زراعت وصنعت دوست سالانہ میزانیہ : زبانی وعملی ردعمل

 وفاقی حکومت نے مالی سال دوہزارپندرہ سولہ کابجٹ پیش کردیا ہے۔بجٹ کی تفصیلات آپ اخبارات میں پڑھ چکے ہیں تاہم اس کی مختصرتفصیل لکھ دیتے ہیں تاکہ بات کوسمجھنے اورسمجھانے میں آسانی رہے۔۴۳۱۳ ارب روپے کے وفاقی بجٹ پیش کیاگیا۔ جس میں خسارہ کاتخمینہ سولہ سوپچیس ارب روپے لگایاگیا ہے۔مختلف مدات میں ایک سواڑتیس ارب روپے کی سبسڈیزدی جائیں گی۔ٹیکس وصولیوں کاہدف ایک ۱۳۰۴ ارب روپے رکھاگیا ہے۔صوبوں کو۱۸۵۰ ارب روپے ملیں گے۔مشروبات، کاسمیٹکس ،موبائل فون،سگریٹ مہنگے کردیے گئے۔تعمیراتی میٹریل زرعی وصنعتی میشنری سستی کردی گئی۔کسٹمزڈیوٹی کم کرکے ایک سوبیس ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کردی گئی ہے۔ملازمین کوبنیادی تنخواہ میں ساڑھے سات فیصد جبکہ میڈیکل الاؤنس میں پچیس فیصد اضافہ ملے گا۔حلال گوشت، مچھلی کی سپلائی، بجلی کی ترسیل کے منصوبوں ہاؤسنگ سکیموں کے لیے بیچی گئی جائیدادپرٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی ہے۔گاڑیوں کی ٹرانسفر، ٹوکن ٹیکس میں کمی،سولرپینل کی درآمدپرسیلزٹیکس ،کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ برقراررکھی گئی ہے۔ایف بی آر سے ایس آراوزاوررعایتیں دینے کااختیارواپس لے لیاگیا۔۵۳۲ ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔دفاعی بجٹ میں گیارہ فیصداضافہ کرکے ۷۸۰ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔سیکیورٹی اورعارضی نقل مکانی کرنے والوں پرسوارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ایراکے منصوبہ جات کے لیے سات ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جن میں تین ارب روپے کی بیرونی امدادبھی شامل ہے۔بجلی وپانی کے منصوبوں پرتین کھرب سترہ ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔لوڈشیڈنگ دوہزارسترہ میں ختم کرنے کاہدف رکھاگیا ہے۔ہائیڈل منصوبوں کے لیے ایک کھرب،جینکوزکے لیے ۸۰ ارب سے زائدتجویزکیے گئے ہیں۔دیامر،بھاشا، داسوڈیم کھچی کینال کے لیے بھی رقم مختص کی گئی ہے۔یزمان میں گرڈاسٹیشن قائم کیاجائے گا۔مزدورکی کم ازکم تنخواہ تیرہ ہزارروپے کردی گئی ہے۔پی ایچ ڈی کے ملازمین کودس ماہانہ الاؤنس دس ہزارروپے ملے گا۔تنخواہ، پنشن اورالاؤنس میں اضافے پر۴۶ ارب روپے اضافی خرچ ہوں گے۔فوڈ سیکیورٹی پرڈیڑھ ارب ،ٹیکسٹائل پرساڑھے سولہ کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے۔پرائم منسٹریوتھ پروگرام اورمیلنئیم گولزکے حصول ،معاشرے کی ترقی کے پروگراموں کے لیے بیس، بیس ارب روپے رکھے گئے ہیں۔وزیراعظم ہیلتھ انشورنس سکیم شروع کرنے کافیصلہ کیاگیاہے جس کے لیے ۹ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔جسٹس وانسانی حقوق ڈویژن کے لیے ایک ارب پچاس کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔انٹرنیشنل کالزسستی ہونے سے بیرون ملک پاکستانیوں کوفائدہ ہوگا۔ایک سواٹھائیس تحصیلوں کوفائبرآپٹک سے منسلک کرنے کے لیے ۸․۲ ارب کی سرمایہ کاری کرنے کافیصلہ کیاگیا ہے۔یوتھ بزنس لون سکیم کے قرضے میں مارک اپ میں دوفیصدکمی گئی ہے۔میرانی ڈیم کے بارشوں سے متاثرین کے لیے ساڑھے تین ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔پرائیویٹ سیکرٹری کی تنخواہ میں سوفیصداضافہ کیاگیاہے۔شاہراؤں کی تعمیرپرایک کھرب ۵۹ ارب روپے ، ۳۸۷کلومیٹرطویل ملتان تاسکھرسیکشن پر۶۱ ارب روپے خرچ ہوں گے۔سولرٹیوب ویل کے لیے قرضے پرسودختم کردیاگیا ہے۔تین لاکھ چھوٹے کسانوں کوایک ایک لاکھ قرضہ ملے گا۔آزادکشمیراورگلگت بلتستان کے لیے ۲۳ ارب ۲۳کروڑ سترلاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔خود کش حملوں میں شہیدہونے والوں کی بیواؤں کادس لاکھ روپے تک کاقرضہ حکومت اداکرے گی۔ترقیاتی بجٹ ایک ہزارپانچ سوچودہ ارب روپے رکھاگیا ہے۔وفاق کوسات سوصوبوں کواٹھ سوتیرہ ارب روپے ملیں گے۔ اس میں دوسواکتیس ارب ۷۵کروڑ کی غیرملکی امدادبھی شامل ہے۔بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کے لیے ایک سودوارب روپے مختص کرکے امدادی پروگرام کادائرہ پچاس لاکھ خاندانوں تک بڑھانے کافیصلہ کیا گیا ہے۔پاکستان بیت المال کافنڈزچارارب روپے کردیاگیا ہے۔خیبرپختونخوامیں نئی صنعتوں پرپانچ سال کے لیے ٹیکس میں چھوٹ دینے کااعلان کیاگیا ہے۔جوہری توانائی منصوبوں کے لیے تیس ارب ۷۲ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پندرہ ارب چھیالیس کروڑ کی غیرملکی امدادملے گی۔ جدیدنیوکلیئرپاورپلانٹس کے تحفظ کانیاپرگرام شروع کیا جائے گا۔چشمہ پلانٹ، تونسہ مائیننگ پراجیکٹ اورمینارملتان کی اپ گریڈیشن کے لیے بھی فنڈز رکھے گئے ہیں۔ ایچ ای سی کے بجٹ میں چودہ فیصداضافہ کرکے ساڑھے ۷۱ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ سائنس اینڈٹیکنالوجی کے منصوبوں کے لیے ایک ارب چھ کروڑ ،دفاع ودفاعی پیداوارکی ترقیاتی سکیموں کے لیے تین ارب ۳۵ کروڑ خرچ کیے جائیں گے۔اقتصادی راہداری کے لیے ۵۸ ارب ۱۰ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہین۔ این ایچ اے کوپانچ ارب سے زائد ملیں گے۔ ریلوے کی ترقی کے لیے اکتالیس ارب ،بندرگاہوں اورجہازرانی کے لیے بارہ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ریلویزکی جاری سکیموں کے لیے ستائیس ارب ساٹھ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ایسٹ بے ایکسپریس وے کی تعمیر پرچارارب سترکروڑ روپے خرچ ہوں گے۔آئی ٹی وٹیلی کام کے لیے بانوے کروڑ ،پٹرولیم وقدرتی وسائل کے لیے ۳۴ کروڑ۸۹ لاکھ مختص کیے گئے ہیں۔ بجٹ کے دوسرے دن پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے کہاکہ بجٹ غریبوں کے لیے ہے۔کھانے پینے کی چیزوں پرکوئی ٹیکس نہیں لگایا۔گلگت بلتستان میں گندم پرسبسڈی ختم نہیں کی گئی۔اس کے لیے ساڑھے چھ ارب رکھے ہیں۔موبائل فون کی قیمتیں بڑھائی نہیں کم کی گئی ہیں۔مہنگے ترین موبائل پرریگولری ڈیوٹی برھائی ہے۔وفاقی سیکرٹری کی تنخواہوں کودوگنانہیں کیاگیا بجلی کے شعبے مین سبسڈی پرکمی نہیں کی گئی۔ٹیکس کابوجھ صاحب حیثیت لوگوں پرڈالاگیا ہے۔کوئی بھی بات ہو، سانحہ ہو، واقعہ ہو اس پرردعمل دوطرح کاہوتاہے۔ ایک عملی اورایک زبانی۔زبانی ردعمل کوبیان کہتے ہیں اورعملی ردعمل اس کے مطابق عملی کام کرنا ہوتا ہے۔ہرسال وفاقی بجٹ پربھی دونوں طرح کاردعمل سامنے آتا ہے۔پہلے ہم ا س کے زبانی ردعمل کی طرف آتے ہیں۔پہلاردعمل توہرسال کی طرح وزیرخزانہ کی طرف سے آیا۔انہوں نے تمام خدشات کومستردکردیا کہ یہ نہیں کیاوہ نہیں کیا۔بجٹ کی آڑ میں کسی کوقیمتیں بڑھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔وزیراعلیٰ شہبازشریف نے کہا کہ وفاقی حکومت نے عوام دوست اورمتوازن بجٹ پیش کیاہے۔وفاقی وزیراطلاعات ونشریات پرویزرشیدنے کہا کہ عمران تبصرے سے قبل بجٹ سمجھ لیں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا۔تنخواہ اورپنشن وصول کرنے والوں کی آمدن میں اضافہ اوراخراجات کم ہوئے ہیں۔پانچ لاکھ تک سالانہ آمدنی والوں کاٹیکس تین فیصد کم کیا۔سابق صدرآصف علی زرداری نے کہا ہے کہ بجٹ عوام دشمن ہے غریبوں کوصرف دعاؤں پرچھوڑ دیاگیاہے۔حکومت کاتیسرابجٹ بھی اکاؤنٹنٹ کابیان ہے۔امیروں کونوازا گیا۔ٹیکس اصلاحات یامعیشت کی دستاویزکاکوئی ویژن نہیں۔سرکاری ملازمین بجٹ سے مایوس ہوئے۔حکومت ظالمانہ فیصلے واپس لے۔گلگت بلتستان کے عوام کی مراعات ختم نہیں کرنے دیں گے۔نوازشریف نے چندروزقبل گلگت سکردو روڈ کی تعمیراورگلگت بلتستان کی ترقی کے لیے ۴۷ارب روپے خرچ کرنے کااعلان کیامگربجٹ میں رقم نہیں رکھی۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرخورشیدشاہ نے قومی اسمبلی میں بجٹ پربحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ وزیرخزانہ نے کہا تھا کہ کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا۔ہم نے تالیاں بجائیں لیکن بارباربجٹ آیا۔بہترہے کہ فنانس بل میں لکھ دیں کہ سال میں چارمرتبہ بجٹ آئے گا۔اگرنیاٹیکس لگاناہے تواسے اسمبلی میں لایاجائے۔وزیرخزانہ سے اپیل ہے کہ تنخواہوں میں پچیس فیصداضافہ کیاجائے۔ان کاکہناتھا کہ ایک طرف نجکاری کرنے جارہے ہیں دوسری طرف ایسے ادارے بنارہے ہیں جوبوجھ ہیں۔نجکاری کرنی ہے تومیٹروکی کریں۔تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اسدعمرنے قومی اسمبلی میں بجٹ تجاویزپیش کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصداضافے اورجی ایس ٹی کی شرح میں کمی کامطالبہ کیاہے۔چیئرمین ایگری کلچرسٹیڈنگ کمیٹی پنجاب ایم پی اے چوہدری محمدافضل گل ایڈووکیٹ حکومت نے معتدل بجٹ پیش کرکے عوام دوست ہونے کاثبوت دیا ہے۔ حکومت نے بجٹ میں تعمیراتی زراعت کے لیے بہترین مراعات کااعلان کیا۔غلام فریدکوریجہ نے کہاکہ بجٹ میں صنعت کاروں کوفائدہ غریبوں کونقصان پہنچایاگیا۔تحریک سواداعظم پاکستان کے مرکزی چیئرمین پیرسیّد زوارحسین شاہ بخاری نے کہا ہے کہ حکومت نے عوام دشمن بجٹ پیش کیاہے۔جی ایس ٹی کے اضافہ سے مہنگائی کاسیلاب آئے گا۔عوام پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔سرکاری ملازمین اورلیبریونین کاکہنا ہے کہ حکومت نے مایوس کیا۔ پنشن تنخواہ میں معمولی اضافہ مستردکرتے ہیں۔بجٹ کے اثرات سٹریٹ کرائم میں اضافہ کریں گے۔حکومت میٹروکی بجائے ہیلتھ منصوبوں کااعلان کرے۔سرمایہ داروں اورجاگیرداروں پرٹیکس عائدکیاجائے۔کسانوں اورزمینداروں نے بھی بجٹ کوکاشتکاردشمن قراردے دیا ہے کسان تنظیموں کاکہنا ہے کہ حکومت کے پاس کسانوں، کاشتکاروں اورزمینداروں کے لیے کچھ نہیں ہے۔وفاقی پارلیمانی سیکرٹری ترقیات ومنصوبہ بندی سیّد محمدثقلین شاہ بخاری نے کہا کہ حکومت نے عوام دوست بجٹ پیش کیا ہے۔یہ توتھا حالیہ بجٹ پرزبانی ردعمل۔ اب عملی ردعمل کی طرف آتے ہیں۔وزیرخزانہ نے کہا کہ بجٹ کی آڑمیں کسی کوقیمتیں بڑھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ان کایہ بیان یہی ردعمل روکنے کی طرف اشارہ ہے۔ حالانکہ قیمتیں بڑھانے والے نہ توپہلے کسی سے ا س کی اجازت لیتے ہیں اورنہ ہی وہ بعدمیں کسی سے لیں گے۔ہرسال بجٹ کااعلان ہوتے ہی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتاہے۔ ابھی تواس پربحث ہونا ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ میں بحث کے بعد اس میں ضروری ردوبدل کیا جاتاہے۔ پھر اس کی منظوری دی جاتی ہے۔ پھر یہ نافذہوتاہے۔قیمتیں بڑھانے والے بجٹ سنتے ہی اسے اپنے اوپرلاگوکردیتے ہیں۔ملتان سے خبر ہے کہ چھوٹا،بڑاگوشت، چینی، چکن، دالوں سمیت ۲۲ اشیاء مہنگی ہوگئی ہیں۔ایک قومی اخبارمیں اسلام آبادسے خبرہے کہ بجٹ پیش ہوتے ہی مہنگائی کاطوفان آگیا۔اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں دس سے پندرہ فیصداضافہ ہوگیا ہے۔عام مارکیٹ میں چھوٹے بڑے گوشت کی قیمتوں میں پچاس روپے،مرغی کی قیمت میں ۳۵ روپے کلواضافہ ہوگیاہے۔سبزی فروشوں نے بھی سبزی کی قیمتوں میں ہوشربااضافہ کردیاہے۔تنخواہوں میں معمولی اضافے کے خلاف کلرک شہرشہراحتجاج کررہے ہیں۔

نوازشریف کی حکومت نے آئندہ مالی سال کابجٹ پیش کرکے اپنی حکومت کی آئندہ سال کی معاشی ترجیحات کااعلان کردیا ہے۔صرف مسلم لیگ ن کے سیاستدان ہی اس بجٹ کی تعریف کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی نے اس بجٹ کی تعریف نہیں کی ہے۔وفاقی حکومت نے نئے سال قومی میزانیہ میں دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔ا س کی ضرورت بھی تھی۔ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن ضرب عضب جاری ہے۔اس کے متاثرین کی آبادکاری اورانفراسٹرکچر کی تعمیرکامرحلہ بھی ابھی باقی ہے۔اس کے لیے اخراجا ت کی ضرورت ہے۔تعمیراتی میٹریل ، صنعتی وزرعی مشینری سستی ہونے سے ملک میں صنعت وزراعت کی ترقی میں مددملے گی۔تاہم یہ فائدہ بڑے صنعت کاراورزمیندارلے جائیں گے۔مشروبات مہنگے ہونے سے غریب پاکستانی گرمی بجھانے سے محروم ہوجائیں گے۔مشروبات صرف امیرہی نہیں غریب بھی استعمال کرتے ہیں۔پانی وبجلی کے منصوبوں کے لیے فنڈزتورکھے گئے ہیں تاہم کالاباغ ڈیم اورلیہ تونسہ پل کے لیے بجٹ میں رقم مختص نہ کرکے حکومت نے سرائیکی وسیب کونظراندازکرنے کی کوشش کی ہے۔حلال گوشت اوربجلی کی ترسیل کے منصوبوں پرٹیکسوں میں چھوٹ دینے سے ان کی ترقی میں مددملے گی۔سولرٹیوب ویل کے لیے قرضے پرسودختم ہونے سے کسان سولرٹیوب ویل لگوانے میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔اس سے بجلی کی بچت میں مددملے گی۔سولرٹیوب ویل پرصرف سودختم کردیناہی کافی نہیں ہے۔اس کی قیمتوں میں بھی کمی کی جانی چاہیے۔خیبرپختونخوامیں نئی صنعتوں پرپانچ سال کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی ہے۔اس طرح کی سہولت دیگرصوبوں کوبھی دی جائے۔ٹیکسٹائل کے لیے مالیاتی پیکج کااعلان اسے مستحکم کرنے میں مدددے گا۔کسی نے اس بجٹ کوعوام دوست کہا ہے توکسی نے اسے عوام دشمن کانام دیا ہے۔یہ میزانیہ نہ توعوام دوست ہے اورنہ ہی عوام دشمن۔عوام کی بنیادی ضروریات کی اشیاء سستی کردی جاتیں ۔عوام کومعمولی سابھی ریلیف دے دیاجاتا توسیاستدانوں کواس طرح کے بیانات دینے کاموقع نہ ملتا۔وفاقی حکومت اس سالانہ میزانیہ میں صنعت اورزراعت کوریلیف دے کران کے فروغ کی طرف قدم بڑھایا ہے۔کیونکہ ملک کی معیشت کاانحصارزراعت اورصنعت پرہے۔زراعت اورصنعت کی ترقی واستحکام کے لیے خام مال کی سستے داموں اوربروقت فراہمی کے ساتھ ساتھ زرعی مداخل، کھاد، بیج، ڈیزل،زرعی ادویات کاسستاہونابھی ضروری ہے۔ان کی ترقی کے لیے کسان اورصنعت کارکے اخراجات میں کمی لانابھی ضروری ہے۔گذشتہ سال کے بجٹ کوہم نے معیشت دوست بجٹ کانام دیاتھا۔اس کی تصدیق مختلف مالیاتی اداروں کی پاکستان کی معیشت بارے رپورٹوں سے ہوچکی ہے۔ اس سال کا سالانہ میزانیہ زراعت وصنعت دوست میزانیہ ہے۔ہماری یہ بات آئندہ مالی سال میں ثابت ہوجائے گی۔
 
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350582 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.