قومی اور عالمی تناظر میں وزیراعظم کا بنگلا دیش دورہ

وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دوسرے سال کی ابتداء ایک نہایت ہی اہم غیر ملکی دورے سے کی ۔ بنگلا دیش کے اس دو روزہ مختصر دورے میں ناٹک کم اور کام زیادہ ہوا۔ اس کا جہاں ایک علاقائی اور اور ایک قومی پہلو ہے تو وہیں ایک بہت ہی اہم عالمی تناظر بھی ہے جسےذرائع ابلاغ نے گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر نظر انداز کردیا۔ علاقائی سطح پر اس کا منفرد حصہ ممتا بنرجی کا ساتھ ہے۔ جو وزیراعظم اپنی وزیر خارجہ کو اپنے ساتھ لے جانے کا روادار نہ ہو اس کا ایک ایسی وزیراعلیٰ کو اپنے ساتھ لے جانا جس نے اسے مغلظات تک سے نوازہ ہو کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ وزیراعظم نے بنگلا دیش میں ۲۲ معاہدے کئے مگر تیستا ندی کے پانی کی تقسیم کا فیصلہ نہیں کیا ۔ ؁۲۰۱۱ میں جب سابق وزیراعظم منموہن سنگھ نے اس موضوع کو چھیڑا تو وزیراعلیٰ ممتا بنرجی نے خوب شور شرابہ کیا ۔ اس بار وزیراعظم نریندر مودی نے تیستا ندی کے پانی کی تقسیم کوممتا بنرجی پر چھوڑ کر ان کا دل خوش کردیا۔ اس طرح مودی جی نے آئندہ سال منعقد ہونے والے انتخابات میں ترنمل کے ساتھ الحاق کی راہ ہموار کردی۔ پنچایت انتخاب کے نتائج سے بی جے پی کو دال آٹے کا بھاو معلوم ہوگیا ہے اور اب وہ ترنمول کی بیساکھی پر ریاستی حکومت میں شامل ہو کر ترنمل کو مرکزی حکومت کا حصہ بنا ناچاہتی ہے ۔ راہل گاندھی کو اس پیش رفت میں امید کی کرن نظر آگئی اور مودی کے ڈھاکہ پہنچتے ہی وہ کولکاتہ پہنچ گئے۔ راہل نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ممتا نے بنگلادیش جانے کیلئے منموہن کے بجائے مودی کو کیوں پسند کیا؟

قومی سطح پر اس دورے میں کئی اہم فیصلے ہوئے جس میں بس سروس، چٹا گانگ کی بندر گاہ کا استعمال اور سرحدی تنازع بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ ڈھاکہ سے اگر تلہ اور ڈھاکہ سے شیلانگ ہوتے ہوئے گوہاٹی تک کی بس سروس شمالی مشرقی ہندوستان کے باشندوں کیلئے بہت مفید ہوگی ۔شمال مشرقی ریاستیں چونکہ بندر گاہ سے محروم ہیں اس لئے چٹا گانگ کے استعمال سے ان کی درآمدات و برآمدات آسان ہو جائیں گی۔ اس سے ان پسماندہ ریاستوں کے لوگوں کو نہ صرف آمدورفت سہولت میسر آئیگی بلکہ صنعت و تجارت کو بھی فروغ ملے گا۔ اس بندرگاہ سے بڑے پیمانے پر چینی مصنوعات کی بھی ہندوستان کے دور دراز علاقوں تک رسائی ہوجائیگی اس طرح چین کا بہت فائدہ ہوگا مگر اس کی تعمیر کا وہی مقصد بھی ہے لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ ہندوستان اور بنگلا دیش کے لوگ بھی اس سے استفادہ کرسکیں گے۔
سرحدی تنازع کا حل اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ اس سے تقریباً ۵۱ ہزار لوگوں کو کسی نہ کسی ایک ملک کی باقائدہ شہریت مل جائیگی اور ان نظر انداز شدہ علاقوں تک بھی شہری سہولیات کی فراہمی کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ یہ کل ملا کر ۱۶۲ گاوں ہیں جن میں سے ۱۱۱تو بنگلا دیش کو دے دئیے گئے اور ۵۱ ہندوستان کے حصے میں آئے۔ رقبہ اگر دیکھیں تو ۱۷ہزار ایکٹر بنگلا دیش کو ملا اور ۷ہزار پر ہندوستان نے قناعت کی۔ آبادی کا موازنہ کیا جائے تو بنگلا دیش کو ملنے والے علاقے میں ۳۴ ہزار اور ہندوستان کے علاقہ میں ۱۴ ہزار لوگ رہتے ہیں۔ اگر یہی سمجھوتہ کانگریس والے کرتے تو بی جے پی کی دیش بھکتی جوش میں آجاتی اور بھارت کی پاون دھرتی کے بنگلا دیش کے حوالے کئے جانے پر آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ۔ اس کے علاوہ کانگریس پر مسلمانوں کے ووٹ بنک کی خاطر بنگلا دیش کے ساتھ سودے بازی کا الزام لگادیا جاتا لیکن اب کی بار چونکہ زعفرانی وزیراعظم نے خود جھک کر یہ معاہدہ کر دیا ہے تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

اس دورے کوتاریخی بنانے والے مذکورہ معاہدے کی حقیقت بھی نہایت دلچسپ ہے ۔ ۱۶ مئی ؁۱۹۷۴ کو اندرا گاندھی اور شیخ مجیب الرحمٰن نے مل کر بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان یہ بٹوارہ طے کردیا تھا۔ اس کے بعد بنگلا دیش کی ایوان پارلیمان نے اسے منظوری دےدی لیکن ہندوستان نے اس میں غیر معمولی تاخیر کی۔ اس سمجھوتے پر باقائدہ دستخط ۶ ستمبر ؁۲۰۱۱ کو وزیراعظم منموہن سنگھ نے کئے۔ اب کی بار تو صرف یہ ہوا کہ اس کے دستاویز خارجہ سکریٹریوں کے درمیان لئے دئیے گئے لیکن اسے اس طرح پیش کیا گیا گویا وزیراعظم نریندر مودی نے تاریخ رقم کردی ۔ اس بابت بی جے پی نے اپنے دورِ اقتدار میں دستوری ترمیم کے ذریعہ اسے قابلِ عمل بنایا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود منموہن سنگھ نے معاہدے پر دستخط کے بعد یہ ترمیم کیوں نہیں کی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دستوری ترمیم کیلئے دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے اس کیلئے ؁۲۰۱۳ میں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کی جس میں بی جے پی کی جانب سے اڈوانی، راجناتھ، جیٹلی اور سشما نے شرکت کی اور صاف طور پر کہہ دیا کہ وہ اس کی مخالفت کرے گی اوریہ ترمیم نہیں ہو سکے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ معاملہ ٹل گیا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی نے گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر وہی دستوری ترمیم خودکروالی جس کی مخالفت وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر کیا کرتی تھی۔

اس دورے کے دوران یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ہندوستان نے بنگلا دیش کو ۲ بلین ڈالر کی کریڈٹ دے کر اس غریب پڑوسی ملک پر بہت بڑا احسان کیا ہے اور اس میں شک نہیں کہ جی ڈی پی کے معاملے میں ہندوستان کی حالت بنگلا دیش سے بہت بہتر ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانی فلاح بہبود کی شرح کا موازنہ کیا جائے تو کئی معاملات میں بنگلا دیش کو ہندوستان پر سبقت حاصل ہے مثلاً بنگلا دیش میں خواتین کی شرح خواندگی ۸۸ فیصد ہے جبکہ ہندوستان میں صرف ۶۸ فیصد۔ پرائمری اسکول میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کی تعداد ہندوستان میں ۱۰۲ فیصد ہے تو بنگلا دیش میں ۱۰۶ فیصد سیکنڈری اسکول میں یہی تناسب ۹۴ کے مقابلے ۱۱۴ ہے۔ جس وزیراعظم نےشیخ حسینہ کے بارے میں ’’عورت ہوکر بھی‘‘ کہہ کر دنیا بھر کی بدنامی مول لے لی اسے پتہ ہونا چاہیے کہ بنگلادیش تو کجا خود ان کے اپنے ملک میں لڑکیوں کے تعلیم کی شرح لڑکوں سے بہتر ہے۔ بنگلا دیش میں ۳۶ فیصد خواتین ملازمت کرتی ہیں اس کے مقابلے ہندوستان میں ۲۹ فیصد۔ بنگلا دیش میں اوسط عمر ؁۱۹۷۰ میں ۴۷ سال تھی مگر اب ۷۱ سال ہے جبکہ بھارت میں ۶۶ سال۔پانچ سال سے کم عمر بچوں کے موت کی شرح بنگلا دیش میں ۴ فیصد ہے جبکہ ہندوستان میں ۵ فیصد۔ پیدائش کے وقت ماں کی موت کا خطرہ ہندوستان کے اندر ۱۹۰ میں ایک ماں کو ہوتا ہے جبکہ بنگلا دیش کے اندر ۲۵۰میں سے ایک ماں کو۔ ان اعدادوشمار کی بنیاد پر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے سرحدی علاقوں کے جن لوگوں کو اس بات کا موقع دیا گیا ہے کہ وہ چاہے جس ملک کی شہریت اختیار کریں تو وہ اپنے اس حق کا استعمال کس کے ملک کے حق میں کریں گے۔

اس دورے کا سب سےمضحکہ خیز پہلو اٹل بہاری واجپائی کو دیا جانے والا ’’لبریشن ایوارڈ آف وار آنر‘‘ ہے جسے بنگلا دیشی صدر محمد عبدالباسط نے وزیراعظم نریندر مودی کے حوالے کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اٹل جی نے بنگلا دیش کی لڑائی میں اندراگاندھی کو درگادیوی کے لقب سے نوازنے کے علاوہ کیا کیا تھا؟ اٹل جی نے جس شخصیت کو درگا دیوی کے خطاب سے نوازہ گیاتھا اسے نظر انداز کرکے اٹل جی تمغہ عطاکرنا دراصل احسان فراموشی ہے اور اٹل جی اپنے ہوش و حواس میں اسے کسی صورت قبول نہ کرتے۔ ویسے اچھا ہی ہوا کہ مودی جی کو یاد نہیں آیا کہ نبگلا دیش کی جنگ اندرا گاندھی کے زمانے میں لڑی گئی ورنہ وہ کہہ دیتے کہ عورت ہوکر بھی اندراجی نے یہ کارنامہ انجام دےدیا جیسا کہ حسینہ واجد کے بارے میں کہہ دیا کہ عورت ہونے کے باوجود وہ دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہیں ۔ مودی جی تو مرد ہو کر جسودا بین کو چھوڑ کر فرار ہوگئے کہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا جبکہ وہ اب بھی اپنے خاوند کیلئے چشم برراہ ہیں۔
اندرا جی کا ذکر آیاتو بنگلادیش کے حوالے سے عالمی سیاسی تناظراپنے آپ سامنے آجاتا ہے۔ پاکستان سے ؁۱۹۶۵ کی جنگ کے بعد سابق وزیراعظم لال بہادر شاستری نے صدر ایوب خان کے ساتھ تاشقند میں معاہدہ کرلیا اور پہلے جیسی حالت صورتحال بحال ہوگئی۔ اندرا گاندھی نے پاکستانی حملے کا بدلہ بنگلادیش میں لیا اور مہاجرین کے کیمپ میں مکتی باہنی کو تیار کرکے اس کے ذریعہ بنگلا دیش آزاد کروا لیا۔ اس طرح ہندوستان نے اپنے سب سے بڑے حریف کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ۔ اس کے بعد پورے علاقہ پر اپنا تسلط قائم کرنے کیلئے پوکھرن میں جوہری دھماکہ کردیا لیکن پاکستان نے اس کے جواب میں یکے بعد دیگرے تین دھماکے کرکے یہ ظاہر کردیا ہے ایٹمی اسلحہ کی دوڑ میں وہ بھارت سے پیچھے نہیں ہے۔
سوویت یونین نے افغانستان میں فوج کشی کی تو اسے ہندوستان کی حمایت حاصل تھی۔ پاکستان اور امریکہ اس کے مقابلے مجاہدین کے حامی تھے۔ اس جنگ میں مکتی باہنی کی مانند مجاہدین کامیاب ہوئے اور روس وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ پاکستان نے بنگلا دیش کا بدلہ لینے کیلئے ہندوستانی پنجاب میں خالصتان تحریک کو شہ دے کر شورش برپا کی لیکن نرسمھا راو ٔ نے اسے آہنی پنجے سے کچل دیا اور سکھ جنگجو بنگلہ دیش یا افغانستان کی مانند کامیابی سے محروم رہے۔ خالصتان کی تحریک کے اثرات کا اندازہ گزشتہ ہفتہ جموں میں رونما ہونے والے احتجاج سے لگایا جاسکتا ہے جو سنت بھنڈارن والا کے پوسٹر ہٹانے کے خلاف تھا۔ اس معاملے میں جب سکھ مذہبی پیشواوں اور دانشوروں سے بات کی گئی تو ان میں سے اکثر نے جرنیل سنگھ بھنڈان والا کو سکھ پنتھ کا شہید قراردیا اور حفاظتی دستوں کی جانب سے پوسٹر ہٹائے جانے کی مذمت کی۔ اس احتجاج میں سکھ نوجوانوں کی جانب سے پاکستان زندہ باد کے نعرے کی بھی ایک وکیل نے تصدیق کی۔

۱۱ ستمبر کے بعد افغانستان کی صورتحال یکسر بدل گئی۔ حکومت ہند نے دہشت گردی کی مخالفت کے نام پر امریکی فوج کشی کی حمایت کردی اور پرویزمشرف کو امریکہ نے خرید لیا ۔ امریکہ نے جب حامد کرزئی کو کٹھ پتلی صدر بنایا تو اس کا مقابلہ طالبان تھا جس کی حمایت پاکستانی فوج یا آئی ایس آئی کررہی تھی اس لئے حامد کرزئی نے ہندوستان کے سامنے دست سوال دراز کیا تاکہ پاکستان میں بدامنی پھیلا کر پاکستانی فوج کو اپنے گھر میں مصروف کردیا جائے۔اس مقصد کی خاطر تحریک طالبان پاکستان بنائی گئی جس نے پاک افغان سرحدی علاقے میں شورش برپا کردی۔ اس تحریک کےنام میں طالبان کا فائدہ یہ اٹھایا گیا کہ اس کی تخریبی کارروائیوں کے نتیجہ میں پاکستانی عوام کی رائے عامہ افغانی طالبان کے خلاف ہو گئی اس لئے کہ عام لوگ ان دونوں کے درمیان فرق کرنے سے قاصر تھے۔ بے دین دانشور اور صحافی جانتے بوجھتے اس فرق کو نظر انداز کرکے اسلام کے خلاف زہر اگلنے میں لگے رہے۔ بنگلا دیش میں مودی جی نے کہا کہ پاکستان کی کارستانیوں کے سبب بنگلا دیش بدنام ہے لیکن سچ تو یہ ہے پاکستان کی بدنامی کے پسِ پشت اس کے پڑوسیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ مودی جی کا بنگلادیش میں پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگانا ان کی سفارتی شکست کا شاخسانہ ہے۔ اگر پاکستان دہشت گردی کو فروغ دینے والا ملک ہے تو اس کے وزیراعظم کو حلف برداری کے موقع پر کیوں بلایا گیا ؟ پاکستان پر یہ الزاماگر درست بھی ہے تو پاکستان کی جانب سے ہندوستان پر لگایا جانے والا الزام بھی غلط نہیں ہے۔ اس حمام میں دونوں برہنہ ہیں۔ اس پروزیردفاع منوہر پاریکر کےدہشت گرد بنانے والے بیان کی روشنی میں مودی جی کا دہشت گردی کے خلاف واویلا مضحکہ خیز لگتا ہے۔

حامد کرزئی کی بدولت جب بھارتی خفیہ ایجنسیوں کو افغان پاک سرحد پر قدم جمانے کا موقع ملا تو پاکستان کا امن و امان غارت ہوگیا۔ اس دوران صوبہ پختونخواہ کے علاوہ بلوچستان کے اندر علٰحٰیدگی پسندوں نے سر ابھارا اور ایک وقت میں ایسا لگنے لگا تھا پاکستان صرف پنجاب کی حد تک سمٹ کر رہ جائیگا اس لئے کہ سندھ کے دیہاتوں میں جئے سندھ اور کراچی میں ایم کیو ایم کی دہشت گردی بامِ شباب پر پہنچ گئی تھی لیکن اس سے قبل کے یہ آتش فشاں پھٹتا امریکہ نے اپنی شکست کو تسلیم کرکے افغانستان سے واپس جانے کا فیصلہ کرلیا۔ ایک اور اتفاق یہ ہوا کہ امریکہ بہادر نے افغانستان کے اندر جو دستور بنوایا تھا اس کی رو سے حامد کرزئی کیلئے دوسے زیادہ مرتبہ صدر بنے رہنا ممکن نہیں تھا اس لئے ناٹو کے ساتھ اس کی مدت کار بھی اختتام کو پہنچی۔ اس طرح گویا امریکی شجر اور کرزئی کی شاخ نازک پر جو آشیانہ تعمیر کیا گیا تھا وہ اپنے بوجھ سے زمین دوز ہو گیا۔

افغانستان میں گزشتہ سال صدر اشرف غنی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد حکومتِ افغانستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا آغاز ہوا۔ اشرف غنی نے سب سے پہلےسعودی عرب اور پھر پاکستان کے بعد چین کا دورہ کردیا اس طرح گویا بڑے جتن سے جو اثر روسوخ کا جال افغانستان میں بنا گیاتھا وہ مکڑی کے جال کی مانند بکھر گیا ۔ چشمِ زدن میں افغانستان کے پاکستان اور چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار ہوگئے۔ مودی جی نے چین کو پاکستان سے دور کرنے کی خاطرپہلے چینی سربراہ کو ہندوستان آنے کی دعوت دی اور پھر چین جاکر پاکستان کے ساتھ سڑک بنانے سے باز رکھنے کیکوشش کی لیکن چین نے اسے مسترد کردیا۔ حامد کرزئی نے سبکدوش ہو نے کے بعدصدر اشرف غنی کو پاکستان سے دوری بنائے رکھنے کی تلقین کی لیکن وہ بھی کامیاب نہ ہو سکی ۔

پشاور حملے کے بعد پاکستانی فوجی سربراہ راحیل شریف کا کابل دورہ اور اشرف غنی کے تعاون کا وعدہ پاک افغان تعلقات میں گرم جوشی نمایاں ثبوت تھا۔ اس دوران طالبان کا دفتر قطر میں کھل چکا تھا ۔ حامد کرزئی کے زمانے میں طالبان کے جنپر پردہ پڑا رہا وہ اشرف غنی کے صدر بن جانے کے بعد علیٰ الاعلان سنجیدہ گفت و شنید میں تبدیل ہوگئے۔ اس پیش رفت میں چین کو شامل کیا گیا اورطالبانی رہنما قاری دین محمد نے گزشتہ سال نومبر میں بیجنگ کا دورہ کیا۔ اس سال فروری میں وہ پاکستان آئے اورانہوں نے افغانی حکومت کے رابطہ کیا مگر اسے صیغۂ راز میں رکھا گیا لیکن یکم مئی کو افغان حکومت کا ۲۰ رکنی وفد علی الاعلان طالبان کے ساتھ گفت و شنید کرنے کیلئے قطر گیا اور دونوں فریقوں نے کھل کرباہمی تعاون کے مسئلہ پر بات چیت کی۔ طالبان کے حوالے سے خواتین کے اندر بے شمار شکوک شبہات پیدا کئے گئے تھے لیکن یہ حسنِ اتفاق ہے کہ جب مودی جی بنگلا دیش میں تھے افغانی خواتین کا ایک ۹ رکنی وفد جس میں ۵ ارکان پارلیمان شامل تھیں اوسلو میں طالبان کے رہنماوں سے اعتماد بحالی کی خاطر محوِگفتگوتھا۔
اس صورتحال میں بنگلا دیش کے اوپر سےچین کے اثرات کو زائل کرنے کی خاطر وزیراعظم نریندر مودی اپنے بھولے ہوئےپڑوسی کی جانب متوجہ ہوئے جہاں چین چٹاگانگ کے اندر ایک بندرگاہ تعمیر کرچکا تھا اور گہرے سمندر میں سوناڈیہ کاکس بازار کے قریب دوسری بندرگاہ بنانے میں مصروف ہے۔ حامد کرزئی کے زمانے میں ہندوستان نے افغانستان کو دو بلین ڈالر کی سب سے خطیر امداد دی تھی لیکن اب ۲ بلین ڈالرکے قرض کی سہولت سےبنگلا دیش کو نوازدیا گیا تاکہ وہ اس کے عوض ہندوستانی مصنوعات خرید سکے۔ جنوب مشرقی ایشیا کی سیاست میں جو تبدیلی آئی ہے اس کا تصور بھی چند سال قبل محال تھا۔ فی الحال بنگلا دیش اور سری لنکا چین کے نرغے میں ہیں وہ نیپال تک ریلوے لائن بچھا نے کے فراق میں ہے پاکستان اس کا یارِ غار ہے۔ ایسے میں یہ حکومتِ ہند کی اولین ضرورت ہے کہ وہ اس کے اثرورسوخ کوزائل کرنے کی جانب سنجیدہ اقدامات کرے لیکن اس معاملے میں احتیاط کی بڑی اہمیت ہے۔مثلاً بنگلا دیش کو قریب کرتے ہوئے اگر ہم نے میامنار کو دور کردیا تو یہ کوئی فائدے کا سودہ نہیں ہوگا۔ ایک طرف تو چین نے میامنار سے قربت پیدا کرنے کیلئے آنگ سان سوچی کو بیجنگ آنے کی دعوت دی اور اسی دن ہماری فوج نے اسے اعتماد میں لئے بغیر یک طرفہ کارروائی کردی ۔ اس سے میامنار اور ہندوستان کے درمیان دوری پیدا ہو سکتی ہے اور شمال مشرقی ریاستوں میں شورش پر قابو پانا مشکل ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم نریندر مودی کا حالیہ دورۂ بنگلا دیش غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔اگر وزیراعظم اپنی زبان پر لگام رکھتے تو اس افادیت میں مزید اضافہ ہو جاتا۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450718 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.