ملکی حالات و واقعات خاص طور سے
پاکستانی سیاست و حکومت کے معاملات پر لکھنا یوں تو تضیعِ اوقات ہی محسوس
ہوتا ہے۔ لیکن جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لیے یا پھر د ل کا غبار نکالنے
کے لیے لکھنا نہایت ہی مجر ب نسخہ ہے۔ آج کے اخبارات میں راولپنڈی میں چلنے
والی میٹرو بس کے منصوبے پر دو نہایت ہی تجربہ کار کالم نگاروں نے طبع
آزمائی کی ہے ۔ ایک کالم نگار نے انگریزوں کی آمد سے پہلے برِ صغیر پاک و
ہند کی پست تعلیمی استعداد کو سڑکوں اور ذرائع آمدورفت کی کمی سے جوڑا ہے
اور خادمِ اعلیٰ کے اس منصوبے کو انگریزوں کی شروع کی گئی ریل گاڑی سے
ملاتے ہوئے دادوتحسین کے خوب ڈونگرے برسائے ہیں۔ جبکہ دوسرے کالم نگار نے
اپنے شہر میں رسل و رسائل کے ذرائع میں ایک نئے اضافے پر حکومت ِ وقت کا
شکریہ ادا کیا ہے۔ میری ناقص رائے میں اگر انگریز بھی میٹرو بس سروس جیسے
بے ہنگم اور بے سروپا ذرائع آمدو رفت بناتے تو انہیں سن 1857 ء میں ہی واپس
بھاگنا پڑ جاتا۔ یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ برصغیر پاک
وہند میں پہلی کمرشل ریل گاڑی سن 1853 ءمیں چلی تھی۔
مجھے میٹرو بس اور اس جیسے کسی بھی دوسرے رسل ورسائل کے منصوبے پر اعتراض
نہیں ہے، لیکن جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ ایسے منصوبوں پر کس قدر خطیر رقم
(پچاس بلین روپے)کس قدر سرعت کے ساتھ خرچ کی جارہی ہے اور مستقبل میں سبسڈی
کے نام پر مزید رقم خرچ کی جاتی رہے گی ، تو مجھے ایسے منصوبوں کی افادیت
پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ دوسری جانب اس کی تکمیل پر اس نوعیت کے بیانات دیے
جارہے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ منصوبہ عوام کی فلاح و بہبود کی
بجائے صرف حصول ِ اقتدار کی نیت سے بنایا گیا ہے۔ برادرم رؤف کلاسرا اور ان
جیسے دیگر کالم نگاروں کی جانب سے کئی چھوٹے چھوٹے منصوبوں کو نظرا نداز
کرنے پر مضامین آئے دن انہی اخبارات کا حصہ بنتے ہیں ، جہاں اس ملک کے
نامور سیاستدانوں کے بیانات اور کئی شاندار دانشوروں کے فرمودات چھپتے ہیں،
تو مجھ جیسے قارئین یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیا ہماری ترجیحات
میں صحت، تعلیم اور امن و امان کوئی معنی نہیں رکھتے؟
نوٹ: نواز شریف نے راولپنڈی میں منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ "حنیف
عباسی(2013 کے الیکشن میں راولپنڈی کی نشست سے نون لیگ کے امیدوار) ہار گئے
تو میٹرو بس کا منصوبہ دیا، اگر جیت جاتے تو ہیلی کاپٹر سروس شروع
کروادیتے۔ اگر یہ مزاح پیدا کرنے کی کوشش تھی، تو نہایت ہی بری کوشش تھی ۔
ایسے لایعنی بیان (مذاق) کی توقع کسی عام فہم رکھنے والے شخص سے بھی نہیں
کی جاتی، کجا یہ کہ ایک ملک کا وزیر اعظم ایسے بیانات دیتا پھرے۔
کسی بھی شہر کے لیے عوامی ذرائع آمدورفت نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں زیرِ زمین تیز رفتار ریل گاڑیوں کے ذریعے ایک سستا ،
موثر، اور پائیدار حل روبہ عمل ہے۔ ذیل میں ہمارے پڑوسی ملک کے ایک شہر میں
چلنے والے نظام کی کچھ تفصیلات پیش کی جارہی ہیں، جس سے اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ پیش بندی اور مستقبل بینی کیا شے ہوتی ہے اور کیسے ان دونوں
عوامل کی مدد سے ایک موثر اور پائیدار نظام بنایا جاتا ہے۔
ممبئی میٹرو
ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ممبئی ایک کثیر آبادی والا شہر ہے۔سن 2011 کے
ایک محتاط اندازے کے مطابق دو کروڑ سے زیادہ آبادی والے اس شہر کو دنیا کا
چوتھا سب سے بڑی آبادی والا شہر کہا جاتاہے۔ ممبئی میں ریل گاڑیاں ایک طویل
عرصے سے عوامی نقل و حمل کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ممبئی کے شہری روایتی
مواصلاتی نظام میں ریل گاڑی کو پسند کرتے ہیں اور ممبئی میں ستر (70) لاکھ
شہری روزانہ کی بنیادوں پر شہرمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ ریل گاڑی پر سفر
کرتے ہیں۔
ممبئی ریاست مہاراشٹرا میں واقع ہے۔ ریاست نے ممبئی کی بڑھتی ہوئی آبادی
کےپیش ِ نظر ایک ادارہ ممبئی میٹروپولیٹن ریجن ڈیولپمنٹ (MMRDA) کے نام سے
تشکیل دیا۔ سن 1997 سے 2000 کے دوران اس ادارے نے ایک مفصل اور جامع تحقیق
کے بعد مستقبل کی دو سے تین دہائیوں کے لیے ایک منصوبے کی ابتدائی شکل تیار
کی۔ اس منصوبے میں ایک ایسی راہداری بنانے کے تمام تر امکانات کو زیرِ بحث
لایا گیا تھا جس کے ذریعے عوام کو ایک سستا ، موثر، پائیدار، اور ساتھ ہی
ساتھ ایک نفع بخش ماس ٹرانزٹ کا نظام دیا جاسکے۔ یہ ممبئی میٹرو کی ابتدائی
شکل تھی۔
سال 2004 کے آغاز میں MMRDAنے ایک ماسٹر پلان کے ذریعے اس منصوبے کے خدوخال
مزید واضح کیے، جس کے تحت سال 2006 کے آغاز میں ممبئی میٹرو کے نام سے اس
منصوبے کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ ماسٹر پلان تین حصوں پر مشتمل ہے۔ ہر حصہ
مزید تین ذیلی حصوں پر تقسیم کیا گیا ہے۔ فیز 1 کے تینوں حصے سن 2006 سے
2011 کے دوران تعمیر کیے گئے ۔ اب یہ حصہ تقریباَ 62 کلومیٹر کے طویل فاصلے
پر تین لاکھ مسافروں کو روزانہ کی بنیادوں پر تیز سفر کی سہولت فراہم کر
رہا ہے۔فیز 2 پر 2011 سے کام شروع ہوا جو 2016 تک مکمل ہو گا اور اس کی
تکمیل پر مزید بیس کلومیٹر اس میں شامل ہو جائیں گے۔ فیز تین کی شروعات
2016 میں ہوگی اور یہ 2021 تک مکمل ہو گا جو 2006 میں شروع ہونے والے اس
بڑے اور طویل منصوبے کے مکمل ہونے کا سال بھی ہو گا۔ یہ پورا منصوبہ
تقریباَ 160کلومیٹر طویل راستے پر مشتمل ہے جس کی تکمیل پر پندرہ لاکھ
افراد روزانہ سفر کر سکیں گے۔ اس پورے منصوبے پر اٹھنے والی لاگت تقریباَ
11 بلین ڈالر ہے جو بے شک ایک خطیر رقم ہے ، لیکن اس منصوبے کی افادیت،
پائیداری، اور سہولت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک نہایت ہی معقول سرمایہ کاری
سمجھی جا سکتی ہے۔
میٹرو بس سروس
دوسری جانب اگر ہم لاہور میں چلنے والی میٹرو بس سروس کا جائزہ لیں توہمیں
اندازہ ہو گا کہ وہ ایک غیر ملکی (ترکی) پرائیوٹ کمپنی کے ذریعے چلائی جا
رہی ہے ، جسےکرایہ کم رکھنے اور دیگر اخراجات کی مد میں ماہانہ کروڑوں روپے
سبسڈی دی جارہی ہے۔ اکتوبر 2014 کی ایک اخباری رپورٹ کے مطابق لاہور میٹرو
بس سروس اپنے آغاز (فروری 2013 سے) ملکی خزانے کو تقریباَ ایک اعشاریہ چھ
(1.6)بلین پاکستانی روپوں کا نقصان پہنچا چکی ہے اور یہ سارا پیسہ ایک
مستقل بوجھ ہے جو ہمارے اورآپ کے دیے گئے ٹیکس سے پورا کیا جا رہا ہے۔ اب
اس منصوبے میں راولپنڈی میٹرو بس سروس کے منصوبے کو جوڑ لیں اور ہماری اعلی
قیادت کی ذہانت اور فطانت پر سر دُھنیں۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ پاکستان کی کسی پرائیوٹ کمپنی کے اشتراک سے ایک
ایسا دوررس اور پائیدار منصوبہ بنایا جاتا جو خود کفیل ہوتا، بھلے اس پر دو
عشروں کی محنت اور کھربوں روپے کا سرمایہ لگ جاتا، مگر عوام کو ایک پائیدار
، سستا، موثر اور جدید نظام مل جاتا۔ مگربدقسمتی سے ہمارے حاکمین اور سیاست
دان ایک الیکشن سے آگے کی سوچ ہی نہیں رکھتےاور ان کے مصاحبین اور مشیرانِ
کرام کی فوج بھی اختلافِ رائے کو گناہ سمجھتی ہے۔
حرفِ آخر
خادمِ اعلیٰ کی ترجیحات اور من موجی مزاج کی بدولت ہم ایک ایسا سفید ہاتھی
پالنے پر مجبور ہوگئے ہیں جو زیادہ عرصے تک چلتا نظر نہیں آتا۔ اب لاہور
میں ایک گرین ٹرین نامی منصوبے کی خبر گرم ہے، خدا کرے اس بار خادمِ اعلیٰ
جلدی اور عجلت میں کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے ایسے دُوررَس منصوبے کا سنگِ
بنیاد رکھیں جو بھلے ان کے اس دورِ حکومت میں مکمل نا ہو، مگر پائیدار،
خودکفیل، اور موثر ہو۔
آپ مندرجہ ذیل ذریعوں سے مجھے اپنی رائے سے آگاہ کر سکتے ہیں:
[email protected]
|