نوازشریف کی سوئی .....لوٹی ہوئی دولت پر رک گئی ہے

نواز شریف کو بغض و کینہ اور ذاتیات کی سیاست سے باہر آنا ہوگا
نواز شریف کی مہم سوئس بینکوں سے قومی دولت کی واپسی یا زرداری سے عداوت

آج میں اپنے کالم کی ابتدا اِس مشہور کہاوت سے کر رہا ہوں کہ ” ہر روز اپنا چہرہ آئینے میں دیکھا کرو۔ اگر بُری صُورت ہے تُو بُرا کام نہ کرو تاکہ مزید بُرائیاں جمع نہ ہوں۔ اگر اَچھی صُورت ہے تُو اُسے بُرا کام کر کے خراب نہ کرو۔ اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ صدیوں کے بگڑے کب جلد سُدھرتے ہیں۔ لہٰذا اِن مندرجہ بالا باتوں کو اچھی طرح سے سمجھ لیجئے! تو پھر اگلی سطور کو پڑھئے اور سمجھئے کہ.... کون کیا ہے؟ کون کیا کر رہا ہے؟ اور کون کیوں ایسا ویسا کیسا کر رہا ہے......؟

بہرکیف! اَب یہ فیصلہ عوام خود ہی کریں کہ کیا آج نواز شریف کے خطابات اور بیانات سے یہ صاف ظاہر نہیں ہورہا ہے کہ و ہ صدر زرداری سے عداوت کی وجہ سے کس کیفیت میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ اَب تو ایسا لگتا ہے کہ شائد اِنہیں زرداری فوبیا ہوگیا ہے اور اِن (نواز شریف )کی سوئی...... لوٹی ہوئی دولت کی ملک میں واپسی پر آکر رُک گئی ہے۔

اِن کی اِس مہم سے دوسری طرف یہ بھی محسوس کیا جارہا ہے کہ نواز شریف سیاست میں بغض و کینہ اور ذاتیات کی بھی وہ تمام حدیں پھلانگ چکے ہیں کہ جہاں سیاست ذاتی دشمنیوں کے روپ میں جنم لے چکی ہوتی ہے۔

اور اَب اِس کا بھی کیا ....کیا جائے ؟کہ آج کیا اِن کے اِس طرح کے رویوں اور ڈھکے چھپے سیاسی بیانات اور خطابات سے یہ عنصر کھلم کھلا سامنے نہیں آچکا ہے کہ نواز شریف جس شخص کی باتیں کررہے ہیں اُس کا واضح اشارہ صدر زرداری کی طرف ہوتا ہے اور اِس طرح اپنے اِسی روئے کی وجہ سے وہ صدر زرداری سے انتقامی سیاست کے راستے پر چل پڑے ہیں۔ جو میں سمجھتا ہوں کہ جس کا اختتام اَب شائد کئی نسلوں کے بعد ہی جا کر ہوگا۔

اور اِس کے ساتھ ہی میرا خیال یہ ہے کہ اِس سے بھی قطعاً انکار نہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہِ میاں محمد نواز شریف گزشتہ کئی ماہ سے اپنے اِسی رویئے کی وجہ سے عوام کے ایک سنجیدہ حلقے میں اپنی شخصیت کو بھی بُری طرح سے مجروح کرچکے ہیں کیوں کہ آج یہ جس کسی کے بھی مشورے پر یا اپنی ہی عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اِس جانب چل نکلے ہیں تو میں یہ نہیں سمجھتا کہ زرداری جیسی شخصیت کے مقابلے میں اِن کی عظیم شخصیت اِس غیر اخلاقی رویوں کی متحمل ہوسکتی ہے۔ جس کو اپنا کر میاں محمد نواز شریف اپنی قدآور شخصیت کا شیرازہ خود اپنے ہی ہاتھوں بکھیر رہے ہیں۔
جس کا حوالہ دینے کے لئے میں زیادہ پیچھے نہیں جاؤں گا بلکہ اُس بھارتی ٹی وی کی خبر کو مثلاً پیش کر کے آگے بڑھنا چاہوں گا جس کے مطابق”لاہور میں بھارتی سرحد سے چند کلو میٹر دور جی ٹی روڈ پر گزشتہ پیر یکم مارچ کو این اے 123میں انتخابی جلسے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نے اپنے خطاب کے دوران جو لہجہ اختیار کیا ہے اِس سے یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ نواز شریف قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو سوئس بینکوں سے پاکستان واپس لانے کے لئے باقاعدہ طور پر اپنی ایک بھر پور مہم کا آغاز کرچکے ہیں۔

اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ نواز شریف نے اِس دوران بھی حسبِ عادت کسی شخص کا نام لئے بغیر ملکی دولت لوٹنے والے کو کرپٹ قرار دیا اور اِس دوران اُنہوں نے اِس کی بھی وضاحت کی کہ ساری پاکستانی قوم یہ اچھی طرح سے جانتی کہ عوام کی دولت لوٹ کر سوئس بینکوں میں جمع کرنے والے کرپٹ شخص میں سرِفہرست کون ہے اور ایسے کرپٹ شخص کو حکومت نہیں کرنی چاہئے اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی کو ملک کی سترہ کروڑ عوام کا کچھ خیال نہیں، کوئی سوئس اکاؤنٹس بھرتا ہے کوئی آبدوزوں میں کمیشن کھاتا ہے اور کوئی توپوں پر پیسے کھاتا ہے نواز شریف نے اپنا مکا ہوا میں لہراکر ایک بار پھر یہ کہا کہ لوٹی ہوئی دولت عوام کو واپس کی جائے کسی ایک شخص کو ملک کے سیاہ و سفید کا مالک نہیں ہونا چاہئے پاکستان میں انقلاب کی ضروت ہے ہم عوام کے ساتھ ملک کر انقلاب برپا کریں گے اور اِسی کے ساتھ ہی اِن کا اِسی انتخابی جلسے میں یہ بھی باآوازِ بلند کہنا تھا کہ سیاستدان اقتدار کے لئے ضمیر بیچ دیتے ہیں(یہاں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نواز شریف صاحب اپنے بارے میں کیا خیال ہے آپ کون سے پارسا اور دودھ کے دھلے ہوئے ہیں آپ بھی تو ایسے ہی سیاستدانوں میں شامل ِاول ہیں جن کو آج آپ بے ضمیر اور بے وفا کہہ رہے ہیں) بے وفائی قوموں کو تباہ و برباد کردیتی ہے(پہلے تو آپ بھی یہ بتائیں کہ آپ نے اپنے دورِاقتدار میں کتنی بے وفائی کی اور اپنی کرپشن سے قوم کو کتنا نقصان پہنچایا پھر اپنے بھی انجام کی فکر کریں) کرپشن کرنے والے اپنے انجام کو ضرور پہنچیں گے اور موجودہ حکمران پچھلے دو سالوں میں کچھ نہ کرسکے (آپ نے اپنے رویوں اور سلوک سے موجودہ حکومت کو پچھلے دو سالوں میں ٹھیک طرح سے کچھ کرنے دیا ہو تو یہ لولی لنگڑی حکومت ملک اور عوام کے لئے کچھ فلاح اور ریلیف کا کام کرتی ) اور خدا جانے نواز شریف نے اپنے اِس سارے جذباتی خطاب میں موجودہ حکمرانوں کی اور کیا کیا برائیاں نہیں کیں جن کو جلسہ گاہ میں موجود عوام نے سُنا اور برداشت کیا کیوں کہ ایسا کرنا عوام کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے کہ عوام کسی بھی جلسے میں اِس کے سِوا اور کچھ نہیں کرسکتے۔

بہرحال !اَب یہ کام عوام کا ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو کیوں سُنتے ہیں جس کی شخصیت بظاہر تو ٹھیک معلوم دیتی ہو مگراُس کی باطنی ذات اندر سے گُھن والی(دیمک زدہ ) ہو ۔شیخ سعدی رحمتہ اﷲ علیہ کا ایک قول ہے کہ” یہ ضروری نہیں کہ جو آدمی بظاہر نیک ہو اُس کی سیرت بھی اچھی ہو معاملے کا تعلق باطن سے ہے نہ کہ چھلکے سے“اور اِسی طرح جانس نے کہا ہے کہ”اچھا آدمی وہ ہے جس کے اعمال اچھے ہوں ۔اَچھی اَچھی باتیں کرنے والے کبھی کبھی بدکار بھی ہوتے ہیں“اور اِس کے ساتھ ہی برٹرنڈرسل کا کہنا ہے کہ” اگر ہم واقعی حقیقی معنوں میں بُرائیوں کا انسداد کرنا چاہتے ہیں تُو خود کوئی ایسا کام نہ کریں جس کا شمار بُرائی کے زمرے میں ہوتا ہو“تو نواز شریف صاحب اپنے آپ خود اپنے ضمیر کی عدالت میں اپنا مقدمہ خود لڑیں اور پھر کسی اور کے گناہوں کی فکرکریں کیونکہ آپ بھی وہی ہیں جس کے سوئس اکاؤنٹس میں جمع دولت واپس لانے کی پورے پاکستان میں سب سے زیادہ فکر اکیلے ہی آپ کو ہی کھائے جارہی ہے اور کوئی اِس غم میں دبلا نہیں ہورہا کہ جتنے آپ فکرمند ہیں۔

اَب یہ ملک کی ساڑھے سولہ کروڑ عوام کی خوش قسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ وطن عزیز میں ایک طویل عرصہ تک رائج رہنے والی آمریت کے خاتمے کے بعد آج ملک میں جمہوریت کے ایک ننھے سے پودے نے زمین کی سطح کو چیڑتے ہوئے ڈرتے ڈرتے جو اپنا سرزمین سے نکلا ہے تو اِسے پاکستان ہی بدلا بدلا سے لگا رہا ہے اور وہ اِس عزم و ہمت کے ساتھ آہستہ آہستہ اپنا قدم باہر نکال رہا ہے کہ اِس کے قدر دان اِسے ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ اور وہ ایک قدآور درخت بن کر اِس ملک کی عوام کو اپنا گھنا سیاہ دے گا جس سے پورا پاکستان مستفید ہوسکے گا۔

مگر ہائے رے ! افسوس کہ اَب یہ جمہوریت کا ننھا سا پودا ملک کی سیاسی صورت ِحال کو دیکھ کر بُری طرح سے مایوس ہوچکا ہے کیونکہ اَب اِس کے وجود کو کوئی اور نہیں بلکہ اپنے ہی لوگ کچلنے کے لئے کمربستہ ہوچکے ہیں اور وہ یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں جمہوریت پروان چڑھے اور پھلے پھولے.... بلکہ اَب تو اُس سازشی ٹولے کی سوئی اِس بات پر رُک چکی ہے کہ اَب یہ سازشی ٹولہ بغیر نام لئے ہی صرف صدر کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے جس کی اَب یہ ایک ہی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح سے ملک میں حالات کچھ ایسے پیدا کر دیئے جائیں کہ ملکی سیاست ذاتی عداوتوں میں تبدیل ہوجائے تو اِسی دوران کوئی گھڑی ایسی بھی آن پہنچے کہ موجودہ حکومت کا شیرازہ بکھر جائے اور وہ کچھ ہوجائے جس کے لئے اِس سازشی ٹولے نے اپنا جال بننا ہے۔

اور یہ سازشی ٹولہ جس کے سربراہ میاں نواز شریف ہیں یہ چاہتا ہے کہ اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکل کر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ آجائے جس کے لئے اِس نے یہ حربہ استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 972954 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.