہ ہر ایک سے بیر
کھائیں۔ بلکہ دو طرفہ جانچ کے بعد ان لہروں اور جذبات کو ڈھیل دینا شروع
کریں کھرے اور کھوٹے کی پہچان تقوے کی بنیاد پر کریں کیونکہ یہی وہ صفت ہے
جس کی بنیاد پر عشق اور عاشقی سرخرو ہوتےہیں۔باطل رابطے اِس زندگی میں بھی
نقصان دہ ہیں اور آخرت میں بھی گھاٹے کی سرمایہ کاری ہے۔ ایسے ہی عشق کی
مثال قرآن مجید میں اس طرح ہے: عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ
وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّـهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ
مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ۔وہ عورت اُس پر ڈورے ڈالنے
لگی اور ایک روز دروازے بند کر کے بولی "آ جا"! یوسفؑ نے کہا "خدا کی پناہ،
میرے رب نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی اور تیرا شوہر میری عزت کرنے والا اور
میرا محسن ہےمیں یہ کام نہیں کروں گا کیونکہ ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا
کرتے" ۔(سورہ یوسف/23) نیز ایسے باطل ارادہ رکھنے والیوں کے شر سے بچنے
کیلئے قرآن مجید میں ہی حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا ہے: رَبِّ السِّجْنُ
أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ۖ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي
كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ "اے میرے رب،
قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے
چاہتی ہیں اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے
دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں گا۔ (سورہ یوسف/33)، اس
کے علاوہ مرد حضرات کو بھی ایسے باطل عشق سے منع فرمایا گیا ہے اور نصیحت
کی گئی ہے: وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ
سَبِيلًا ۔ زنا کے قریب نہ پھٹکو وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہی برا
راستہ۔(سورہ بنی اسرائیل/32) ایک اور آیت میں تنبیہ کی گئی ہے کہ جو بھی
باطل عشق کرے گا وہ اِس دنیا میں بھی بدلہ پائے گا اور آخرت میں بھی بدلہ
ملے گا۔ دیکھئے سورہ فرقان آیت 68، مزید برآن امام علی علیہ السلام فرماتے
ہیں کہ جو بھی اس دنیا میں باطل جنسی تعلق قائم کرے گا تو اُس کے گھر والوں
کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جائے گا۔ یہ مکافات عمل ہے۔باطل عشق کے نتیجے میں
انجام پانے والا جنسی عمل جہاں فرد (مرد/عورت) کے نفسیاتی الجھاؤ اور گناہ
کے احساس سے دل تنگ کرتا ہے وہیں یہ عمل سماجی رابطوں اور رشتوں کیلئے بھی
مضر اور احترام و تقدس کو پامال کرنے والا ہے، نیز اس عمل کے نتیجے میں
پیدا ہونے والے انسان شفقت والدین سے بھی عموماََ محرومی کا شکار رہتے ہیں
اور نفسیاتی دباؤ میں مبتلا رہتے ہیں۔ اور نتیجتاََ سماج میں طرح طرح کے
فتنے وجود میں آتے ہیں۔
وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَّـهِ
الْمَصِيرُ۔
جو شخص بھی پاکیزگی اختیار کرتا ہے اپنی ہی بھلائی کے لیے کرتا ہے اور
پلٹنا سب کو اللہ ہی کی طرف ہے۔(سورہ فاطر/18)
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اس شخص کی تمنا اور آرزو پوری ہوتی ہے جو
آخرت کیلئے کام کرتا ہے۔(غُرر الحکم 2:295/2)
اپنے عشق کی نگہداشت کریں تاکہ ہمیشہ زندہ رہے!
تم میری محبت ہو! پس صرف میری فکر کرو۔ ایسا بھی لوگ چاہتے ہیں مگر ایسا
صحتمند انسانی رابطوں میں ممکن نہیں ہے؛ حتیٰ ایک بہترین پسندیدگی کی شادی
میں بھی ایسا ممکن نہیں ہے، ایک صحتمند رابطہ میں سب کچھ سامنے رہنا چاہیے۔
سب سے ضروری نکتہ جو خیال کرنا چاہیے وہ یہ کہ کوئی بھی یکطرفہ پسند یا
رابطہ پائدار نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے جب ہماری بیوی اپنے عشق اور پسندیدگی
کو ہمارے لئے اظہار کرے اور اپنے عمل سے ہماری محبت کی نگہداشت کرے تو ہم
کو بھی اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ہر معقول ذریعے سے ایسے ہی احساس کو اُس
کیلئے بھی ظاہر کرنا چاہیے۔محبت کے مراحل میں لازم ہے کہ شوہر اور بیوی کے
درمیان محبت کی نگہداشت کیلئے عمیق احساسات پائے جاتے ہوں تاکہ اس تعلق کو
کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ ایک بہت ہی اہم نکتہ ہے اور ایسی غلطی ہے جو بہت
زیادہ واقع ہوتی ہے، وہ یہ کہ بہت سے افراد اپنے شریک حیات کو کہتےہیں: تم
صرف میری ہو بس صرف مجھے پسند کرو۔ لیکن ایسے افراد کو جان لینا چاہیے کہ
پسندیدگی کے احساس کی کوئی شکل ہونی چاہیے اور صرف باتیں نہیں ہوں، اگر
شادی کی ابتداء میں پسندیدگی کا عملی مظاہرہ تھا اور اُس کی نگہداشت نہیں
کی گئی تو یہ تعلق ختم ہوجاتا ہے۔ اس پسندیدگی کی تجدید ہوتے رہنا چاہیے۔
اگر شوہر صرف مطالبات ہی کرتا رہتا ہے اور بیوی صرف اپنے حقوق کی بات کرتی
رہتی ہے اور طرف مقابل کے عاطفی احساسات کو نہیں ابھارتے ہیں اور اپنی پسند
کا عملی مظاہرہ نہیں کرتے ہیں تو ایسا تعلق زیادہ عرصے نہیں چلتا ہے۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: جو حق اور سچائی کے ساتھ اعمال انجام
دیتا ہے تو خلائق کے قلوب اُس کی طرف مائل ہوجاتےہیں۔(غُرر الحکم ج 2:ص
204/991)نیز میاں اور بیوی کو متبرک عاشقی رابطے پر خداوند تعالیٰ کا شکر
ادا کرتے رہنا چاہیے کہ اُس نے اپنی نعمت سے ان کو نوازا، امام علی علیہ
السلام فرماتے ہیں: جب تم کوئی نعمت نازل ہو تو اس کی خاطر مدارات شکر کے
ذریعے کرو۔(شرح ابن ابی الحدید، ج 20، ص 327)
پہلے ضرورتوں کا احساس کریں، پھر عاشق بنیں!
سماجی رابطوں میں جیسے دفتر میں، یونیورسٹی میں اپنے ظاہری وضع قطع یا اپنی
مہارتوں کی وجہ سے آپ کی توجہ کوئی اپنی طرف کھیچتان ہے۔ آپ کے ذہن میں ایک
خاص حالت پیدا ہوتی ہے؛ پس آپ بہت غور اور دقت کے ساتھ اُس طرف توجہ کریں،
کردار اور خصلتوں پر، اُس کی مہارتوں پر، شخصیت پر وغیرہ کی بہت زیادہ جانچ
پڑتال کریں اور تھوڑا تھوڑا آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ جس وقت اُس شخص کے
آس پاس ہوتےہیں اُس کو بہتر سمجھ سکتے ہیں اور پہچان سکتے ہیں۔ کچھ وقت اُس
کے ساتھ گذاریں گے تو پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کو واقعی یہ شخص پسند ہے
یا نہیں۔ اس کے بعد کا مرحلہ مائل ہونے کا ہے اور اس کے بعد وابستگی کا
مرحلہ درپیش ہوتا ہے یعنی ملنا جلنا، اس سے ایک خاص سماجی احساس جنم لیتا
ہے جو ایک خاص وقت پر اپنے محبوب کو دیکھ لینے کی تمنا کرتا ہے اور اُس سے
بات کرنے کو پسند کرتا ہے، زیادہ سے زیادہ وقت ساتھ گذاریں اگر ایسا نہ ہو
تو پھر دل تنگ ہوتا ہے اور دوری پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ امام علی علیہ
السلام فرماتے ہیں: تمھارے اندر دلچسپی لینے والے سے تمھاری دوری قسمت کی
خرابی ہے اور تم سے دوری اختیار کرنے والے سے تمہاری دلچسپی ذلت نفس
ہے۔(نہج البلاغہ : حکمت 451)زیادہ روی کسی بھی کام میں بری ہے اور شیطان
انسان کو سبز باغ دکھا کر گمراہ کرتا ہے۔وَلَأُضِلَّنَّهُمْ
وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ
الْأَنْعَامِ۔اور انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور میں انہیں مختلف آرزوؤں میں
الجھاؤں گا (انہیں سبز باغ دکھاؤں گا)۔ (سورہ نساء/119)وابستگی کے بعد دل
بستگی پیدا ہوتی ہے یعنی صرف فرد کا موجود ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ اُس
کیلئے خاص جذبہ اور احساس بھی پیدا ہوتا ہے اگر دلبستگی کا مرحلہ آگے بڑھا
اور مختلف مواقع پر دہرایا گیا تو ایک دوسرے سے اظہار محبت کا موقع ملتا ہے
پس یہ مرحلہ دو مخالف جنسوں کی شادی پر ختم ہوتا ہے۔ جس وقت ایک شخص طرف
مقابل کو پسند کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہر کام اُس کیلے انجام دے تاکہ اُس
کو خوش کرسکے، وہ آرام سے رہے اور اُس کی خوشی کو اپنی خوشی قرار دے چاہے
جیسی بھی خوشی ہو جس میں اُس کی زندگی ہو اُس کا کمال ہو، تو ایسے رابطے کو
ہم عشق کا نام دے سکتے ہیں۔
تحریر: سید جہانزیب عابدی ـــ 21 شعبان المعظم 1436ھ |
|