"بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی "
(Naeem Ur Rehmaan Shaaiq, Karachi)
اگر آپ کے سامنے کوئی اس بات کا
اعتراف کر لے کہ آپ کے وطن کو برسوں پہلے دو لخت کرنے میں ہمارا ہاتھ تھا
تو آپ کو یقینا بہت دکھ ہوگا ۔ حب الوطنی اسی کا نام ہے ۔ پھر اگر یہ بات
کرنے والا کوئی عام شخص نہیں بلکہ ایک پورے اسٹیٹ کا وزیر ِ اعظم ہو تو آپ
اور زیادہ تاسف کا اظہار کریں گے ۔ افسوس کے ساتھ ساتھ آپ کو غصہ بھی آئے
گا ۔ یعنی آپ غم اور غصے دونوں میں مبتلا ہو جائیں گے ۔ اسی کیفیت سے دوچار
اس وقت ہمارے ملک کے باشندے ہیں ۔ بھارتی وزیر ِ اعظم نریندر مودی کے
پاکستان مخالف بیان کے بعد پاکستان کے عام اور خاص دونوں طبقے کے لوگ بہت
زیادہ غم اور غصے کا اظہار کر رہے ہیں ۔ اب بھارت پر حملے کی باتیں بھی
ہونے لگی ہیں ۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جس طرح بھارت کے وزیر ِ اعظم نے تمام
مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کو دو لخت کرنے کا اعتراف کیا ہے ،
بالکل اسی طرح پاکستان کے وزیر ِ اعظم کو بھی دو ٹوک بات کرنی چاہیے ۔
انھیں کسی طرح کی مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔دوسرے الفاظ میں وزیر ِ
اعظم کا مصلحت سے عاری اور جذباتی ردِ عمل فی الواقع عوام کا حقیقی ترجمانی
ہوگی ۔
7 جون 2015 ، بروز اتوار کو بھارتی وزیر ِ اعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش
کی ڈھاکا یو نی ورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش کا قیام ہر
بھارتی کی خواب تھا ۔ 1971 ۓ ۓء میں پاکستان کے 90 ہزار جنگی قیدی بھارت کے
پاس تھے ۔ اگر ہمارا شیطانی ذہن ہوتا تو پتا نہیں ہم کیا کرتے۔ بنگلہ دیشی
وزیر ِ اعظم اور ان کی سوچ ایک ہی ہے ۔ " لبریشن وار آنر " ایوارڈ وصول
کرنے کی تقریب میں نریندر مودی نے کہا کہ جب بنگلہ دیش کی آزادی کی لڑائی
لڑنے والے بنگلہ دیشی اپنا خون بہا رہے تھے تو بھارتی بھی ان کے کاندھے سے
کاندھا ملا کر جدو جہد کر رہے تھے ۔ اس طرح انھوں نے بنگلہ دیش کا خواب
پورا کرنے میں مدد کی ۔ 1971 ء میں جب بنگلہ دیش کے قیام کی لڑائی لڑنے
والوں کی حمایت میں دہلی میں تحریک چلی تھی تو وہ بھی اس میں شریک ہوئے تھے
۔اسی طرح وزیر اعظم نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ان کی فوج مکتی باہنی
کے ساتھ مل کر لڑی ۔
اب آپ ہی بتائیں ، کیا ان الفاظ سے لگتا ہے کہ یہ کسی مصالحت پسند شخص کے
الفاظ ہیں ۔ بنگلہ دیش کے قیام کو 44 سال گزر گئے ۔ 44 سال گزرنے کے بعد اس
زخم کو ہرا کرنے کا کیا جواز ہے ۔ 44 سال کے بعد بھارت کے سابق وزیر ِ اعظم
اٹل بہاری واجپائ کو ان کی 6 دسمبر 1971ء کی تقریر پر ، جو انھوں بنگلہ دیش
کے حق میں پارلیمنٹ میں کی تھی ، "بنگلہ دیش وار آنر" کا اعزاز دینے کی کیا
وجوہات ہیں ۔ نریندر مودی نے درج بالا اعترافات کرکے گویا پاکستان کو یہ
باور کران کی کوشش کی کہ جس طرح 44 سال پہلے بھارت نے پاکستان کو دو لخت
کیا تھا ، 44 سال بعد بھی بھی بھارت اتنی "ہمت " اور "صلاحیت" رکھتا ہے کہ
پاکستان کے مزید ٹکڑے کرے ۔پہلی کسی حد تک میں بلو چستان میں بھارتی مداخلت
کے سلسلے میں گو مگو کا شکارتھا ۔ اب تو یقین ہوگیا ہے کہ بھارت بلوچستان
میں مداخلت کر کے پاکستان کو توڑنے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ بچپن سے یہ
بات سنتا اور پڑھتا ہوا آرہا ہوں کہ بھارت نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم
نہیں کیا ۔اس سلسلے میں بھی میں شش و پنج کا شکار تھا ۔ مگر اب بھارتی وزیر
ِ اعظم کا بیان پڑھ کر یہ شش و پنج بھی دور ہوگیا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے
بعدسے بھارت کی سابقہ وزیر ِ اعظم اندرا گاندھی کے دو باتیں مسلسل پڑھنے کو
ملتی ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم نے مسلمانوں سے ایک ہزار برس کی غلامی کا بدلہ لے
لیا ہے ۔دوسری بات یہ تھی کہ ہم نے نظریہ پاکستان کو کو بحیرہ ِ عرب میں
پھینک دیا ہے ۔ شروع شروع میں ، میں اسے حافظ محمد سعید جیسے لوگوں کے
جذباتی خیالات سے تعبیر کرتا تھا ۔ مگر بھارتی وزیر ِ اعظم کے حالیہ اعتراف
سے یہ بات بھی واضح ہو گئی اور اب میں اس بات کو بالکل سچ سمجھتا ہوں ۔
اندرا گاندھی نے ایسا ضرور کہا ہوگا ۔
بھارتی وزیر ِ اعظم کے اس بیان پر پاکستان کے ردِعمل کا آنا نا گزیر تھا ۔
پاک فوج نے کھل کر کہہ دیا کہ بھارت کو جارحیت کا منھ توڑ جواب ملے گا ۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر ِ صدارت فارمیشن کمانڈروں کی کانفرنس میں
بھارت کی طرف سے حالیہ جارحانہ بیانات بہ شمول پاکستان کو غیر مستحکم کرنے
کی ظاہری اور در پردہ کارروائیوں کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اس بات پر انتہائی
افسوس کا اظہار کیا گیا بھارتی سیاست دان نہ صرف ایسے اقدامات میں ملوث رہے
، جو اقوام ِ متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے ، بلکہ وہ دیگر ممالک کے
اندرونی معاملات میں مداخلت پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں ۔ عسکری قیادت نے اس
عزم کا اعادہ کیا کہ بھارتی عزائم کو شکست ِ فاش دی جائے گی اور پاکستان کی
علاقائی سالمیت کا ہر قیمت پر دفاع کیا جائے گا۔ وزیر ِاعظم نواز شریف نے
کہا کہ بھارتی قیادت کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے مفاہمت کی فضا متاثر ہوئی
۔ ایسے بیانات سے ماحول کشیدہ ہوگا ۔ بھارتی طرز ِ عمل ہمیں علاقائی امن و
استحکام کے مقصد سے دور کرے گا ۔ ہم سایوں سے پر امن تعلقات چاہتے ہیں ۔
امن کی خواہش یک طرفہ نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح سینیٹ اور قومی اسمبلی نے
بھارتی قیادت کے حالیہ بیانات پر دو الگ الگ متفقہ قرار دادیں منظور کرتے
ہوئے انھیں ناقابل ِ برداشت قرار دیا ہے اور عالمی برادری سے ان کا نوٹس
لینے کے لیے کہا ہے ۔ پاکستان کے دفتر ِ خارجہ نے بھی بھارتی بیانات کی بھر
پور مذمت کی ہے ۔میں یہاں بار بار "بیانات " کا لفظ اس لیے ا ستعمال کر رہا
ہوں کہ بھارتی وزیر ِ اعظم نریندر مودی کے ساتھ ساتھ بھارت کے کئی دیگر
اعلیٰ حکام نے بھی پاکستان کے بارے میں " گل افشانی " کی ہے ۔
بعض لوگ سمجھ رہے تھے کہ ہمارے وزیر ِ اعظم بھی بھارتی وزیر ِ اعظم کی طرح
بیان بازی کریں گے ۔ بعض لوگ تو وزیر ِ اعظم سے نالاں ہیں کہ انھوں نے
مفاہمت اور مصالحت پر مبنی بیانات کا سلسلہ کیوں شروع کر رکھا ہے ۔ لیکن
میں اس سلسلے میں وزیر ِ اعظم کے بیانات کو بالکل صحیح سمجھتا ہوں ۔ ہمارے
وزیر ِ اعظم کے بیانات ایک " ذمہ دار " ریاست کے " ذمہ دار" وزیر ِ اعظم کے
بیانات ہیں ۔ جب کہ بھارتی وزیر ِ اعظم کے بیانات اس کے بر عکس ہیں ۔ کچھ
لوگوں کا خیال ہے کہ بھارتی اعترافات کے بعد اب جنگ نا گزیر ہو چکی ہے ۔
میرے خیال میں یہ بڑا جذباتی خیال ہے ۔ جنگ سے دونوں ملکوں کا نقصان ہوگا ۔
بے گناہ لوگ مریں گے اور عالمی سطح پر دونوں ملکوں کی بد نامی ہوگی ۔ جنگ
کسی بھی مسئلے کے حل کا آخری آپشن ہوتا ہے ۔ بھارت کو ترکی بہ ترکی جواب
دیان بہر حال ہمارا حق ہے ۔ لیکن جنگ میں پہل کرنے سے بہت سے نقصانات
اٹھانے پڑیں گے ۔ |
|