کہو کچھ، کرو کچھ ۔ ۔ ۔ ۔ بھارتی وزیر اعظم کا چانکیائی راگ

پاک بھارت مذاکرات کا نیا راگ،نیا ڈرامہ
نشستند،گفتند و برخاستند= بے معنی،بے نتیجہ اوربے مقصد مذاکرات

جھوٹ، مکر و فریب، منافقت، دھوکہ دہی، دغا اور چالبازی پر مبنی چانکیائی سیاست کا بانی، چانکیہ ٹیکسلا کا رہنے والا ایک انتہائی شاطر و چالاک برہمن شخص تھا، اُس کی انہی خوبیوں کو دیکھ کر چندرگپت موریہ نے اسے اپنا وزیر اعظم بنایا اور چانکیہ نے اپنی چالاکی اور عیاری سے چندر گپت موریہ کی چھوٹی سی حکومت کو پورے ہندوستان میں پھیلا کر برصغیر میں پہلی ہندو سلطنت کی بنیاد رکھی، چانکیہ نے ساڑھے تین سو سال قبل مسیح ہندوستان کے بادشاہوں کو حکومت کرنے کے اسرار رموز سکھانے کیلئے ایک کتاب ”ارتھ شاستر“ بھی لکھی، منافقت، مکروفریب اور دغابازی کے اصولوں پر مبنی یہ کتاب صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی بھارتی سیاست کا مزکر و محور ہے اور بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے لے کر موجودہ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ تک ہر بھارتی حکمران ہمیں چانکیائی سیاست پر پوری طرح عمل پیرا نظر آتا ہے۔

چانکیہ کی کتاب ارتھ شاستر کا ایک اصول ہے کہ”دشمن کو کبھی اعتماد میں نہ آنے دو، کہو کچھ، کرو کچھ، جب دباؤ آئے، تو وعدہ کرلو، جب دباؤ ہٹے، تو مکر جاؤ۔“ چانکیہ کا یہ گُر بھارت کی سیاسی اور خارجہ پالیسی کی اصل بنیاد ہے، قیام پاکستان سے لے کر آج تک ایسے بے شمار مواقع آئے جب بھارت کے بڑے بڑے لیڈروں نے پاکستان کے ساتھ مسائل کے حل کے اعلانات اور وعدے کئے، لیکن بعد میں اپنی کمٹمنٹ سے پھر گئے، آپ کو یاد ہوگا 1999ء میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واچپائی نے لاہور میں مینار پاکستان پر کھڑے ہوکر پاکستان کی تاریخی حقیقت کو تسلیم کیا اور وعدہ کیا تھا کہ انڈیا کشمیر سمیت تمام مسائل گفت و شنید سے حل کرے گا، لیکن جونہی وہ پاکستان سے امرتسر پہنچے، چانکیائی سیاست نے اپنا اثر دکھایا اور وہ دنیا کو یہ کہتے نظر آئے کہ”کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔“درحقیقت یہی بھارت کی اصل پالیسی ہے،وہ جو اعلان کرتا ہے، اُس سے بھاگ جاتا ہے، وہ جو وعدہ کرتا ہے، اُس سے مکر جاتا ہےاور وہ جو معاہدے کرتا ہے، اُسے خود ہی توڑ دیتا ہے،62سالہ تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات بھارت کی دوغلی پالیسی کے آئینہ دار ہیں جو بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث نشستند، گفتند و برخاستند سے کبھی آگے نہ بڑھ سکے۔

گذشتہ دنوں پندرہ ماہ کے تعطل کے بعد بھارتی خواہش پر سیکرٹری خارجہ کی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں ناکامی کے بعد ایک مرتبہ پھر بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے مذاکرات کا راگ الاپا، اپنے سرکاری دورہ سعودی عرب کے دوران ریاض میں ایک سعودی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ دہشت گردی سمیت تمام تنازعات اور مسائل پر بات چیت ہوگی، انہوں نے کہا کہ وہ مذاکرات ہی کو پاکستان بھارت تنازعات کے حل کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اس بارے میں ان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، دوسری جانب بھارتی وزیر مملکت برائے امور خارجہ ششی تھرور نے ریاض میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاک بھارت تعلقات بہتر بنانے میں سعودی عرب رابطے کا کردار ادا کرسکتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب کو بھارتی مسائل کا احساس ہے، یہاں یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ گذشتہ دنوں سیکرٹری خارجہ مذاکرات کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے برملا کہا تھا کہ اگر پاکستان دہشت گردی کے علاوہ کسی اور موضوع پر مذاکرات کا ارادہ رکھتا ہے تو اسکے وفد کو بھارت آنے سے روک دیا جائے۔

عجب طرفہ تماشہ ہے کہ ممبئی حملوں کو بہانہ بنا کر بھارت نے نئی دہلی میں جاری دوطرفہ مذاکرات کی بساط بھی خود ہی لپیٹی پھر گزشتہ ماہ کے دوسرے ہفتے میں خود ہی پاکستان کو خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر دوبارہ مذاکرات کی دعوت دی، ان مذاکرات کیلئے شیڈول بھی خود ہی تیار کیا اور جب مذاکرات کیلئے سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر کی زیر قیادت پاکستان کا وفد نئی دہلی پہنچا تو بھارت جامع مذاکرات کے لفظ سے ہی بدک گیا اور ان مذاکرات کو محض بات چیت کا نام دے کر ممبئی سے پونا تک کی مبینہ دہشت گردی کا ملبہ نہ صرف پاکستان کے سر ڈالنے کی کوشش کی بلکہ کشمیر اور پانی جیسے اہم بنیادی تنازعات پر بات کرنا بھی گوارہ نہ کیا، لیکن آج بھارتی وزیراعظم سعودی عرب پہنچ کر پاک بھارت تنازعات کے حل کیلئے پھر دوطرفہ مذاکرات کا راگ الاپ رہے ہیں، جسے بھارت کی منافقانہ روش کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا، واضح رہے کہ گذشتہ دنوں بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے پاکستان کے سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر سے ملاقات کے دوران باور کرایا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین فوری طور پر جامع مذاکرات نہیں ہوسکتے، لیکن ابھی بھارتی ذمہ داران کے بیانات کی سیاہی بھی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ ایک بار پھر بھارتی وزیراعظم پاکستان کے ساتھ تمام تنازعات پر مذاکرات کی بات کررہے ہیں۔

جبکہ گذشتہ ماہ ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آچکی ہے کہ بھارت نے امریکی دباﺅ پر پاکستان کو خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات کی دعوت دی تھی،جسے افغانستان میں بھارت کے خصوصی کردار کی ضرورت ہے، دراصل امریکا بھارت کے ذریعے پاکستان کو مذاکرات میں الجھا کر بھارت کے معاندانہ عزائم سے غافل رکھنا چاہتا ہے،دوسری طرف بھارت کا خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات کی دعوت کا مقصد امریکہ کو یہ تاثر دینا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ تنازعات کے حل کیلئے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مذاکرات کا دروازہ ہمیشہ بھارت کی جانب سے ہی بند کیا جاتا رہا،آج اگر وہ مذاکرات کی بات کرتا ہے تو صرف دہشت گردی کے معاملہ میں ہمیں ڈکٹیشن دینے کیلئے کرتا ہے،حالانکہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر اور بھارت کی آبی دہشت گردی اصل تنازعہ ہے،جبکہ سیاچن، سر کریک جیسے کئی اہم مسائل بھی موجود ہیں، جن کے حل کے بغیر نہ تو علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی پاکستان اور بھارت کے مابین خوشگوار دوستانہ تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت پاکستان کو مذاکرات کی پیشکش کے باوجود متنازعہ امور ومسائل پر بات کرنے کو تیار نہیں،جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 62 برسوں میں 131بے نتیجہ مذاکراتی دور کی تاریخ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ بھارتی قیادت کو خطے میں امن کے قیام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے،بھارت کے اسی طرز عمل کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی تاریخ پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اور سیاسی مبصرین کے نزدیک مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کی کوئی امید نہیں، آج بھارت کا کوئی پڑوسی ملک ایسا نہیں ہے جس سے اس کا تنازع نہ ہو،دنیا کی مضبوط اقتصادی قوت چین سے لے کر خطے کے انتہائی کمزور ملک بھوٹان اور نیپال تک سب کے تعلقات بھارت کے ساتھ کشیدہ ہی رہے ہیں،اب رہی سہی کسر بھارت کے علاقائی طاقت بننے کے جنون نے پوری کردی ہے جس کی وجہ سے پورے جنوبی ایشیا کا امن و سکون خطرے میں دکھائی دے رہا ہے ۔

اس تناظر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع مذاکرات کے آغاز اور اس کی کامیابی کا دار و مدار صرف اور صرف بھارتی رویئے پر منحصر ہے،جب تک بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا رہے گا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دینے پر آمادہ نہیں ہوگا،اس وقت تک کی مذاکرات کی ہر پیش کش مکرو دجل پر مبنی اور اخلاص سے عاری ہوگی،گذشتہ دنوں بھارت نے امریکہ کو یہ یقین دلانے کیلئے کہ ہم تو پاکستان کے ساتھ تمام معاملات پر مذاکرات کیلئے تیار ہیں، اس نے خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات کا ڈرامہ رچا کر خود ہی اُسے سبوتاژ کیا اور اب وہ ہمارے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کو یہ چکمہ دینے کی کوشش کررہا ہے کہ ہم دہشت گردی سمیت پاکستان کے ساتھ تمام مسائل پر مذاکرات کیلئے تیار ہیں،سوال یہ ہے کہ کیا بھارت ایسی شاطرانہ چالوں سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتا ہے جبکہ عالمی برادری بالخصوص مسلم ممالک اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان اس وقت امریکہ،اسرائیل اور بھارت کی دہکائی ہوئی دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے،ان ممالک کی ایماء پر تربیت یافتہ دہشت گرد افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہو کر دہشت گردی کی گھناﺅنی وارداتیں کرتے ہیں اور جس کی بنیاد پر یہ ممالک ہم پر دہشت گردی فروغ دینے کا الزام لگاتے ہیں۔

ایک طرف بھارت جہاں پاکستان کے خلاف تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہے وہیں دوسری طرف اس نے ہمیں بھوکا پیاسا مارنے کیلئے ہمارے خلاف آبی دہشت گردی بھی شروع کررکھی ہے،کبھی وہ دریائے چناب کا پانی بند کردیتا ہے تو کبھی دریائے جہلم کا پانی روک کر ہماری زرخیز دھرتی کو ریگستان میں تبدیل کرنے کی مذموم سازشوں میں مصروف نظر آتا ہے،بھارت کی ان سازشوں کے نتیجہ میں ہمارے کھیتوں کو سیراب کرنے والی تمام نہریں اور نالے خشک ہو چکے ہیں،آج پاکستان کی سلامتی اور استحکام کو سب سے بڑا خطرہ پانی کی کمی کی صورت میں لاحق ہے،دراصل بھارت آبی دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو بنجر بنا دینا چاہتا ہے،حقیقت یہ ہے کہ مکار ہندو بنیے سے پاکستان کا وجود کبھی برداشت نہیں ہوا اور اس نے اپنی مکروہ سازشوں کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی،امر واقعہ یہ ہے کہ ایک طرف بھارت ہماری سالمیت کو نقصان پہنچانے کی سازشوں میں مصروف ہے تو دوسری طرف وہ اپنی جنگی تیاریوں میں بدستوراضافہ بھی کررہا ہے،جس کا بین ثبوت بھارت کے دفاعی بجٹ میں حالیہ 24 فیصد اضافہ ہے،جس نے اسے پوری دنیا میں فوجی اخراجات کا چوتھا بڑا بجٹ بنادیا ہے،چنانچہ ان حقائق کی موجودگی میں بھارت امریکہ، سعودی عرب یا کسی اور ملک کو پاک بھارت تنازعات کو حل کرانے کیلئے بطور ثالث کیسے قائل کرسکتا ہے۔

لہٰذا ان عوامل کی روشنی میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کشمیر سمیت پاکستان کے ساتھ تمام تنازعات کے حل کیلئے نیک نیتی کے ساتھ برداشت اور اخلاص کا راستہ اختیار کرے،لیکن جب تک وہ کشمیر پر بزور طاقت اپنا تسلط جمائے رکھنے کی پالیسی اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کی ضد پر قائم رہے گا،اس وقت تک نہ تو خطے میں امن کی آشا پوری ہو سکتی ہے اور نہ ہی علاقائی امن کی ضمانت فراہم کی جا سکتی ہے،چنانچہ آج اگر بھارت پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے اور علاقائی و عالمی امن کا خواہاں ہے تو اسے اپنی ضداور ہٹ دھرمی ترک کر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں استصواب رائے اور کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے اور آبی دہشت گردی سمیت تمام متنازعہ مسائل کو حل کرنے اور کھلے دل کے ساتھ پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنا ہوگا اور یہ تب تک ممکن نہیں،جب تک کہ بھارت مکروفریب،منافقت،دغا اور چالبازی پر مبنی چانکیائی سیاست کے دائرے سے باہر نہیں نکلتا،جس کے فی الحال دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے،لہٰذا موجودہ حالات میں بھارتی وزیر اعظم کا سعودی عرب کو ثالث بناکر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا نیا راگ،دنیا کو دھوکہ دینے کی ایک نئی کوشش اور ماضی کی طرح بے معنی،بے نتیجہ اور بے مقصد مذاکرات کا ڈرامہ رچانے کی سعی کے سوا اور کچھ نہیں۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 314080 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More