سینٹ چیئرمین کا تا ج کس کے سر سجے گا

اﷲ اﷲ کر کے سینٹ الیکشن انجام کو پہنچے الیکشن سے قبل سیا سی جما عتوں نے ہا رس ٹر یڈنگ کا خوب ڈنکابجایامگر در حقیقت ہر جما عت صرف اپنے امیدواروں کے لیے حما یت بٹولنے میں مصروف رہی جو زیا دہ شور کر رہے تھے انھیں یہ ڈر تھا کہ انکے اراکین اسمبلی اپنی وفا داری نہ بدل دیں اور چپکے سے انکے ارما نوں کا خون کر کے اپنا ووٹ کسی اور کے حق میں نہ ڈال دیں اقتدار میں شراکت داری ان سیا سی ما ہرین کا من پسند فعل ہے ۔ کاش ! اس سے کچھ کم ہی سہی مگر تو جہ کا کچھ حصہ اس عوام کی نذر بھی کر لیں جو ان کی ہا تھوں کی جا نب حسرت بھری نگا ہیں جما ئے ہو ئے ہیں اور ان حضرات کی بے رخی ہی ہے جس کی بدولت عوام آ ج مشکلات سے دو چا ر ہے ۔منا فقت کا عالم دیکھیے جو جما عت مو جو دہ انتخا بی نظا م کو ما ننے کو ہی تیا ر نہیں ہے ا س نے بھی چند سیٹوں کی خا طر خو ب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور آ خری دم تک اسی کا وش میں نظر آ ئی کہ کہیں کو ئی سیٹ کم نہ ہو جا ئے ۔ جہاں حکو مت ملے وہا ں سب درست ہے مگر جہاں حکو مت کے سا منے نہ چل سکے وہاں اسمبلی میں جا نا تک گوارا نہیں۔کیو نکہ اسمبلیوں میں عوام کے لیے آواز بلند کر نا ہما رے سیا ست دانوں کی فطرت میں شا مل ہی نہیں۔ یہ صا حب بہا در تو صر ف اسمبلیوں میں اقتدار کے مز ے لو ٹنے جا تے ہیں بحر حا ل سینٹ کے حا لیہ الیکشن میں جو سب سے دلچسپ با ت سا منے آ ئی کہ جو دو جما عتیں ہا رس ٹر یڈنگ کا رونا رو رہی تھیں اور اس لعنت کو ختم کر نے کے لیے ہر ممکنہ اقدام کر نے کو بھی تیا ر تھیں انہی دونوں جما عتوں کے افعال نے انتخا بات کو متنا زع بنا ڈالا۔خیبر پختون خواہ کی اسمبلی میں اپو زیشن نے دھا ندلی کے خلاف احتجا ج ریکارڈ کر وایا اور حکومت نے تو خیر رات کے اندھیرے میں صدارتی آ ڈر لا کر سب کوچونکا دیا جسکی بدولت فا ٹا کے الیکشن ملتوی تو ہو گئے مگر اس عمل نے حکومت کی نیت پر کئی سوال کھڑے کردیے۔بلا شبہ یہ فیصلہ خوش آ ئند ہے اور تمام سیا سی جما عتیں متفق بھی ہیں لیکن ایسے مثبت اقدام دن کی روشنی میں کیے جا ئیں توکیا ہی اچھا ہو،رات کی سیا ہی ایسے فیصلوں کو شک وشبہ کی نظر کر دیتی ہے ،چلو جیسے تیسے کر کے سینٹ کے اراکین منتخب ہو ہی گئے ۔مجھے تو کو ئی بھی رکن ایسا نظر نہیں آ تا جو کسی شعبے میں مہا رت رکھتا ہو کیو نکہ سینٹ کا بنیا دی مقصد تو ایسے اراکین کو ایک چھت کے نیچے اکٹھا کر نا ہے جو مختلف شعبوں میں صا حب علم ہوں جیسے ٹیکنو کر یٹس، سا ئنسدان، پروفیسرز،اہل علم ودانش تا کہ یہ لوگ اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں حکو مت کی رہنما ئی کا حق ادا کر سکیں ۔مگر ہمارے ملک میں تو گنگا ہی الٹی بہتی ہے ۔ تمام جما عتوں نے سیا سی شخصیا ت کو ہی تر جیح دی کہیں کسی روٹھے کو منا یا گیا تو کہیں ایسے لو گوں کو منتخب کر وا یا گیا جو ما لی لحاظ سے مستحکم ہوں اور چندے کی مد میں کثیر الرقم امدادسے پا رٹی کو نواز سکیں۔یہ بات تو عیاں ہے کہ ان سیا ستدانوں کا اصولوں اور عوام سے کوئی لینا دینا نہیں انھیں تو بس یہی فکر لا حق ہے کہ کسی بھی طر ح زیا دہ سے زیادہ سیٹیں حا صل کر کے اقتدار تک رسا ئی حا صل کی جا ئے ۔

سینٹ کے انتخا بی نتا ئج کے مطا بق ،عددی اعتبا ر سے پی پی پی سب سے بڑی جما عت بن کر ابھری ہے مگر مسلم لیگ ن نے بھی ان انتخا بات میں خو ب میدان ما را اور سب سے زیا دہ سیٹیں حا صل کر نے والی جما عت بنی جو پا کستان پیپلز پا رٹی کے ہم پلڑہ ہے ۔اب جس مر حلے کے لیے سب بے چین ہیں وہ ہے سینٹ کے چیئر مین کا تا ج کس کے سر سجے گا ۔مو جودہ سیا سی صو رتحال پر اگر نظر دوڑائیں تو گماں ہو تا ہے کہ پا کستان پیپلز پا رٹی اپنی اتحا دی جما عتوں کے سا تھ مل کر اپنے امیدوار کو با آ سا نی منتخب کر وا لے گی ۔ہم سب جا نتے ہیں کہ سیا سی جو ڑ توڑ کے معا ملے میں آ صف علی زرداری صا حب کا کوئی استا د نہیں اسلیے اس معا ملے میں بھی زرداری صا حب اپنے اس ہنر کا لو ہا ضرور منوائیں گے ،لیکن دوسری جا نب حکومت بھی اچھی خا صی سر گرم دکھا ئی دے رہی ہے اس خو اہش کی تکمیل کے لیے وزیر اعظم نے اپنے وزراء کو مختلف سیا سی جما عتوں کے دل جیتنے کے لیے تعینات بھی کر لیا ہے اور یہ ملا قا تیں بڑے زور و شور سے جا ری بھی ہیں ۔اب کون کس کی حما یت کر گا اسکا فیصلہ تو شا ید دو تین ایا م میں منظر عام پر آ ہی جا ئے گا ۔پا کستان پیپلز پا رٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان اگر کوئی مصلحت طے پا گئی تو یہ مر حلہ با آ سا نی طے پا جا ئے گا لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو دونوں بڑی پا رٹیوں کی جنگ کا بر اہ راست فا ئدہ چھو ٹی جما عتوں کو ہو گا کیو نکہ ایسی صو رتحال میں دونوں جما عتوں کو اپنی حما یت حا صل کر نے کے لیے بے جا مطالبا ت کا سا منا کر نا پڑے گا ۔ایسے حالات میں مسلم لیگ ن حکومتی جما عت ہو نے کے نا طے ان سیا سی جما عتوں کے مطا لبات کو پوارا کر نے کی صلا حیت زیا دہ رکھتی ہے اگر انتخا بات کا مختصر جا ئزہ لیا جا ئے تو پا کستان پیپلز پا رٹی اور انکے اتحا دی جما عتوں کے ووٹوں کی تعداد اڑتا لیس بنتی ہے جبکہ مسلم لیگ ن اور انکے اتحا دی جما عتوں کے ووٹوں کی تعداد صرف تینتیس ہے اور اگر با رہ ما رچ تک اسلام آ با د ہا ئی کو رٹ نے منتخب ہو نے والے دونوں سینٹرز راحیلہ مگسی اور ظفر اقبال جھگڑا کا نو ٹیفیکشن جا ری نہ کیا تو پھر ن لیگ کے پا س صر ف اکتیس ووٹ ہوں گے ۔ پا کستان تحریک انصا ف ،جے یو آ ئی اور آ زاد امیدوار چیئر مین کے انتخاب میں سب سے اہم کردار ادا کر یں گے ۔مولا نہ فضل الرحمن ویسے تو حکومت کے اتحا دی ہیں مگر سینٹ میں وہ اپنے بھا ئی کے ڈپٹی چئیرمین کے عہدے کے خواہاں ہیں جو جما عت بھی انکے اس مطا لبے کی حا می بھرے گی وہ اپنے ووٹ اسکی جھولی میں ڈال دیں گے لیکن فی الحال تو کوئی جما عت بھی ایسا رسک لینے کو تیا ر نظر نہیں آ تی مو لا نہ صا حب سیا ست کہ بڑے پرانے کھلا ڑی ہیں جو سیا سی ڈوبتی ہو ئی کشتی کو پار لگانے کا معاوضہ خوب جا نتے ہیں ۔اسی طرح ہر جما عت کے اپنے اپنے مطا لبات ہیں اس لیے ملک کی بہتری اسی میں ہو گی کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اخلا قی جرات کا مظا ہرہ کر کے مفاہمت سے کام لیں اور چھوٹی جما عتوں کے ہا تھوں بلیک میل نہ ہوں ۔پا کستان تحریک انصاف کے چئیرمین نے بھی بلا آ خر اپنی خا موشی توڑ ڈا لی اور حکومت سے مطا لبہ کیا کہ اگر وہ دھا ند لی کے خلا ف تحقیقاتی کمیشن قا ئم کر لیں تو وہ مسلم لیگ ن کاسا تھ دیں گے، اب یہ مسلم لیگ ن کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کیا فیصلہ اختیا ر کر تی ہے۔
Sajid Hussain Shah
About the Author: Sajid Hussain Shah Read More Articles by Sajid Hussain Shah: 60 Articles with 48947 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.