یہ احتیاط کس کام کی اگر……؟

مسلم امہ اپنے اندرونی مسائل میں ایسے پھنسے ہیں کہ انہیں مسلمانوں کے حالات کا بلکل اندازہ نہیں ۔ اغیار نے مسلمانوں کو اپنی دشمنی کی تلوار کی نوک پر رکھ لیا ہے ۔ مسلم حکمرانوں کی غیرت و حمیت مر چکی ہے۔ اسی لئے مسلمانوں پر سو مظالم ڈھائے جائیں ،ان کی مدد کے لئے کوئی نہیں آتا۔ میانمار (برما) میں بدھسٹ اور اُن کی ہم نوا تنظیموں نے مل کر جس قدر بربریت کا مظاہرہ کیا ہے ۔ اس کے بعد انہیں انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے ۔ ان کا وحشی پن کی وجہ سے برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کا جنون بڑھتا جا رہا ہے۔

مجبور،بے بس برما کے مسلمانوں پر وحشیانہ سلوک پر نہ تو یورپین یونین نے اُف کہا ہے نہ ہی دنیا کے دوسرے ممالک میں کسی کے کان پر جوں رینگی ہے۔ غیر تو غیر ہیں اپنے بھی ان بے چارے ، بے بس لوگوں کے پُر سان حال نہ ہوئے ۔ہمارے علماء نے چند بیانات اور بینر لگا کر اپنا فرض پورا کر لیا۔ دھرنوں پر میک اَپ کئے ہوئے خواتین نے بھرپور حصہ لیا ،مگر اس انسانیت سوز معاملے پر کوئی احتجاج نہ کیا۔ کسی فلاحی ادارے کو توفیق نہ ہوئی کہ معصوم زندگیوں سے کھیلنے والوں کے خلاف کوئی آواز بلند کریں ۔کیا برمی مسلمانوں پر زمین تنگ کرنے والوں کی موت نہیں آنی ، کوئی ملک ان برمی لوگوں کو پناہ دینے پر رضامند نہیں ہے۔ جن ممالک میں ان کے لئے نرم گوشہ ہے وہ بھی ابھی سوچ بچار کر رہے ہیں۔ وہ انہیں پناہ دیتے ہوئے اپنا نفع نقصان دیکھ رہے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ کون ان کے اس عمل سے ناراض ہوگا ۔امریکی اور برطانیہ کے مفاد میں استعمال ہونے والے لوگوں کے لئے تو بڑھ چر کے بولتے ہیں ۔ انہیں ایوارڈز اور خطیر رقوم سے نوازا جاتا ہے۔ ان کو دنیا کا بڑا نوبل انعام تک دیا جاتا ہے۔ان ایوارڈ یافتہ نے بھی جب مظلوموں پر انتہائی ظلم کی بات آئی ،تو انہوں نے اپنی آواز اور آنکھیں بند کر لی،کیونکہ انہیں امریکہ اور یورپ کی خوش نودی چاہئے بس ۔ان انصاف اور انسانیت کے ٹھیکے داروں کا کیا کردار ہے،اگر امریکی خود ساخطہ سوچ کے ساتھ افغانستان پر حملہ کرنا ہو، تو اقوام متحدہ یک زبان ہو کر افغانستان پر حملہ کرواتی ہے۔ نیٹو بن جاتی ہے کیونکہ امریکہ کو خوش کرنا ہے،لیکن روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور ان کی نسل کشی پر برمی حکومت سے کوئی باز پرس کرنے کی زحمت نہیں کر رہا۔

پاکستان مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی قوت ہے۔ اسی لئے مسلم ممالک کسی بھی مسئلے پر سب سے پہلے پاکستان کی جانب دیکھتے ہیں۔برما کے مسلمان بھی پاکستان سے بہت سی توقعات رکھتے ہیں۔ اگر پاکسان قوت سے برما میں ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائے، تو کوئی وجہ نہیں کہ برما حکومت پاکستان کی بات کو درگزر کرے،لیکن ہمیں تو بنگلہ دیش، بھارت اور افغانستان جیسے ممالک اکثر دھمکیاں دتے رہتے ہیں ۔ اور ہم کسی نہ کسی مصحلت کی خاطر کان اور آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ کسے معلوم نہیں کہ بھارت ہمارا اذلی اور گھٹیا دشمن ہے ، مگر ہم انہیں فیورٹ قرار دیتے ہوئے زرا سی بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔عرصے کے بعد جنرل رحیل شریف نے ہمت دکھا کر بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سخت رویہ اپنایا ہے۔ جس کی وجہ سے مودی حکومت کی ٹانگیں پھول کئی ہیں۔ہم ہمیشہ سے مصلحتوں اور دباؤ کا شکار رہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ہمارے دشمن یا دشمن نما دوست فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔

پاکستان کے پرنٹ میڈیا نے برما کے مظلوم لوگوں کی مدد کے لئے ہر ممکن آواز اٹھائی ہے ،لیکن الیکٹرانک میڈیا نے اس مسئلے کو خصوصی توجہ نہیں دی ہے۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ برما کے مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہے۔ انہیں تو بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کی فلموں کی خبروں سے فرصت نہیں ہے۔

ترک صدر کا اپنی اہلیہ کے ہمراہ بے آسرا روہنگیا مسلمانوں کی داد رسی کرنے جانے پر تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی سوچ ایسی کیوں نہیں ہے؟پاکسان میں اقلیتوں سے حسنِ سلوک کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ایک آدھ واقعہ ہو جائے تو دنیا میں شور مچ جاتا ہے۔ اب روہنگیا مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کر دی گئی ہے۔ کوئی احتجاج نہیں ہورہا۔ ان مسلمانوں کے دکھ،درد کا مداوا صرف آواز اٹھانے یا احتجاج سے آگے نکل چکا ہے۔ ہمیں متفقہ مسلم آواز کی ضرورت ہے۔ جو دشمن کو خبردار کر دے ۔اب ہمیں اظہار یک جہتی اور قرار دادوں سے آگے نکل کر سوچنا ہو گا۔ عالمی سطح پر اقلیتوں کے حقوق کی جنگ لڑنی ہو گی ۔ برمی ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔کسی بھی دباؤ سے بالاتر ہو کر انہیں مکمل تحفظ دینا ہو گا۔ یہ نہ صرف انسانی بلکہ مذہبی فرض بھی ہے۔ حکمرانوں کو بڑی سوچ کے ساتھ کام کرنا ہوگا ،دوسروں کا بھلا کریں گے تو انشاء اﷲ تعالیٰ ہماری قوم کے لئے بھی بہتری ہوگی اور دنیا میں اسلامی ممالک کو بھی پیغام پہنچے گا، کہ ہمیں ہوش کے ناخون لینے چاہئے ،کیونکہ اسلامی ممالک کا اتحاد دنیا اسلام اور وقت کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو نئے سرے سے بنانا ہوگا۔ ایسے لوگوں کو لانا ہو گا، جو اس اہلیت کے حامل ہوں، جو اغیار کا مقابلہ کر سکیں ۔ اپنے دشمنوں سے بھی نبٹنے کے لئے مہم چلا سکیں ۔ ہر پلیٹ فارم کو استعمال کر کے باور کروایا جائے کہ ہمارے دشمن کی اصل شکل کیا ہے۔کس انداز میں ہماری جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ ان کی دشمنی انتہائی نیچی سطح تک پہنچ چکی ہے۔ بھارت کا پاکستان پر حملے تک کی گیدڑ بھپکی اس بات کی صاف مثال ہے کہ ہندوستان پاکستان کی ترقی سے پریشان ہو چکا ہے، چین اوردوسرے دوست ممالک سے بڑھتے ہوئے تعلقات ایسے ایک آنکھ نہیں بھا رہے۔برما پر اس کے حملے سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی دہشت گرد سوچ کو کیسے استعمال کر رہا ہے۔ ان کے مقابلے کے لئے ہمیں کھڑا ہونے کی اشد ضرورت ہے۔وہ ہماری ترقی کے سفر پر توجہ کو ہٹانا کر جنگ و جدل کی جانب لانا چاہتا ہے۔ ہمیں دشمن کے ہر وار کا منہ توڑ جواب دینا ہے۔ اس کے لئے دور اندیشی کی ضرورت ہے۔ہم درست ڈگر پر چل رہے ہیں مگر تھوڑا اور محتاط ہونا ہو گا،مگر ڈر کر نہیں بلکہ دانشمندانہ احتیاط کرنا ہوگی۔
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95346 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.