عادل حکمران کے لیے یہ ضروری ہے
کہ وہ ان سنی آوازوں کو بھی سن سکے تب ہی حکمران اور رعایا میں فرق نمایاں
ہوتا ہے۔
جمعرات 4جون کو جب راول پنڈی اسلام آباد میں میٹرو بس سروس کا افتتاح ہونا
تھا تو اس سے ایک دن قبل ریڈزون میں پانچ دن سے مہنگائی اور غربت سے تنگ ،
تنخواؤں میں اضافے کے لیے دھرنا دئیے بیٹھے ایپکا کے افراد پر لاٹھی چارج
ہوا سیکڑوں پر مقدمہ ہوا اور سو کے قریب افراد جو اس دھرنا میں موجود تھے
پولیس کی لاٹھی چارج سے زخمی ہوئے ۔پولیس کا ان مظاہرین پر ڈنڈے برسانے کی
ایک وجہ میٹرو بس سروس کے افتتاح کی وجہ سے سکیورٹی مسائل تھے اور دوسری
وجہ ان احتجاج کرنے والوں کی قومی اسمبلی میں داخل ہونے کی کوشش تھی ۔جی
ہاں یہ وہی قومی اسمبلی ہے جہاں عوام کے ہی منتخب کردہ’’ عوامی نمائندے‘‘
عوام کی فلاح و بہبود کے لیے جمع ہوتے ہیں مگروہاں داخل ہونے کی کوشش عوام
کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے تاریخ کی کتابوں میں تو یہ لکھا ہے کہ
بام دوام حاصل کرنے والے حکمران عوام او ر اپنے درمیان فاصلہ رکھتے ہیں
نہیں تھے مگر یہاں تو حکمران تو دور کی بات عوامی نمائندے ہی عوام سے ووٹ
حاصل کرنے کے بعد اتنے دور ہوجاتے ہیں کہ ان سے مل کر اپنا دکھڑا بیان کرنا
تو درکنار ان تک پہنچنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے پھر بھی یہ
حکمران اور عوامی نمائندے اپنے آپ کو عادل حکمران سمجھ کر تاریخ میں اپنا
نام روشن الفاظ سے لکھوانا چاہتے ہیں مگر تاریخ دانوں نے کب جھوٹ لکھا اگر
ایسا ہوتا تو چنگیز خان او رہلاکو خان تاریخ میں قتل و غارت کی وجہ سے یاد
نہ رکھے جاتے ۔
بہرحال کیا تاریخ کا رونارونا،تاریخ جو لکھی جاتی ہے اس سے سیکھنے اور عبرت
پکڑنے والوں کے لیے ہزاروں سبق روز اول سے ہیں او رروز آخر تک رہے گے۔تاریخ
سبق سکھاتی ہے مگر ان کو جو اپنے حصار سے نکل کر کچھ سیکھنا چاہیں اور
تاریخ میں عبرت ہے ان کے لیے جو عبرت پکڑنا چاہیں جنہیں ہر عبرت ناک واقعہ
میں اپنا محاسبہ کرنے کا شرف حاصل ہو۔خیر ڈنڈے برسانا تو اس حکومت میں
پولیس والوں کو نئی ٹاسک نہیں ملی ہے اس دور حکومت میں وہ دور بھی دیکھا
گیا کہ جب لاٹھی سے سہارہ لے کر چلنے والوں پر بھی لاٹھی چارج کیا گیا
اوربرے اور بھلے کی تمیز سکھانے والے اساتذہ پر بھی لاٹھی چارج کیا گیا اس
لحاظ سے کلرکس پر لاٹھی چارج ہونا اس لحاظ سے کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ جس
معاشرے میں اساتذہ اور نابیناؤں پر لاٹھی چارج ہوتو وہاں کلرکس اگر اپنی
فریادکو ارباب اختیارتک پہنچانے کے لیے دھرنا دیں تو انھیں یہ ذہن میں
رکھنا چاہیے کہ پولیس کے لاٹھی چارج کا سامنا انھیں کرنا پڑے گا ۔اگر ماڈل
ٹاؤن کے احتجاج کو بھی سامنے رکھا جائے تو پھر اساتذہ ، نابینا افراد اور
کلرکس یا کوئی اور پسا ہوا طبقہ جس پر لاٹھی چارج ہوا ہو اسے شکر ادا کرنا
چاہیے کہ ان پر صرف لاٹھی چارج ہوا ہے ورنہ احتجاج کرنے پر زندگی بھی چھینی
جاتی ہے ۔جہاں تک انصاف کی بات ہے تو وہ ڈنڈے کھا کر نہ اساتذہ کو ملا ، نہ
ہی نابینا افراد کو ملا اور نہ ہی ان کلرکس کو ملناہے کیوں کہ جنہوں نے
احتجاج میں اپنی زندگی گنوا ئی ان کو انصاف نہیں ملا تو زخمی ہونے والوں کو
انصاف کیسے ملنا ہے ۔مجھے تو اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ کسی وڈیرے یا کسی
باعث حیثیت فرد کے ظلم کا شکار ہونے پر مظلوم کی دل جوئی کے لیے یہ عوامی
نمائندے جا کر تصاویر پر تصاویر بنا لینے کے بعد تحقیقاتی کمیٹیاں بھی بنتی
ہیں اہلکار معطل بھی ہوتے ہیں مگر جب ان کو ہاتھوں ظلم ہو تو مظلوم کی آہ و
گریہ اور رستے خون سے لال لال ہوئے کپڑے ان کو دکھائی نہیں دیتے یا پھر یہ
آنکھیں موند لیتے ہیں پھر نہ داد رسی کر کہ تصاویر بنتی ہیں نہ ہی کمیٹیاں
بنتی ہیں او رنہ ہی اہلکار معطل ہوتے ہیں حتیٰ کہ ان کی طرف سے معذرت بھی
نہیں کی جاتی ہے ۔
معذرت سے یاد آیا کہ آج سے کچھ عرصہ قبل خطابت کے ہنر میں ماہروزیر اعلیٰ
پنجاب شہباز شریف نے اپنی تقاریر میں سابق صدر آصف علی زرداری کو للکار کر
کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر عوام کا ایک ایک پیسہ ان سے نکلوائیں گے نہ
صرف پیسہ نکلوائیں گے بل کہ اس جرم کی پاداش میں آصف زرداری کو خود سزا دے
کر سڑکوں پر بھی گھسیٹیں گے ۔عوام اپنا ہضم شدہ پیسہ نکلوانے کے لیے ان
صاحب سے توقع لگائے انھیں اقتدار میں لے آئی اور ساتھ ہی ہفتوں اس انتظار
میں لگی رہی کہ شاید آج انھیں یہ خبر ملے کہ موصوف نے اپنا وعدہ وفا کرتے
ہوئے سابق صدر سے نہ صرف ایک ایک پائی نکلوائی بل کہ اس جرم کی پاداش میں
سابق صدر کو ملک کی مختلف سڑکوں پر بھی گھسیٹا مگر یہ دن ہفتوں سے مہینوں
میں ڈھل گئے اور مہینوں سے سالوں میں ۔اب جب کہ ان موصوف کو اقتدا ر میں
آئے دو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے تو موصوف نے اپنے بیان پر معافی
مانگی اور کہا کہ وہ ماضی کے تلخ جملوں پر زرداری صاحب سے معذرت خواہ ہیں
۔۔کاش عوام بھی ان جوش خطابت سے کام چلانے والوں کو ایسا ہی کھرا سا جواب
دے اور معذرت خواہ ہو جائے مگر ایسا ہو جاتا تو آج نہ کلرکس پِٹ رہے ہوتے ،
نہ اساتذہ اور نہ ہی نابینا اور ماڈل ٹاؤن میں گولی چلانے والے آج تختہ دار
پر نہ سہی کم از کم جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے ۔قربانیاں عبرت کے لیے
ہوتی ہے کچھ سیکھنے کے لیے ہوتی ہیں تب ہی تو قربانیاں رنگ لاتی ہیں مگر اس
قوم نے نہ ہی ماضی سے کچھ سیکھا ہے نہ حالات و واقعات سے اور نہ ہی
قربانیوں سے، تو پھر رنگ کس قربانی نے لانا ہے اور کس حالات و واقعات سے کس
نے کیا سیکھنا ہے ۔
کلرکس پر مار کٹائی سے مجھے یاد آیا کہ کچھ متاثرین کے پی کے سے آکر خان
صاحب کے گھر کے سامنے بھی دھرنا دئیے بیٹھے تھے تو کیا خان صاحب نے ان پر
ڈنڈے برسائے تھے؟ہو سکتا ہے یہ بات خان صاحب کے نہ چاہنے والوں کو بری بھی
لگے مگر خان صاحب اس وقت دنیا کی متاثر کن شخصیات میں شامل ہیں اور وراثتی
پارٹیوں کو بہت پیچھے چھوڑ کر ملک کے کونے کونے میں چھا چکے ہیں مگر
متاثرین جو اس کے گھر کے سامنے دھرنا دئیے بیٹھے تھے ان سے خان صاحب خود
ملے اور ان کے مطالبات سن کر اسی وقت ان سے مشاورت بھی کی ۔ہو سکتا ہے اسی
رویے کو دیکھتے ہوئے ایپکا نے چار جون سے پہلے چار دن دھرنا دیا ہو مگر بے
سود۔اسی طرح ایک دو دن قبل نابینا افراد نے وزیر اعلیٰ کے پی کے کے دفتر کے
سامنے مظاہر ہ کیا او رخواہش ظاہر کی کہ وہ وزیر اعلیٰ کے پی کے سے ملنا
چاہتے ہیں تو کسی پولیس والے نے ان پر لاٹھی چارج نہ کی اور نہ ہی کسی نے
سکیورٹی کی مد میں ان نابینا افراد کو وزیر اعلیٰ سے ملنے پر پابندی عائد
کی حالا نکہ انھیں بھی پتا تو ہو گا کہ انھی کے ملک کے سب سے بڑے صوبہ
پنجاب میں نابینا افراد کی اسی خواہش کی مد میں ان پر حکومت نے بد ترین ظلم
کیا اور ان لاٹھی والوں پر لاٹھیا ں برساتے ہوئے وہ تاریخ رقم کی جس کی
مثال شاذو نادر ہی ملتی ہے۔
تاریخ سبق سیکھنے کے لیے ہوتی ہے مگر سبق وہی سیکھتے ہیں جو اپنی پسند و
ناپسند کے حصار سے نکل کر عادلانہ محاسبہ کرتے ہیں ۔
|