انڈیا تیرا شکریہ
(Javed Iqbal Cheema, Italia)
انقلاب زمانہ دیکھئے کہ میرے
جیسا پاگل انقلابی جو انڈیا کا دشمن تھا .اب انڈیا کا ہمدرد بنتا جا رہا ہے
.کچھ لوگ انڈیا کے دوست ہیں ڈالر لینے کے لئے .تاکہ وہ ڈالر لے کر پاکستان
میں رہ کر اپنے بال بچوں کی پیٹ پوجھا بھی کریں اور دہشت گرد اجنسی را کے
لئے کام بھی کریں .کچھ لوگ تجارت کرنے کے لئے انڈیا کے دوست ہیں .وہ سمجھتے
ہیں بلکہ ان کے شعور کی کہانی بس اتنی ہے کہ انڈیا جو مرضی کرتے رہو بکتے
رہو مگر ہم کو گللے سڑھے آلو پیاز سے محروم نہ کرنا کیونکہ اس سے ہماری
ملاوٹ کی .چور بازاری کی .بد دیانتی کی حرام کے منافعہ کی دکانیں چل رہی
ہیں .اور تیسرے میرے اقتدار کے ساتھ جن کو صرف اپنے اقتدار سے غرض ہے .کرسی
سے پیار ہے .دھن دولت چمک دھمک اور منی لانڈرنگ سے غرض ہے .ان کی بلا سے کہ
انڈیا کتنا بڑا دہشت گرد ہے کتنا ظالم ہے .اور اس خطے کے امن کو تباہ و
برباد کرنے میں پیش پیش ہے .انڈیا جو بھی کرے ہم نے اپنے لبوں کو سی لیا ہے
کیونکہ ہمارا کارساز امریکا یہی چاہتا ہے .اسی لئے جب انڈیا ہمارے گال کے
ایک طرف تھپڑ رسید کرتا ہے تو ہم دوسری طرف کا گال اس کی طرف کر دیتے ہیں
کہ اس طرف بھی شوق پورا کر لے .مگر مجھے انڈیا کے جنگی جنون سے خوشی اور
ہمدردی ہوتی ہے .کیونکہ میں سمجھتا ہوں .کہ انڈیا اگر ہمارا دشمن نہ ہوتا .تو
ہماری رہی سہی غیرت مسلمانی کا کیا بنتا .اقبال کے شاہینوں کی کہانیوں کا
کیا بنتا .میرے جزبات و احساسات کا کیا بنتا .میرے ایمان کے جزبہ کو کس
پیمانے سے ناپہ جاتا .انڈیا تیرا شکریہ .جو یہ سارے کارنامے انجام دیتا ہے
.تاکہ میری ملت غیرت کو سونے کا موقعہ نہ ملے.ویسسے تو ہم اپنے ہی ہاتھوں
ملت کی غیرت کا سودہ کرتے چلے جا رہے ہیں اور جنازہ نکالنے کی کوشش میں خود
ہی مصروف ہیں .کیونکہ انڈیا نے تو ہم کو نہیں کہا تھا کہ انڈیا کی فلمیں
دیکھو .بے حیائی پھیلاؤ .گندے ناچ گانے تمام چینل کی زینت بناؤ .اشتہارات
میں عورت کو ننگا کرو .اپنی اینکر عورتوں لڑکیوں کو خبریں نشر کرنے والوں
کو ماڈل بنا کر پیش کرو .یہ کام انڈیا نہیں ہم کر رہے ہیں .انڈیا نے تو یہ
نہیں کہا تھا .کالا باغ ڈیم نہ بناؤ .پل سڑکیں .ہسپتال.سکول .کالج نہ بناؤ
.انصاف کے نظام کو لاگو نہ کرو .صرف ناموں کی تختیاں لگاو .پراجیکٹ مکمل نہ
کرو .بیروزگاری کا خاتمہ نہ کرو .انڈیا نے تو نہیں کہا تھا کہ امریکا کی
دہشت گردی کی جنگ میں حصہ لو .ہر آے روز امریکی سفیر سے بغل گیر ہو مگر
کشمیر کے مسلح پر اور انڈیا کی دہشت گردی پر بات نہ کرو .تو اگر غور کیا
جاۓ تو قصور تو ہمارا نکلتا ہے .کیونکہ اگر ہمارے محلے کے اوباش نوجوان
محلے میں بدمعاشی کریں گے .اپنی گاڑیوں کے ہارن اونچی آواز میں بجایں گے .اپنے
بنگلوں کی چھتوں پر ناچ گانے کی محفلیں سجایں گے .دن رات ہم کو ڈسٹرب کریں
گے .اور ہم کان اور منہ بند کر کے گزارہ کرنے کی کوشش کریں گے تو آخر کار
اک دن اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا .میں نے اپنی کتابوں میں بار بار ان
الفاظ کا اظہار کیا ہے کہ .نہ بدلے جس سے نظام وہ انقلاب افکار نہیں ہوتا .بہہ
جاۓ جو قوم کی خاطر وہ لہو بیکار نہیں ہوتا .تو میں انڈیا کے جنگی جنون پر
اس لئے خوش ہوں .کہ جب سانپ کی موت کا وقت آتا ہے تو وہ راستے میں بیٹھ
جاتا ہے .انڈیا کی موت آنے والی ہے .ہماری غیرت ملی .غیرت اسلامی جاگنے
والی ہے .اقبال کا شاہین پرواز کرنے والا ہے اور انڈیا کے ٹکرے ٹکرے ہونے
والے ہیں .مودی کی موت آے نہ آے.حسینہ واجد کے دن گنے جا چکے ہیں .کشمیر کی
آزادی کے دن قریب تر ہیں .پاکستان اسلام کا قلحہ اور ٹائیگر بننے جا رہا ہے
.پھر دنیا میں ووہی ہوا کرے گا جو پاکستان چاہے گا .انڈیا کی بے غیرتی
پاکستانی غیرت کو جگانے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہی ہے .انڈیا تیرا شکریہ
.ورنہ میں دکھی تھا نالاں تھا اپنی قوم سے اپنے شاہینوں سے .اسی لئے میرے
یہ الفاظ تھے جن کا زاویہ بدلنے کو ہے .
بے حس ہو گئی قوم احساس زیاں جاتا رہا
نہ رہا جوش ولولہ وہ نعرہ نہاں جاتا رہا
اب کس سے کیا وابستہ امید کرو گے
دھڑکتا تھا جس سے خلوص وہ دل ناتواں جاتا رہا
بحث و مباحثہ .مذاکرہ و تکرار ہے جاری
نہیں بدلے گا نظام وہ انقلاب کارواں جاتا رہا
رکھتا اپنی شوریٰ کو منظم تھا جو
اک امید سایہ تھا وہ سائبان جاتا رہا
تنظیم اتحاد یکجہتی لکھنے کو تین نقطے تھے
اک قول قاعد تھا وہ قول پاسبان جاتا رہا
دور مادیت نے جھکڑا انسان کو کچھ ایسا
آگ شعور بھی بجھ گئی وہ دھواں جاتا رہا
جام ہے شام ہے محفل سکوں جاتا رہا
کلیات اقبال ہے اقبال بیان جاتا رہا
ہے شعلہ.ہے شبنم .ہے مہتاب جبیں
خودی کا باغباں وہ جوش ناتواں جاتا رہا
با ضمیر پہاڑوں کا جہاں وہ غم ناگہاں جاتا رہا
حکمران سے میرا یقین و منزل گماں جاتا رہا
ہے کنول کے پھول .باد صبا.کوئل و بلبل
ناؤ ڈوبے نہ ڈوبے .لفظوں کا فکر و فغاں جاتا رہا
اب تو جھوٹ ہی جھوٹ پر آے غالب
چین و سکوں وہ سچ کا جہاں جاتا رہا
بربادی گلستان میں سانس بھی لینا ہے دشوار
غموں کا جہاں ہے وہ سکھ کا سماں جاتا رہا
بنتی رہی شکستہ ساز میری صدا بے نوائی میرا تماشہ
نہ ملی منزل رائگاں خون جواں جاتا رہا
نہ شعور انقلاب نہ نور جمہوریت ہے شور آمریت
وہ جالب و فیض و شورش کا جنگ میداں جاتا رہا
انڈیا تجھے ڈالنے نکلا ہے نکیل اک جاوید
بس تیری مغروری کا اب وہ جہاں جاتا رہا
پہلے بغل میں تھی چھری اور منہ میں رام رام
مداری گر اب تیرا شور چاک گریباں جاتا رہا
انڈیا تو جھوٹا مکاری دہشت گرد ہے فرعون
اب دیکھ اپنے چہرے کا نقاب کہاں کہاں جاتا رہا
انڈیا تیرا شکریہ .کہ مجھے خواب غفلت سے جگا دیا اور اپنا اصل چہرہ دنیا کو
دکھا دیا |
|