مجرم سقوط ڈھاکہ اورامن کی آشا

14 اگست 1947 ہی سے بھارت سرکار کی کوشش رہی ہے کہ کسی بھی طرح متحدہ پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے ان ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے بھارتی حکمران ہمیشہ سے لنگوٹ کسے رہے ہیں بھارت کی تمام سیاسی پارٹیاں اور متعصب جماعتیں اس بات پر باہم متفق رہی ہیں کہ جس طرح بھی بن پڑے مشرقی پاکستان(بنگلہ دیش) کو پاکستان سے علیحدہ کردیا جائے علامہ اقبال و قائداعظم کے دوقومی نظریہ کو جھٹلایا جاسکے۔اس حوالے سے پنڈت جواہر لعل نہرو کی قیادت میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بیج بویادیا گیا تھا جس کا تناور کانٹوں بھرادرخت اس وقت نہایت ہی تکلیف دہ ثابت ہوا جب 1971 میں علیحدگی پسندوں اور ان کی تحریک کا قلع قمع کرنے کی غرض سے افواج پاکستان نے آپریشن شروع کیا تو اندراگاندھی نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تن من دھن سے اس تحریک کو سہولیات باہم پہنچائیں حتی کہ را کی مدد سے فوجی معاونت اور مدد بھی فراہم کی ۔اور جب شو مئی قسمت اور کچھ ہمارے حکمرانوں کی ہٹ دھرمیوں اور نااہلیوں کے سبب ڈھاکہ کا سقوط ہوگیا مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوگیاتو وہ اندرا گاندھی ہی تھی کہ جس نے ڈنکے کی چوٹ پر کہا تھا کہ آج بھارت نے دوقومی نظریہ کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔اس وقت سے آج تک ہم اس اوپن سیکرٹ سے صرف نظر کرتے ہوئے آرہے ہیں کہ مکتی باہنی کو کھڑا کرنے سے لیکر میدان جنگ میں اتارنے اور مالی و فوجی امداد پہنچانے میں انڈیا نے کہاں کہاں تک کردار ادا کیا تھا لیکن 8 جون2015 کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب میں اور بعدازاں سوشل میڈیا پرنریندر مودی نے اس بات کااعتراف کرلیا کہ ’’بنگلہ دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی ہماری افواج بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر لڑیں اور بنگلہ دیش بننے کے خواب کا پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد کی‘‘اور پھر مسلم کش وزیراعظم حسینہ واجد کو دہشت گردوں(مسلمانوں؍جماعت اسلامی) کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کی حمایت کرنا اور سب سے بڑھ کر بنگلہ دیش کے صدر عبدالحمیدسے واجپائی کیلئے بنگلہ دیش لبریشن وار آنر کا ایوارڈ حاصل کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نریندر مودی مسلم دشمنی اور پاکستان دشمنی میں کس حد تک جاسکتا ہے دوسرے یہ کہ بھارت جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کو پروموٹ کرنے کا سب سے بڑا مجرم ہے اور یہ جرم اس نے ایک مرتبہ نہیں کیا بار بار کیا ہے سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کو تربیت دینا اور انہیں دہشت گردی کیلئے تیار کرنے کا جرم بھی اس کے سر جاتا ہے جس کا برملا اظہار و اعتراف خود بھارت کے رائٹرز جنہیں دنیا حقیقت پسند کہتی ہے،کرچکے ہیں۔ہمارے حکمران اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ ان پاس کوئی جواب ہی نہیں ہے ان کے سر پر تو بس امن کی آشا کا بھوت سوار ہے۔

یہ کیسی امن کی آشا ہے کہ پاکستانی ہاکی ٹیم کو اپنے میچز کھیلے بغیر واپس آنا پڑا کہ انہیں ناصرف کھیلنے سے روک دیا گیا بلکہ ان کی جان کی حفاظت کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑگیا۔پاکستان کی وویمن کرکٹ ٹیم کو سٹیڈیم میں ہی نظر بند کردیا گیا انڈیا میں کوئی ہوٹل اور ریسٹورنٹ ایسا نہیں تھا کہ جس نے یہ ذمہ داری قبول کی ہو یا ہمت کی ہو کہ وہ پاکستان وویمن کرکٹ ٹیم کو اپنے ہوٹل میں رہائش دیں گے۔ ہندو شدت پسند اور متعصب جماعت کی دھمکی کی وجہ سے سب کی ’’پیں‘‘ بول گئی اور ویسے بھی ہماری کرکٹ ٹیم ان کی لگتی ہی کیا ہے کہ ان کیلئے کوئی ڈان شیو شینا یا ان کے کسی آرڈر کی عدولی کرے یا پنگا لے۔

یہ تو تازہ ترین واقعات ہیں جوکہ ہماے پسندیدہ پڑوسی ملک میں ہمارے کھلاڑیوں کے ساتھ روا رکھے گئے اس سے تھوڑا پیچھے چلے جائیں تو کبڈی کے ٹورنامنٹ میں کیسے پاکستانی ریسلرز کو انڈر اسٹیمٹ کیا گیا ان کے حوصلے پست کرنے کی بزدلانہ کوشش کی گئی۔ بار بار ڈوپ ٹیسٹ کروائے گئے جوکہ غیر قانونی و غیر اخلاقی تھے لیکن ملک پسندیدہ ہے اور امن کی آشا چل رہی ہے۔دنیا میں واحد فائنل میچ تھا جوکہ انڈیا میں ہوا کہ جسکے بارے میں ہماری ٹیم کو یہ معلوم ہی نہ تھا کہ فائنل میچ کہاں پر کھیلا جائے گا اور کس وقت کھیلا جائے گا اور جب میچ ہوا تو بے ایمانی کی انتہا کی گئی اور نتیجہ انڈیا کی حسب منشا آیا اور پاکستان کو شکست سے دوچار ہونا پڑالیکن کہیں کوئی عالمی ٹھیکیدار وارد نہ ہوا اور امن کی آشا جاری رہی۔

بات یہیں پر ختم ہوجاتی تو شاید ہم بھی حکمرانوں کی طرح امن کی آشا کی عینک لگائے امن اور پسندیدگی کے گیت گاتے جاتے لیکن جب ہماری بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے کپتان کو جو کہ ہمارا سب سے بہترین کھلاڑی تھا ان کو پانی یا مشروب کے بہانے تیزاب پلادیا گیا جس نے ان کی حالت غیر ہوگئی لیکن ہماری غیرت اپنی نہ ہوسکی۔ مگر بھارت کی انسان دوستی اور امن سے محبت روزروشن کی طرح دنیا پر عیاں ہوگئی لیکن عالمی ٹھیکیداروں اور ملکی ٹھیکیداروں کی خاموشی ایک معمہ ہی رہی اور ویسے بھی جب تک’’اباجی‘‘ کی طرف سے کوئی مزاحمت کوئی مذمت دکھائی اور سنائی نہیں دیتی اس وقت تک ہماری آنکھوں سے امن کاشہد ٹپکتا رہیگا اور کانوں میں پسندیدگی کی لہریں شہد گھولتے رہیں گے

لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوجیوں کی جانب سے بے غیرتی کا ایک اور مظاہرہ کیا گیا لیکن عالمی ٹھیکیداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی بلکہ کوشش کی گئی کہ سارا ملبہ پاکستان آرمی پر ڈال دیا جائے اور انڈین آفیشلز کے بیانات کہ جب تک لائن آف کنٹرول پر کشیدگی پیدا کرنے بارے پاکستان ذمہ داری قبول نہیں کرتا اس وقت تک پسندیدگی اور امن کے مذاکرات بند ہوجانے چاہئیں۔جب اس قسم کے بیانات بھارت کیجانب سے آنے لگتے ہیں توہمارے ’’محبتی لوگوں‘‘ کے دلوں کو کچھ کچھ ہونے لگتا ہے انہیں ایسے محسوس ہوتا ہے اگرامن کی آشا نہ اڑی اور پسندیدگی برقرار نہ رہی تو کوئی قیامت آجائے گی ۔

یہ اس عوام کو بتایاجائے کہ جس کے بل پر آپ اس مملکت خدا داد پر من مانی کررہے ہیں جس کے نام پر اربوں روپے کے فنڈز ہڑپ کررہے ہیں ان کو بتایا جائے کہ ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ انڈیا والے بات بے بات جس طرح چاہیں ہمارے وفود کو ذلیل و رسوا کریں لیکن ہم انہیں صرف like کرتے رہتے ہیں اور فیورٹ قرار دیتے ہیں۔ خاکم بدہن اگر محبت اتنی ہی جوش مارنے پر تل گئی ہے تو بنگلہ دیش کی طرح باقی حصہ بھی ان کو دان کرکے ان کی گود میں بے شرمی و بے حیائی کی نیند کے مزے لوٹتے جائیں

خدارا !کچھ تو اپنی عزت واکرام بنالو کہیں تو پاکستانیت کاسکہ منوالو۔کہیں تو مسلم غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرلو۔ تو کون ؟ میں خوامخواہ …… کی کھال سے نکل آؤ تاکہ ہمارے وقار عزت و تکریم کا کچھ تو مورال بلند ہو۔آصف علی زرداری کی تو غیرت کو کچھ جوش ہ ہوش آیا ہے مگر اہل اقتدار کی خاموشی سوالیہ نشان ہے عوام کو بتایا جائے کہ یہ کیسی امن کی آشا ہے ؟
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211766 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More